یہ صحیح نہیں کہ عملاً بیرونِ ملک پاکستانیوں کی انٹر بینک ریٹ پر رقوم کی ترسیل بتدریج کم ہوتی جائیںگی۔ اس ضمن میں یہ ترسیل پہلے اوپن مارکیٹ کے ذریعے اوپن ریٹ پرہی ہوتی تھی۔ اب یہ ترسیل نارمل بینکنگ چینل کے ذریعے انٹر بینک ریٹ پر بھی ہورہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں اس ترسیل میں فرق نہیں آیا۔ امریکہ اور دیگر ممد ممالک نے ان سالوں میں جو امداد دی ہے وہ عارضی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے بھی یہ ترسیل حسبِ معمول ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائیگی۔ چند سالوں کے بعد شاید اس قسم کی مراعات حاصل ہی نہ ہوں۔ لیکن جو قرضے طویل مدت کے لئے ری شیڈول ہوئے ہیں وہ بدستور رہیں گے۔ پاکستان نے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے کچھ اقتصادی اصلاحات کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اگر پاکستان ان اصلاحات پر پورا اترے تو ان اداروں سے امداد جاری ہی رہے گی!
فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ کیلئے اقتصادی حالات، کاروباری ماحول، لا اینڈ آرڈر اور مستحکم سیاسی نظام نہایت اہم ہیں۔ برآمدات میں مناسب اضافے کی توقع بھی ہے۔ لیکن صرف برآمدات بڑھانے سے کوئی بھی ترقی پذیر ملک اپنے فارن ایکسچینج ریزرو میں اضافہ نہیں کر سکتا کیونکہ اکثر و بیشتر اس ملک کی درآمدات بالعموم برآمدات سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یعنی درآمدی ضروریات مکمل طور پر برآمدی وسائل سے پورا نہیں ہو سکتیں۔ دونوں کم و بیش ہی ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے درآمدات اور برآمدات کے مابین فرق کم ہو جائے لیکن یہ عمل آسان نہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان نے اس ہی پالیسی پر عمل درآمد کیا ہے اور یہ فرق کم ہوتا گیا ہے۔ شواہد سے ظاہر ہے کہ آئندہ بھی یہ عمل جاری رہےگا۔قابلِ ذکر یہ امر بھی ہے کہ پاکستان کے ریزرو میں زیادہ تر اضافہ چند سال پیشتر سے ہی ہونا شروع ہوا جلد ہی اس دوران ریزرو اچھے خاصے بڑھ گئے۔ صرف جولائی 2001 سے جون 2002 کے دوران ریزرو میں اضافہ سو فیصد سے زیادہ ہوا ۔ پس یہ سمجھنا کہ فارن ایکسچینج ریزرو میں اضافہ اس دور میں ہوا ہے، نا مناسب ہے۔ ریزرو تو پہلے ہی سے بڑھنا شروع ہو گئے تھے جس کی اہم وجہ پیرس کلب کی ری شیڈولنگ بھی تھی اور پاکستانیوں کی رقوم کی ترسیل جو اسٹیٹ بینک نے انٹر بینک ریٹ پر خریدی۔ آئندہ ریزرو کی بڑھوتی کا انحصار اقتصادی پالیسیوں، معاشی نظم و نسق اور پالیسی اسٹرکچرپر عمل درآمد ہے۔ ان صحیح خطوط پر عمل جاری رہا تو ریزرو بڑھتے ہی رہیں گے!سوال یہ بھی ہے کہ ریزرو کا معیشت سے کیا تعلق ہے؟ فارن ایکسچینج ریزرو مانیٹری پالیسی اور ایکسچینج ریٹ کے تعین میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سن دو ہزار کے اوائل میں ریزرو کم تھے تو روپے کی قدر میں کمی آئی اور سرمایہ ملک سے باہر منتقل ہونے لگا۔ اسٹیٹ بینک نے اس رجحان کو روکنے کے لئے شرح سود میں اضافہ کیا۔ حالانکہ افراطِ زر اور کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ میں کمی کے باوجود شرح سود میں اضافے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ لیکن مناسب ریزرو نہ ہونے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو یہ اقدام اُٹھانا پڑا۔ ایکسچینج ریٹ کے استحکام کیلئے اس وقت ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھا دیا گیا۔ اس عمل کے معیشت پر منفی اثرات بھی ہوئے۔ اسکے برعکس فارن ایکسچینج ریزرو بلین ڈالر ہے۔ تو ایکسچینج ریٹ 64 روپے فی ڈالر پر قائم رہا اور ریزرو کی وجہ سے مارکیٹ میں بھی سٹے بازی میں حد درجہ کمی آئی۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ بہر حال روپے کی قدر میں مناسب اضافہ ہوا جو کہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ اس طرح ڈالر کا ریٹ 60روپے پر آگیا جو اب سو روپے سے قدرے اوپر ہے۔ اسکے نتیجے میں اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی میں نرمی اختیار کی اور حال ہی میں ڈسکاؤنٹ ریٹ تقریباً 9 فیصد ہوگیا ہے۔دوسری طرف ٹریثری بلز پر شرح منافع میں بھی کمی آئی ہے۔ اس سے بیرونِ ملک قرضے کی ادائیگیوں میں اور بھی فائدہ ہوگا۔ بینکوں کے قرضوں پر مارک اپ کی شرح بھی کم ہوئی جبکہ ڈپازٹ کے نرخوں میں خاص اثر نہیں پڑا۔ ایکسپورٹ فنانس پر مارک اپ کی شرح 8 فیصد ہوگئی ہے جس سے برآمد کنندگان کے کاروبار پر مثبت اثر پڑا ہے۔ شرح سود کم ہونے کے باوجود اب بھی یہ شرح زیادہ ہے۔ معیشت کی منجملہ ترقی کے لئے اسے ابھی اور بھی کم ہونا چاہئے!۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر پاکستان کے پاس اس قدر فارن ایکسچینج ریزرو نہ ہوتے تو پاکستان کی صورتِ حال کیا ہوتی! ماضی میں پاکستان ایسی صورتِ حال سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ بہرحال اس صورت میں روپے کی قدر اور کم ہو جاتی اور ڈالر حسبِ دستور کم و بیش ہو جاتا۔ اسٹیٹ بینک کو مداخلت کر کے شرح سود بڑھانا پڑتی۔ نتیجتاً پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے لئے قرضے مہنگے ہوتے۔ خام مال اور درآمدی اشیاء کی لاگت میں اضافہ ہوتا اور قلت بھی!مہنگے ڈالر کی وجہ سے پٹرولیم اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں فیول آئل، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ سیمنٹ اور دیگر صنعتیں جو فیول آئل استعمال کرتی ہیں۔ اس اضافے سے ان کی پیداواری لاگت بھی بے تحاشا بڑھ جاتی ہے۔ بجلی، گیس اور پانی کی قیمتیں جو ابھی بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ناگزیر ہوا جس سے آمدنی والا طبقہ متاثر ہوا ہے۔ اوسط آمدنی والا طبقہ جو کار یا موٹر سائیکل استعمال کرتا ہے وہ بھی اس اضافے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا۔ پیداواری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جس سے پورے ملک میں واویلا ہوا ہے۔ حکومت کی سطح پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کی ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے اور اسٹیٹ بینک کو مجبوراً رسدِ زر ( منی سپلائی) میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں افراطِ زر میں اضافہ ہوا ہے، بہت سے اداروں کی منفعت کم ہوئی ہے اور ایسے بہت سے ادارے جن کی پیداوار کا انحصار درآمدی خام مال پر ہے وہ متاثر ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک سے سرمایہ باہر منتقل ہوا ہے اور اس سے فارن ایکسچینج اور منی مارکیٹ پر مزید دباؤ بڑھ گیاہے۔ ایسی صورتِ حال میں ملک بہت بڑے بحران سے دو چار ہوا ہے۔ اس صورت کے پیشِ نظر پاکستان گزشتہ سالوں میں مضبوط فارن ایکسچینج ریزرو کی وجہ سے مندرجہ بالا صورتِ حال سے دو چار نہیں ہوااور 11 ستمبر، افغان جنگ، انڈین پارلیمنٹ پر حملہ اور کراچی میں بم دھماکے جیسے واقعات سے بخوبی نبرد آزما ہوا۔ بہرحال پاکستانی معیشت اب بھی اتنی کمزور نہیں اور سرمایہ کاری ، پیداواریت اور طلب کے معاملے میں سست روی بھی نہیں ہوئی!قرضوں میں کمی کی اسٹرٹیجی اور پبلک سیکٹر اداروں کے ذریعے معاشی ترقی کی اسٹرٹیجی میں سے کسی ایک کو اپنایا جا سکتا ہے۔ چونکہ ملک پر قرضوں کا بوجھ زیادہ ہے اور ان کی ادائیگی کے لئے وسائل بھی نہیں تو یہی ضروری سمجھا گیا کہ صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے معیشت کے بیرونی پہلو پر توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں جو اسٹرٹیجی اختیار کی گئی اس سے ایکسچینج ریٹ کو استحکام ، سرمائےکی دوبارہ ملک میں منتقلی، معیشت کو ڈالر کے اثر سے نکالنے، افراطِ زر اور شرح سود کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ مارکیٹ میں بروقت مداخلت سے ریزرو اکٹھا کرنے میں مدد ہوئی جس کے نتیجے میں برآمدی اشیاء کی حیثیت برقراررہی۔بہر حال معیشت کی ترقی کے لئے اگر ریزرو کو زیادہ تر استعمال کیا گیا تو ملک ایک بار پھر بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہوگا۔ بے یقینی اور بحران کی کیفیت پیدا ہوگی۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ کاری کیلئے راغب ہو ۔
اس کیلئے سیاسی استحکام ، پاکستان کی دور رس پالیسیوں پر سیاسی پارٹیوں کا اتفاق، سرمایہ کاری کا ماحول، بیوروکریسی اور کاروباری طبقے میں ہم آہنگی، اندرونی اور بیرونی سیکورٹی میں بہتری اور موجودہ اسٹرکچرل اصلاحات کے تسلسل جیسے عوامل کی ضرورت ہے ۔ فارن ایکسچینج ریزرو میں اضافے سے پاکستان نے اچھی اقتصادی پالیسی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ لیکن معیشت کو مقامی طور پر مستحکم کرنے کیلئے یہ اضافہ بدستور رہنا چاہئے۔ متعلقہ دیگر اقدامات کی ضرورت بھی ہے جو توجہ طلب ہے: