• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انٹرنیٹ دورجدید کی حیران کن ایجاد ہے جس کو عام کرتے وقت شاید یہ گمان بھی نہ ہوگا کہ آگے چل کر فیس بک، ٹویٹر، واٹس اپ اور یوٹیوب جیسی انقلابی سہولتیں انسانی معاشرے کے سُدھار یا بگاڑ کے حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کریں گی، سابق امریکی صدر اوباما کی انتخابی مہم میں جہاں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا وہیں عرب اسپرنگ میں مضبوط ترین آمریتیں زمین بوس کرنا سوشل میڈیا کی بدولت ہی ممکن ہو سکا۔ آج روایتی میڈیا سمیت تمام ادارے سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہو چکے ہیں، دنیا بھر کے اخبارات ای پیپرز کی شکل میں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، صبح سویرے ہاکر اخبار لیکر بعد میں آتا ہے پہلے ہی ای پیپرز متعلقہ اخباری ویب سائٹ پر ملاحظہ کر لیا جاتا ہے، ویب ٹی وی یا موبائل ایپ پر تمام ٹی وی چینلز موجود ہیں، حاکمِ وقت ہو یا پھر فلمی ستارے یا عام شہری، سب سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اب جبکہ ہم کسی بھی اہم واقعہ کی اطلاع سوشل میڈیا کی وجہ سے برق رفتاری سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں وہیں پاکستان جیسے ترقی یافتہ ممالک میں جو ضرورت محسوس کی جارہی ہے وہ صحیح اور غلط معلومات کے درمیان فرق ہے۔ کسی بھی مشہور شخصیت کا نام فیس بک یا ٹویٹر پر سرچ کرکے دیکھا جائے تو اتنے زیادہ رزلٹ ظاہر ہوں گے کہ سمجھ میں نہیں آئے گا کہ اصلی اکاؤنٹ ان میں سے کونسا ہے، سب سے زیادہ قابلِ تشویش صورتحال جب پیدا ہوتی ہے جب ان سے منسوب کوئی جعلی بیان سوشل میڈیا کی بدولت روایتی میڈیا میں جگہ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے، مختلف سیاسی جماعتوں کے تنخواہ دار سوشل میڈیا سیل کے ہاتھوں مخالفین کی کردار کشی کی شکایات عام ہیں، انٹرنیٹ پر گالم گلوچ کا کلچر عام کرنے میں ایک سیاسی جماعت مبینہ طور پر ملوث بتائی جاتی ہے، ٹویٹر پر روزمرہ کے ٹاپ ٹرینڈز پر نظر ڈالی جائے تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کتنے حقیقت پر مبنی اور کتنے پیسے کے بل بوتے پر مصنوعی رائے عامہ کے عکاس ہوتے ہیں، قدرتی آفات و حادثات کی صورت میں جعلی تصاویر وائرل ہو جاتی ہیں۔ یہ صورتحال درحقیقت ان تمام شہریوں کیلئے پریشان کن رہی ہے جو سوشل میڈیا کے مثبت انداز میں استعمال کے خواہاں ہیں لیکن حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا کی وجہ سے ماڈل قندیل بلوچ اور مردان یونیورسٹی میں نوجوان طالب علم مشال خان کے المناک قتل، توہین مذہب کے بڑھتے ہوئے واقعات اور دفاعِ وطن کیلئے کوشاں افواجِ پاکستان اور معزز اعلیٰ عدلیہ پر بلاجواز تنقید نے معاشرے کے ہر ذی شعور طبقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے، میری نظر میں ایسے افسوسناک واقعات کے پس منظر عوامل میں آزادی رائے کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھانا، رائے عامہ کو مذہبی تعلیمات کے حوالے سے کنفیوژ کرنا، ملکی سلامتی کے اداروں سے عوام کو متنفر کرنا اور معاشرے میں انتشار پھیلانا ہی ہے۔ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب جنہوں نے سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی بروقت روک تھام یقینی بنانے کی ٹھان لی ہے۔ میری نظر میں سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی کے رحجان کی سب سے اہم ترین وجہ گمنام فیک آئی ڈیز کی موجودگی ہے، مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب ماضی میں پی ٹی سی ایل ٹیلیفون صارفین کو روز مرہ غیر اخلاقی رانگ نمبر کالز کا سامنا کرنا پڑتا تھا، سی ایل آئی سہولت متعارف ہوتے ہی رانگ کالز کا گراف ایک دم نیچے گر گیا، آج موبائل فون پر اگر کوئی رانگ کال مِل جائے تو کالر مہذب انداز میں معذرت کرتا ہے۔ یہی میکانزم ہمیں سوشل میڈیا پر اپنانے کی ضرورت ہے، ایک انسان کی زبان سے نکلنے والے کلمات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ تحریری صورت میں تو ان کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے، اگر ایک انسان کو یہ یقین محکم ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے حقیقت پر مبنی ہے تو وہ اپنی شناخت پوشیدہ رکھ کر فیک آئی ڈیز کا سہارا کیوں لینا چاہتا ہے؟ میں مانتا ہوں کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا کوئی آسان عمل نہیں لیکن معاشرے میں بہتری مضبوط کردار والے اور بہادر افراد ہی لایا کرتے ہیں، گمنام طریقوں سے نفرت آمیز مواد کی نشر واشاعت کرنا دنیا کے کسی بھی قانون کی نظر میںفساد اور شرانگیزی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مہذب معاشرے سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی روک تھام یقینی بنانے میں مصروفِ عمل ہیں، متحدہ عرب امارات میں متعدد ایسی ویب سائٹس بلاک ہیں جنکے ویب ماسٹر زکا اتا پتا معلوم نہیں جبکہ سوشل میڈیا پرکسی دوسرے ملک کو نشانہ بنانا الیکٹرانک وارفیئرگردانتے ہوئے قابل گرفت جرم ہے۔ اب پاکستان کا حال ملاحظہ کیا جائے جہاں ہر دوسری گمنام ویب سائٹ یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ غیرمصدقہ ذرائع کے حوالے سے نیوز فراہمی کے نام پر پروپیگنڈہ کرنے میں ملوث ہے، مختلف مسالک کے علمبردار ممالک کی جنگیں پاکستانی سوشل میڈیا پر لڑی جارہی ہیں، سب سے زیادہ تشویشناک امر مخالفین کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کو تمام نیوز ویب سائٹ مالکان اور بلاگرزکو اعتماد میں لینا چاہئے کہ وہ اپنا رابطہ،تفصیلات ویب سائٹ پر عام کریں، کوئی بھی نیوز پوسٹ کرنے سے قبل اچھی طرح تسلی کرلیں اور جائز شکایت کی صورت میں پوسٹ ڈیلیٹ یا تصحیح کا میکانزم وضع کریں،نیوز پوسٹ کے نیچے کمنٹس تبصروں میں اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ ایڈیٹر کے کردار کو مستحکم کر نا، بلاگرز کے احساسِ ذمہ داری میں اضافہ کرنا ان کے اپنے مفاد میں بھی یہ ہے کہ مصدقہ خبروںاور شائستہ اندازِ بیان کی بنا پر قارئین انہیں سنجیدہ لیں گے، وہیںاردو اور دیگر مقامی زبانوں میں بیرون ممالک سے چلنے والی گمنام ویب سائٹس کو اپنی شناخت عیاںنہ کرنے پر بلاک کردیا جائے۔سوشل میڈیا پر بے بنیاد انفارمیشن کو مزید آگے پھیلانے سے روکنے کیلئے ایک ملک گیر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت بھی ہے جس میں مختلف مذہبی تعلیمات کے حوالے سے تلقین کی جائے کہ انسان اپنے تمام اعمال کیلئے خداوند تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے اور بغیر تصدیق کسی بھی غلط پوسٹ کو آگے شیئر کردینا ثواب کا کام نہیں۔اب جبکہ پاکستان میں تمام موبائل فون صارفین کی بائیومیٹرک تصدیق مکمل ہوچکی ہے تو حکومت کو سوشل میڈیاکے استعمال کو موبائل فون سمزسے منسلک کرنے پر غور کرنا چاہئے،میں بذاتِ خود لندن ایئرپورٹ سمیت دیگر عالمی پبلک مقامات پر فری وائی فائی سے استفادہ کرنے کیلئے لوکل موبائل نمبرفراہم کرتارہا ہوں،فیس بک اور ٹوئٹرانتظامیہ سے بھی حکومتی سطح پر بات کی جاسکتی ہے کہ اکاؤنٹس رجسٹریشن اور لاگ ان کیلئے موبائل نمبرز کا استعمال کیا جائے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا کے اداروں کی پاکستان میں دفاتر کی عدم موجودگی میں صورتحال پیچیدہ ہوسکتی ہے اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں دشواری سے انتشاری قوتوں کے حوصلے بلند ہونے کا خدشہ ہے، میںان حالات میں یہ تجویز پیش کرنا چاہوںگا کہ ترجیحی بنیادوں پر عوام میں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کیلئے شعور اجاگر کیا جائے تاکہ وہ ناپسندیدہ موا د کی تشہیرکا باعث نہ بنیں۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے توسط سے انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز یقینی بنائیں کہ کوئی بھی انٹرنیٹ صارف آن لائن دنیا میں قدم رکھنے سے قبل اپنا موبائل نمبر فراہم کرے جس کے بعد ویریفکیشن کوڈ موبائل فون پر ہی فراہم کیا جائے، اس سلسلے میں گوگل کی معروف ای میل سروس جی میل کیلئے ٹو اسٹیپ سیکورٹی میکانزم کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ جب ایک صارف کو پتا ہوگا کہ انٹر نیٹ استعمال کرتے وقت بائیومیٹرک تصدیق شدہ موبائل نمبرحکومتی اداروںکے پاس ہے تووہ خودبخود اپنے آپ کو قانون کے دائرے میں محسوس کرتے ہوئے دہشت گردی ودیگرسماج دشمن منفی سرگرمیوں سے باز رہے گا، جبکہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی قدروں کی پامالی بھی اتنی آسان نہیں ہوسکے گی۔ان حالات میں جب دنیا بھرکے معاشرے آزادی اظہار رائے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے حدود و قیود کا تعین کررہے ہیں،میں سمجھتا ہوں کہ حکومتِ پاکستان کی سوشل میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو کامیاب بنانا معاشرے کے تمام طبقات کی قومی ذمہ داری ہے۔



.
تازہ ترین