• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دُنیا بھر میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کو 50اور 60کی دہائی سے2009تک پاسپورٹ کی تجدید، نیا پاسپورٹ بنوانا پھر اُسے مشین ریڈ ایبل میں تبدیل کرانا، مینوئل شناختی کارڈ کو ڈیجیٹل کرانا، نکاح نامہ کی تصدیق، مختار نامہ، بچوں کا اندراج، شادی کے اجازت نامے، دیار غیر میں شادی کرتے وقت کنوارہ ہونے کا سرٹیفکیٹ، ماں باپ کا شادی کے لئے اجازت نامہ اور ایسے دوسرے کاموں سمیت ان کاغذات کے بننے اور تصدیق کے عمل سے گزرنے میں تاخیر جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لئے تمام مسائل کے حل کا مرکز پاکستانی ’’سفارت خانے‘‘ تھے جہاں ان مسائل کے ساتھ ساتھ کسی بھی بڑے سے بڑے مسئلے کو بیان کیا جاتا تھا کچھ مسائل حل ہو جاتے لیکن زیادہ سنجیدہ مسائل حکومت پاکستان کو ارسال کر دئیے جاتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تارکین وطن پاکستانیوں کے لئے سفارت خانے اور قونصل خانے ہی مسائل کے حل کا مرکز ہوتے تھے۔ سفارت خانے اب بھی موجود ہیں اور وہ اِن مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں بھی ہیں لیکن اب اوورسیز پاکستانیوں سمیت دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے مسائل کی سنگینی نے نیا رُخ اختیار کر لیا ہے، وہ مسائل سفارت خانوں سے حل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اُن مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی حکومتی ادارہ دوسرے ممالک میں کام کر رہا ہے، پہلے تو مسلمانوں کو غیر ملکی ہونے جیسے مسائل کا سامنا تھا مگر سانحہ نائن الیون کے بعد دُنیا بھر کے تارکین وطن مسلمانوں کو نئے مسائل نے آن گھیرا، افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں کو درپیش موجودہ مسائل کے حل کے لئے کسی دروازے پر دستک نہیں دی جا سکتی، اُن مسائل کے حل کے لئے ہر مسلمان خود ہی سفیر ہے اور اُس کا مقامی کمیونٹی میں مثبت کردار ایک سفارت خانے کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسلاموفوبیا جیسے تکلیف دہ مسئلے نے تارکین وطن مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ مسئلہ روز بروز تیزی سے پرورش پا رہا ہے۔ دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں سمیت تمام تارکین وطن مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، کوئی حادثہ ہو جائے تو مغربی میڈیا کی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کو مسلمانوں کے ساتھ نتھی کر دیا جائے، پاکستانی دیار غیر میں پیسے کمانے آتے ہیں اِس لئے جونہی انکے بچے 16سال کے ہوتے ہیں تو بجائے اُن بچوں کو یورپی ممالک میں تعلیم دلانے کے والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ دُکان پر بٹھا لیا جائے تاکہ وہ ہمارا بازُو بنیں اور ہماری کمائی میں اضافہ ہو جس سے اُن بچوں کو اپنی تعلیم ترک کرنا پڑتی ہے، حالانکہ اگر وہی بچے دیارِ غیر میں تعلیم حاصل کر لیں تو ان ممالک کے کلچر سے آشنا ہو کر مقامی لوگوں میں گھل مل سکتے ہیں، اِس طرح مسلمانوں کے بارے میں مقامی کمیونٹی کا خوف اور منفی سوچ کو تبدیل کرنے میں ہمیں مدد مل سکتی ہے۔ جن کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اُن والدین کو چاہئے کہ وہ اسکول جائیں وہاں بچوں کے اساتذہ سے ملیں، حصول تعلیم کے لئے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں، اُن کو احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دیں، خود محنت کریں اور بچوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیں۔ کچھ پاکستانی والدین میں پیسہ کمانے کی جستجو لالچ کی حد تک ہوتی ہے، والد اور والدہ علیحدہ علیحدہ نوکری کرتے ہیں، اِس وجہ سے وہ اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے، اُن کی ضروریات کا دھیان نہیں رکھتے، بچے کیا کر رہے ہیں، یہ جانچنے کا اُن والدین کے پاس ٹائم نہیں ہوتا، ایسے والدین کے بچے خود کو آزاد محسوس کرتے ہوئے اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔ دیار غیر میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ ایسے پروگرامز منعقد کریں جہاں فیملیز کو مدعو کیا جائے، وہاں پاکستانی کلچر، تہذیب و تمدن، مقامی تعلیم کی ضرورت اور اسلامی شعار جیسے موضوعات پر بات کی جائے۔ ایسے پروگرامز میں مقامی کمیونٹی کے بچوں کو بلایا جائے تاکہ وہ یہ سب کچھ دیکھیں اور گھروں میں اپنے والدین کو جا کر بتائیں کہ مسلمان کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کو چاہئے کہ وہ حکومت پاکستان اور مقامی اداروں کے ساتھ مل کر ایسے سیمینارز منعقد کریں کہ جہاں مقامی اور پاکستانی کمیونٹی اکٹھے بیٹھے، سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں کانفرنسز اور لیکچر ہونے چاہئیں جن میں بتایا جائے کہ اسلام کتنا رحم کرنے والا مذہب ہے۔ کمیونٹی سینٹرز بنائے جائیں جہاں ہماری خواتین کے ساتھ مقامی خواتین مل بیٹھ کر بات کر سکیں، مقامی اسکولوں میں اردُو اور اسلامی تعلیم دئیے جانے پر کام ہونا چاہئے تاکہ جس طرح ہم دوسرے ممالک کی زبان اور کلچر سے آشنائی حاصل کرتے ہیں اسی طرح مقامی لوگ ارُدو اور اسلامی رسومات سے آشنا ہوں۔ سفارت خانوں کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے دیہی، علاقائی اور روایتی کھیلوں کو دوسرے ممالک میں فروغ دیں تاکہ صحت مندانہ سرگرمیوں کا پرچار ہو سکے۔ اِن ممالک میں کسی پاکستانی کے پاس زیادہ پیسے ہوں تو وہ غیر قانونی طریقے ’’ ہُنڈی‘‘ کے ذریعے اپنے پیسے پاکستان بھجوانے کی کوشش کرتا ہے، اِس عمل میں اگر وہ پولیس کے ہاتھوں پکڑا جائے تو سارے پیسے ضبط اور بچوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے جس سے بچے مقامی معاشرے میں شرمندہ زندگی گزارتے ہیں، حکومت پاکستان کو چاہئے کہ یورپی ممالک میں پاکستانی بینک بنایا جائے تاکہ لوگ قانونی طریقے سے اپنے پیسے بھجوا سکیں۔ پاکستانی والدین کو چاہئے کہ وہ خود زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تکلیف اُٹھا لیں لیکن اپنے بچوں کو تعلیم ضرور دلائیں کیونکہ وہ بچے ہی ہمارا کل اور آنے والی نسلوں کا مستقبل ہیں۔ جن ممالک میں دہری شہریت کا کنٹریکٹ نہیں ہے وہاں حکومت پاکستان کو دہری شہریت کا کنٹریکٹ کرنا چاہئے تاکہ کسی ملک کی شہریت لیتے وقت پاکستان کی شہریت چھوڑنی نہ پڑے۔ تارکین وطن پاکستانی اپنے وطن میں ہونے والی مردم شماری میں اپنا اندراج نہ ہونے پر بھی حکومت سے نالاں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ شوکت عزیز، چوہدری سرور، معین قریشی اور دوسری شخصیات کو دیار غیر سے لا کر پاکستان میں وزیراعظم، صدر اور گورنر بنایا جا سکتا ہے لیکن دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کو اپنے وطن میں ہونے والی مردم شماری میں اندراج سے محروم رکھنا لمحہ فکریہ ہے۔

.
تازہ ترین