• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکرالحمدللہ !بالآخر جناب شہباز شریف جیسے بااختیار اور مستعد وزیر اعلیٰ نے بھی مان لیا کہ پاکستان میں مطلوب حقیقی تبدیلی کا آغاز ابھی تک نہیں ہوا تھا۔شہباز صاحب جو خود کو وزیر ا علیٰ سے زیادہ ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہلواناپسند کرتے ہیں نے گزشتہ روز جنگ کے ادارتی صفحے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’’حقیقی تبدیلی کا آغاز‘‘ میں حکومت پنجاب کے گرلز ایجوکیشن کے ترقیاتی پروگرام ’’زیور تعلیم‘‘ سے قارئین کو متعارف کرایا ہے۔ گویا اس سے قبل اسٹیٹس کو کے سخت گیر ماحول میں تبدیلی کا آغاز نہیں ہو رہا تھا، یوں شہباز صاحب بے نتیجہ تبدیلی تبدیلی پکارنے والے ہم جیسے دل جلوں کے ہمنوا بن گئےاور انہوں نے اپنے اختیار سے حقیقی تبدیلی کا آغاز بھی کر دیا۔’’آئین نو‘‘ میں کتنی ہی مرتبہ اعتراف کی طاقت کی وضاحت کی گئی۔
آج خادم ادنیٰ ( خاکسار) کھل کر شہباز صاحب آپ کا ہمنوا ہے۔جی ہاں!’’زیور تعلیم ‘‘ ہی حقیقی اور پاکستان کو شدت سے مطلوب سماجی تبدیلی کی شدید بنیادی اور اولین ضرورت ہے۔کاش آپ گزشتہ اقتدار کی پوری باری ہونے والے پہلے سال میں اس کھلے راز کو سمجھ جاتے کہ ’’زیور تعلیم‘‘ ہی مطلوب تبدیلی کا حقیقی آغاز ہے تو آج ساڑھے آٹھ سال بعد اس کے انتہائی مثبت نتائج نکلنے شروع ہو چکے ہوتے۔ڈویلپمنٹ سائنس کے مطابق ’’گرلز ایجوکیشن ‘‘ ہی عوام کو مطلوب سماجی تبدیلی کا دوررس نتائج کا حامل ترقیاتی پروگرام ہے جو ہمارے بیمار معاشرے میں سماجی رویوں میں مطلوب تبدیلی کا سب سے سیدھا راستہ ہے اور حقیقی تبدیلی برپا ہونے کی ضمانت بھی۔بہرحال اب بھی دیرآید درست آید پر اکتفا کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے ’’زیور تعلیم ‘‘کے نام سے گرلز ایجوکیشن کا جو پروگرام شروع کیا ہے بنیادی طور پر یہ ’’ویمن ایمپاورمینٹ‘‘کا پروگرام ہے جس کا مقصد خواتین پر مشتمل ملک کی نصف آبادی کو بااختیار،خودمختار اور پراعتماد بنانا ہے، جو موجود نومولود نئی اور آنے والی نسل کو ایمپاورڈ کرکے یقینی معاشرتی استحکام کی ضمانت حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ عالمی سطح کے ’’ایجینٹس اف چینج‘‘ (مطلوب سماجی تبدیلی برپا کرنے کی جدوجہد میں سرگرم ادارے اور افراد)اس امر پر متفق ہیں کہ ان کی عالمگیر کوششوں کے کامیابی سے حصول کی نتیجہ خیز حکمت ’’ویمن ایمپاورمینٹ‘‘ بھی ہے جس کا آغاز ’’گرلز ایجوکیشن‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت ملک میں لڑکیاں تعلیم نہیں پا رہیں ؟ جو تعلیم ان کو مطلوب اور جتنی درکار ہے ایٹ لارج ہماری لڑکیاں آج بھی اس سے تشویشناک حد تک محروم ہیں، معاشرتی رویوں میں بڑھتا بگاڑ اسی کا واضح اشارہ ہے کہ ہماری خواتین خصوصاً مائیں مطلوب درجے اور معیار کی ایمپاورمینٹ سے بہت دور ہیں۔بلاشبہ اس کی بڑی ذمہ داری مردوں حکومتوں، ایجینٹس اف چینج پر بھی آتی ہے، جنہوں نے ایسی مائیں تیار کرنے میں انقلاب آفریں اقدامات سے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی، لہٰذا ہماری لوکیپسٹی مائیں وہ مرد ہی تیار نہ کر سکیں جو مطلوب تبدیلی برپا کرتے کہ یہی سارا ریاستی اور معاشرتی نظام تشکیل دینے اور اسے چلانے پر حاوی ہیں۔
اب جبکہ تبدیلی کے سوال پر خادم اعلیٰ اور ان کی اب تک کی حکومتی ترجیحات کے ناقدین کا اختلاف ’’زیور تعلیم ‘‘ سے ختم نہیں تو (اس پروگرام سے اتفاق ہے )کم ضرور ہو گا ایسے میں ضروری ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے مضمون میں پروگرام کے پس پردہ اپنی جس سوچ و اپروچ سے قارئین کو آگاہ کیا ہے اسے تجزیہ نگار اپنے تجزیے کا موضوع بنائیں تاکہ اسے کامیاب کرنے اور مزید رہنمائی کے لئے ماہرین اور عوام کی معاونت حاصل ہو سکے۔بلاشبہ جیسا کہ شہباز صاحب نے ’’زیور تعلیم ‘‘کو قرآن و حدیث کی تعلیمات قیام پاکستان کے مقاصد اور قائد و جناح کے ویژن کے مطابق مملکت کو جدید اسلامی فلاحی ریاست بنانے سے ہم آہنگ قرار دیا ہے۔ یہ پروگرام کا اہم ترین پہلو ہے جو قابل قدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے گرلز ایجوکیشن جیسے حکیمانہ اقدام میں ان کی سنجیدہ سوچ کا مظہر ہے۔تاہم اس کا جھول اور کلیاں بھی واضح ہیں۔خادم ادنیٰ (خاکسار) حقیقی تبدیلی کے اتنے اہم اور بنیادی پروگرام کو ’’سستی روٹی ‘‘ پروگرام جیسے ڈیزاسٹر اور اورنج ٹرین کی سی زیر بحث متنازع حیثیت سے بچانے اور پروگرام کی اپروچ کے مطابق کامیابی سے مطلوب نتائج حاصل کرنے کیلئے اس امید کے ساتھ درج ذیل گزارشات پیش کرتا ہے کہ غور فرمائیں گے :
٭گنجلک اور عوام مخالف گورننس کے حامل پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ’’گرلز ایجوکیشن‘‘ جیسا تبدیلی کا اہم اور حساس پروگرام شدت سے Participatory Approchکا تقاضا کرتا ہے، جسے اختیار کرنے کی عملی شکل پروگرام کی حتمی تشکیل میں Intended Benificries(جن کی ترقی مقصود ہے) کی شرکت داری ہے جو پالیسی و فیصلہ سازی اور ان پر عملدرآمد میں نچلی سطح تک ان کے نمائندوں کی شراکت (شیئر) سے ہوتی ہے۔ ٭کسی بھی سماجی یا اقتصادی پروگرام کے لئے لازم ہے کہ اس کا آغاز پالیسی سازی سے کیا جائے جو دستاویز کی شکل میں ہو، اور اس کی تیاری پالیسی سازی کے نظری اصولوں کے مطابق ماہرین تیار کریں اور عوام الناس کی شرکت کے لئے اسے حتمی شکل دینے سے پہلے بذریعہ تشہیر ان کا شیئر بصورت تجاویز لیا جائے۔ ٭پروگرام کو جاری و ساری رکھنے کے لئے قانون سازی کے ذریعے اس کے مالی ذریعے کو جاری و ساری رکھنے کے لئے بڑے بڑے روایتی ٹیکس نادہندگان سے ٹیکس وصولی کو یقینی بنایا جائے اس کا مخصوص فیصد ’’گرلز ایجوکیشن‘‘ کے علاوہ کسی اور دوسری مد میں منتقل کرنا قانوناً ممکن ہی نہ ہو۔ ٭پرائمری اور سیکنڈری تک کی سطح پر بچیوں کو کونسی تعلیم دینی ہے کہ ان کی ایمپاورمینٹ ’’گرلز ایجوکیشن پروگرام ‘‘ سے خودبخود بڑھنا شروع ہو جائے اس کا پیمائش عشاریے اور سلیبس سائنٹیفک ہوں۔ ٭اہم ترین ضرورت ہائی پوٹینشل کوالٹی ٹیچرز تیار کرنے کے لئے ماسٹر ٹرینرز کی بڑی کور ٹیم پر مشتمل لاہور ٹریننگ اکیڈیمی فار کوالٹی ٹیچنگ قائم کی جائے یہ سب سے بڑی بنیادی اور مسلسل ضرورت ہو گی جس پر پروگرام کی کامیابی کا بڑا انحصار ہوگا۔ ٭گرلز ایجوکیشن میں لیپ ٹاپ کی مفت تقسیم جیسے ’’متروک ڈلیوری سسٹم‘‘ کو ختم کرکے کیپسٹی بلڈنگ پر زور دیا جائے خصوصاً Innovative Entrepranearshionکو فروغ دینے کیلئے سیکنڈری سطح سے ہی رجحانات کی تشکیل کا اہتمام کیا جائے۔ ٭پاکستانی گرلز ایجوکیشن کو دنیا میں مثالی بنانے کیلئے پنجاب میں مطلوب ادارہ اور قانون سازی کی جائے، اس کیلئے پروگرام کو زیادہ سے زیادہ رزلٹ اورینٹڈ بنانے کیلئے سماجی علوم کے ماہرین خصوصاً سوشیالوجی، سوشل سائیکلی، جینڈر ایکلوالٹی، ماس کمیونیکیشن، ڈیموگرافی، فیلڈ ریسرچ کی مطلوب مہارت اولین ان پٹ کے طور پر لی جائے۔ ٭ترقی پذیر ممالک میں کامیاب ترین گرلز ایجوکیشن کے پروگرامز کا جائزہ لیا جائے کہ انکے کون سے پہلو پاکستان میں اختیار کئے جا سکتے ہیں پوری پاکستانی سوسائٹی کو بذریعہ میڈیا موبلائز کیا جائے اور اسے اسکورنگ کی روایتی سیاست سے بچایا جائے۔وماعلینا الاالبلاغ

.
تازہ ترین