ہم منصوبہ بندی کے ماہر ہیں مگر ہمارا کوئی منصوبہ مکمل نہ ہو سکا جس پر اعتراضات کی بھرمار نہ ہوئی۔ اکثر منصوبے جن کی افادیت سے انکار نہیں اعتراضات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔اس وقت پاک چین معاشی راہداری کا منصوبہ گھٹنیوں چلنا شروع بھی نہیں ہوا کہ لوگ اس کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے خیال میں اورنج لائن ٹرین ہماری ثقافت کے لئے خطرہ ہے، کیا خطرہ ہے ؟ اس کا تو اظہار نہیں کیا اے پی سی نے وزیر اعظم سے گفتگو کے لئے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ کچھ سیاسی رہنما بھی اس کے مخالف ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بنک کا بیان بھی شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی اعتراض ہے کہ اس سے چھوٹے صوبوں کو نقصان ہو گا۔ یہ بھی مطالبہ ہے کہ سارا کام رازداری میں ہو رہا ہے۔ اور عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ منصوبے کے مصارف جو46ارب ہوں گے ۔قرضے کی صورت میں ملیں گے یا ان کے مساوی ضروری آلات اور سامان آئے گا۔ پھر قرضے کی واپسی کی کیا شرائط ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ منصوبے کی دستاویز کافی طویل ہوں گی ان کو عوام کے سامنے رکھنا مشکل ہو گا۔ سب صوبوں کو ان کی بساط کے مطابق فوائد حاصل ہوں گے جن کا پتہ منصوبوں کی تکمیل کے بعد چلے گا۔ بلوچستان کو آغاز کی وجہ سے اور پختون خوا کو اختتام کی بنا پر فائدے ملیں گے۔ توانائی کے شعبے میں مختلف پلانٹوں پر جو لاگت آئے گی اس کے تخمینے 11جنوری کے جنگ میں دیئے گئے ہیں۔
توانائی کی ترقی کے بعد دوسرا شعبہ سڑکوں کی تعمیر کا ہے۔ نئی سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ پر انی سڑکوں کی مرمت بھی شامل ہے سب سے اہم شا ہراہ گوادر سے خنجر آب تک سڑک کی تعمیر ہے، چین سڑکوں کی تعمیر میں دلچسپی نہیں لے رہا یہ کام پاکستان کو اپنے ذرائع سے کرنا ہو گا۔ بلوچستان میں سڑکوں کی قلت ہے وہاں سڑکوں کی تعمیر شروع ہو گئی ہے۔ دونوں جگہ سڑکیں دو رویہ ہوں گی پھر ان کو چار اور چھ رویہ کر دیا جائے گا۔ سڑکوں کے دونوں طرف اسٹور، دکانیں، وغیرہ ہوں گی۔ ان کے عقب میں چھوٹی چھوٹی صنعتیں قائم کی جائیں گی تاکہ وہ اپنی مصنوعات ان اسٹوروں اور دکانوں تک پہنچائیں ۔یہ طریقہ طویل مدتی عرصے پر مشتمل ہو گا ۔ منصوبوں کے لئے رقم توانائی کے شعبے۔ صنعتی پارکوں ،ٹول ٹیکسوں سے حاصل ہو گی ۔ منصوبے کی حفاظت کے لئے اسپیشل فورس تشکیل دی جا رہی ہے۔یہ منصوبہ بلوچستان کے جنوبی شہر اور بندرگاہ گوادر سے شروع ہو رہا ہے۔ گوادر کی ترقی کراچی کی ترقی کے مماثل ہے۔ قیام پاکستان کے وقت گوادر مملکت پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔ یہ سلطان مسقط کےپاس تھا اور یہاں ان کی ایک فوجی چوکی بھی تھی ۔پاکستان کی1951کی پہلی مردم شماری میں گوادر کو نہیں گنا گیا تھا۔1957میں وزیر اعظم ملک فیروز خان نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اس کو خرید لیا۔ 1961کی مردم شماری میں یہ پہلی مرتبہ شامل کیا گیا، اس وقت اس کی آبادی 13ہزار تھی۔ یہ مسلسل عدم توجہ کا شکار رہا اور صرف سمندری پیداوار ہی ایران وغیرہ کو برآمد کرتا تھا اگر اس وقت سے اس کو ہر سال تھوڑی مددملتی رہتی تو یہ اچھی خاصی بندرگاہ ثابت ہو جاتا ۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے چھٹے پنج سالہ منصوبے میں بلوچستان کو اہمیت دی۔سینڈک کا منصوبہ ۔ جس سے سونا ،چاندی ،تانبہ اور گندھک حاصل ہوتی تھی پر توجہ دی۔ ساتھ ہی پھلوں کے تحفظ اور بارانی علاقوں میں مویشی فارموں کی تجویز رکھی۔ ایک سال بعد پنج سالہ منصوبہ مسترد کر دیا گیا اور اس کے بجائے سالانہ ترقیاتی پروگرام کو رائج کیا۔03-04کے وفاقی بجٹ میں گوادر کوفری اکنامک زون بنانے کا کام شروع ہوا، اور اس کو بطور بندرگاہ ترقی دینے کے لئے سنگا پور کی ایک کمپنی کو چالیس سال پر لیز پر دے دیا گیا۔ بعد میں یہ معاہدہ منسوخ کر دیا گیا جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس کو ایک بڑی بندرگاہ بنانے کا عزم کیا گیاانہوں نے یہاں کا دورہ بھی کیا بہرحال یہ اس قابل ہو گیا کہ نواز شریف نے یہاں کا بینہ کا اجلاس طلب کیا اور چھٹے مالیاتی ایوارڈ کی منظوری یہیں دی گئی۔ حال ہی میں گوادر کو ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کا جڑواں قرار دیا گیا۔پاک چین اقتصادی منصوبے کا ایک ٹکڑا گوادر سے شروع ہو رہا ہے۔ لینڈ مافیا یہاں کی ارزاں زمینیں خرید کر مکانات اور اپارٹمنٹس بنا رہی ہے۔ یہاں کافی ترقیاتی کام ہو چکا ہے۔ گوادر میں کراچی کی طرح ترقی کے کافی مواقع موجود ہیں، اس کو دو ر جدید کا ایک نیا شہر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ پرانے شہروں کو نیا بنانا کافی دشوار ہے مگر اس نوز ائیدہ آبادی کو ترقی یافتہ بنانا نسبتاً آسان ہے۔ اس کے لئے حسب ذیل تجاویز پر غور کرنا ہو گا۔
1۔ وقت کی سب سے سے اہم تیز آمدورفت کا ذریعہ ہوائی اڈہ یہاں موجود ہے مگر اس کا رن وے پھسلن والا ہے اس لئے بحریہ کے جہاز پسنی میں اترتے ہیں اور وہاں سے بذریعہ کوسٹر گوادر جاتے ہیں اس کی فوری مرمت کی ضرورت ہے۔
2۔ زمینی راستوں میں ریل اور سڑکوںکی ضرورت ہے۔ ریل کا منصوبہ بن رہا ہے۔
3۔ تعلیم کے لئے ہائی اسکولز۔ انٹر اور گریجویٹ کالج قائم ہونے چا ہئیں اور جب ان سے کامیاب طلبا فارغ التحصیل ہو کر نکلیں تو یونی ورسٹی قائم کر دی جائے۔
4۔ اعلیٰ معیار کے کم از کم دو اسپتال، معاون ڈسپنسر یاں ، کلینکس، ضروری ہیں۔ عطائی ڈاکٹروں اور طبیبوں کا داخلہ بند ہو۔
5شہر میں دو فائیو اسٹار اور تین چار فور اسٹار ہوٹل ہونا چاہئیں۔
6۔ تفریح کے لئے گالف کورس، فٹ بال کے میدان ،سینما گھر ، پورٹ کلب، تیران گاہیں، مچھلی کےشکار کی سہولتیں، سپر مارکیٹ اور اندرون شہر نقل و حمل کے لئے ٹیکسیاں اور رکشوں کا انتظام ہونا چاہئے۔
7۔صفائی ستھرائی اور جان و مال کے تحفظ کا معقول انتظام ہونا چاہئے۔
8۔نجی مکانوں اور اپارٹمنٹس کی تعمیر منصوبے سے ہونا چاہئے۔
9۔آبادی کو بے تحاشا بڑھنے سے روکنا چاہئے، اسلام آباد کی بگڑتی ہوئی صورت حال پیش نظرر ہے ۔
10۔ تفریحی اور صنعتی پارکس، معیاری مچھلی گھر ،تعمیر کئے جائیں۔
گوادر ،پاک چین اقتصادی منصوبے کا جزو ہے۔ اس کو متنازع نہ بنایا جائے، چینی سفارت خانہ اس کی کامیابی کا متمنی ہے۔ قدرت نے پاکستان کی ترقی کے لئے ایک نادر موقع عطاکیا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ ناکام ہو گیا تو اس کے دور رس نتائج کو برداشت کرنا معیشت کے لئے ناقابل برداشت بوجھ ہو گا۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا یہ قول پیش نظر رکھنا ہو گا کہ’’یہ منصوبہ عارضی طور پر گیم چینجر تو ہو سکتا ہے مگر ٖFate changerصرف اسی وقت ہو گا جب پاکستان خود بھی کچھ موثر اور فیصلہ کن اقدامات اٹھائے۔ جو تلخ اور ناخوشگوار بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسے روپیہ روپے کو کھینچتا ہے اسی طرح ترقی مقناطیس بن کر ترقی کو اپنے اندر جذب کرتی رہتی ہے۔