• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حقوق اور ذمہ داریاں…پاکستان میں ترقی کے تمام مواقع موجود ہیں....اسد عمر…سی ای او،اینگروکیمیکل

اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری اور ہزاروں افراد پر مشتمل قومی اور بین الاقوامی کمپنیاں چلانے والے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
پاکستان بنانے میں لوگوں کے شعور اور علم کی روشنی نے جتنا اہم کردار ادا کیا اس کے نتیجے میں پاکستان کو وہ ملک ہونا چاہیے تھا جسے علم کی طاقت کا پورا ادراک ہو۔ ایک شخص، سر سید احمد خان اور ان کے قائم کردہ ایک ادارے، علی گڑھ یونیورسٹی کا پاکستان بنانے میں ایک کلیدی کردار ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کو اگر نکال کر دیکھیں تو واضح ہوجائے گا کہ پاکستان کا بننا کتنا محال تھا۔ ایک آدمی اور اس کے بنائے ہوئے ایک ادارے نے پورے برصغیرکی تاریخ بدل کررکھ دی ۔ یہ ہوتی ہے علم کی طاقت، ہمیں اگر ترقی کرنی ہے تو علم کی قدرکرنی ہوگی۔
شعور ایسے لوگوں کی طرف سے آتا ہے جو سوچتے ہیں۔ پھر یہ سوچ عملی اقدام میں تبدیل کی جانی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں آگاہی آتی جا رہی ہے۔ تبدیلی آہستہ آہستہ آتی ہے، ہمیں اس کا ادراک نہ ہو رہا ہو لیکن یہ عمل ہوتا رہتا ہے۔ پاکستانی معاشرے نے ایک سماج کی حیثیت سے آگے کا سفر طے کیا ہے۔ اب ان مسائل کا بھی محاصرہ کیا جاتا ہے جنہیں پہلے نظر اندازکردیا جاتا تھا۔ 1947ء میں ہم نے جب سفر شروع کیا تھا تو ہماری اقدار اور اصول بہت اعلیٰ تھے، وقت کے ساتھ ساتھ ہم ان سے دور ہوتے گئے لیکن اب دوبارہ ہم اعلیٰ اقدارکی طرف جا رہے ہیں۔ عوام نے دوبارہ معاشرتی اقدارکو اہمیت دینا شروع کردی ہے اب حکومتیں بھی خود کو جوابدہ تصورکرتی ہیں۔ پاکستان کو درپیش پیچیدہ صورت حال کے باوجود کاروباری سطح پر جتنی بھی کمپنیاں ہیں ان میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اسی طرح اینگرو پاکستان میں اس وقت جو سرمایہ کاری کررہی ہے پاکستان کی تاریخ میں کسی کمپنی نے اس سطح پر نہیں کی تھی۔ یہ اس لیے کہ ہمیں یقین ہے کہ یہاں مواقع موجود ہیں، بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔واقعات کے تناظر میں پاکستان میں دو طرح کی پیش رفت ہوئی ہیں ایک مختصر مدت اور دوسری طویل مدت کے اثرات کی حامل ہیں۔ مختصر مدت میں ہمیں منفی عوامل کا سامنا رہا ہے، جس میں سیکورٹی کے مسائل سرفہرست ہیں معاشی طور پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سے مدد لینی پڑی، لیکن یہ سب کچھ مختصر مدت کیلئے ہے جبکہ طویل المدت تناظر میں زیادہ مثبت تبدیلی واقع ہوئی ہے اور ہوگی۔ کسی بھی قوم کی ترقی کیلئے جو ضروری عناصر ہوتے ہیں وہ پروان چڑھ رہے ہیں جس میں قانون کی حکمرانی، میڈیا کی آزادی اور عوام میں شعور شامل ہیں۔ مثبت تبدیلی مڈل کلاس طبقے کی بیداری ہے، ظاہر ہے کہ ہمیں یہ احساس ہو رہا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں کس طرح آگے بڑھتی ہیں۔پاکستانیوں میں تمام مطلوبہ صلاحیتیں ہیں وہ مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ہمارے دنیا بھرکے ملکوں سے تعلقات ہیں، بڑے مالیاتی اداروں سے روابط ہیں، دنیا بھر کے بڑے انڈسٹریل یونٹ اور پاور کمپنیوں سے ہمارا اشتراک کار ہے۔ پاکستانی دنیا کے بہترین لوگوں میں سے ہیں۔ جس طرح براعظم امریکا میں امریکی سب سے زیادہ ذہین اور قابل مانے جاتے ہیں اسی طرح جنوبی ایشیا کے لوگ اپنی قابلیت اور ذہانت کیلئے مشہور ہیں۔ ایک ورلڈ اکنامک فورم میں ایک جاپانی خاتون نے مجھ سے پوچھا، اسد مجھے یہ بتائیں کہ مجھے جو بھی پاکستانی ملتا ہے وہ اتنا اسمارٹ ہوتا ہے تو پھر آپ کی معیشت بہترکیوں نہیں ہے۔ اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے ہمارے ہاں ورک فورس پر توجہ نہیں دی گئی، عالمی سطح کی تعلیم کیلئے پاکستانیوں نے سرمایہ کاری صرف0.01 کی ہے۔ حقیقی تعلیم زیادہ سے زیادہ پانچ فیصدکو ملتی ہے ان میں سے ورلڈ کلاس تعلیم صرف 0.01 فیصد لوگوں کو۔ آپ ان 0.01 کو 100 فیصد تک نہیں لے جا سکتے تو صرف دس فیصد تک لے جائیں معیشت کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ جب تک جدید علوم و ہنرکی حامل ورک فورس پیدا نہیں کی جائے گی اس وقت تک ہمارے قدرتی ذرائع بھی کام نہیں آئیں گے اور ہم نے گزشتہ ساٹھ برسوں میں یہی دیکھا ہے۔ Knowledge based economy سے ہر چیز متاثر ہوتی ہے، ادارے بھی ترقی پاتے ہیں، ریسرچ اور ڈیولپمنٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس قدرتی ذرائع ہیں، ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا اریگیشن سسٹم ہے، دریا ہیں، ڈیم ہیں جن سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانا ہے،کوئلے کے ذخائر ہیں، بڑی تعداد میں پیتل ہمارے پاس ہے، سونے کے ذخائر بھی ہیں لیکن ان ذرائع سے اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا جب تک آپ کے پاس مطلوبہ پروفیشنل نہیں ہوں گے، سعودی عرب میں تیل کے ذخائر ریت میں مدفون تھے جب امریکا اور یورپ سے لوگ آئے تو انہیں اس کے بارے میں معلوم ہوا۔ قدرتی ذرائع خود بخودکسی قوم کی معیشت کو ترقی نہیں دے سکتے۔ اس کی ایک مثال سعودی عرب ہے جہاں تیل-30 1920ء سے نکل رہا تھا اور 1965ء تک سعودی عرب انتہائی غریب ملک تھا، یعنی تیل دریافت ہونے کے 30 سال بعد بھی غربت کا شکار تھا جب 1973ء میں شاہ فیصل، ذکی یمنی اور دیگر لوگوں نے اپنے ذرائع کو اپنے کنٹرول میں لینے کا فیصلہ کیا تو پہلی نسل جب باہر سے پڑھ کر واپس آئی تو اسے احساس ہوا کہ ہوکیا رہا ہے، اس کے بعد صرف دس سال کے اندر اندر سعودی عرب مکمل طور پر تبدیل ہوگیا تھا۔ عالمی معاشی بحران کے پاکستان پر دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں، عالمی سطح پر جب اشیاء کی قیمتیں بڑھیں خاص طور پر تیل کی قیمتوں کی وجہ سے پاکستان کا خالص رواں اکاؤنٹ خسارہ دوگنے سے بھی زیادہ بڑھ گیا تھا۔ یہ خسارہ نہایت خطرناک سطح پر یعنی جی ڈی پی کے تقریباً سات یا آٹھ فیصد کے قریب پہنچ گیا تھا پاکستان جیسے ملک کیلئے چار فیصد تک بھی خطرناک سطح ہوتی ہے۔147 ڈالر تک تیل کی قیمت پہنچ گئی تھیں عالمی معاشی بحران کے بعد تیل کی قیمت 147 سے32 ڈالر تک پہنچ گئیں، توانائی اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے ہمیں بڑا فائدہ پہنچا ہمارا خسارہ تقریباً چار پانچ ارب ڈالرکے قریب گھٹا۔ عالمی بحران میں ہم اس لیے بھی بچے رہے کہ ہماری بہت زیادہ برآمدات نہیں ہیں، برآمدات کم ہونے سے ہمیں نقصان ہوا، تاہم دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ دنیا کے بڑے برآمدی ملکوں کی برآمدات50 فیصد تک کم ہوگئی تھیں جبکہ ہماری برآمدات میں مشکل سے10 فیصد سے بھی کم کمی واقع ہوئی۔ اسی دوران دوسرے ملکوں میں مالیاتی اداروں کے تباہ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں نے بڑی تعداد میں رقوم پاکستان منتقل کرنا شروع کیں جن سے ہمیں بڑا فائدہ پہنچا۔ منفی اثرات میں سرفہرست غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری میں کمی ہے۔ سرمایہ کاروں نے سرمایہ نکالنا شروع کردیا تھا، عالمی سطح پر بونڈ مارکیٹ بالکل تباہ ہوگئی تھی، ہمیں چھوٹا خسارہ بھی فنانس کرنے میں مشکلات پیش آرہی تھیں اور اس وجہ سے ہمیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصارکرنا پڑا تھا۔ ابھی بحران ختم ہونے کی صرف شروعات ہی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں بڑھی ہیں اور تیل کی قیمت پھر70 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے، سونے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان کو جنگی بنیادوں پر توانائی کے ذرائع پیدا کرنے ہوں گے، تمام ترقی یافتہ ملکوں میں سروس سیکٹرکو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ پڑوسی ملک میں سروس سیکٹر پر توجہ دینے سے وہ دنیا کا بیک آفس بن گیا ہے۔ اس کی صرف سروس سیکٹرکی برآمدات ہماری مجموعی برآمدات کے دس گنا کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ ہماری پسماندگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم افرادی قوت کی تربیت، تعلیم اور صحت پر خرچ نہیں کررہے۔ ان شعبوں میں سرمایہ کاری کیے بغیر کوئی ملک مستحکم معاشی نمو حاصل نہیں کرسکتاجوکسان لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو اور ہم یہ توقع کریں کہ وہ جدید ترین ایگری کلچر طریقہ کار استعمال کرے جو عالمی سطح پر استعمال کیے جا رہے ہیں تو یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوگا۔ اسی طرح شرح خواندگی بڑھنے کے باجود پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد نہایت کم ہے۔ پاکستان میں پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والوں بچوں کی تعداد صرف ایک فیصد ہے۔ پاکستان میں تمام حالات کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کاری ہوتی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ 2007ء میں پاکستان میں6.5 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری (FDI) ہوئی تھی۔ ایک ارب ڈالر سے زیادہ پورٹ فولیو سرمایہ کاری ہوئی تھی، مجموعی طور پر8 ارب ڈالر لگائے گئے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا تناسب بھارت سے زیادہ تھا لیکن یہ سرمایہ کاری ان صنعتوں میں نہیں کی گئی جو برآمدات پر مبنی ہیں۔ برآمدی سیکٹر میں دنیا بھر میں زیادہ سرمایہ کاری ان شعبوں میں ہوتی ہے جو معیشت کیلئے اہم ہوں جیسے آئل اینڈگیس۔ اس کے علاوہ دنیا میں کوئی برآمدی شعبہ ایسا نہیں ہے جو پوری ملکی معیشت سنبھال سکے۔ دوسرا شعبہ لوگوں کی مہارت اور افرادی قوت ہے۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بنیادی توجہ اور سرمائے کا استعمال قوموں کو بنانے والے شعبوں میں کرنا چاہیے جیسے ہیومن انفرااسٹرکچر، تعلیم، صحت، ، فزیکل انفرااسٹرکچر وغیرہ۔ پاکستان میں فرٹیلائزر انڈسٹری نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے، جب پاکستان بنا اس وقت اس انڈسٹری کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اب فرٹیلائزر انڈسٹری خاص طور پر نائیٹروجینس کا شمار دنیا کی دس سب سے بڑی فرٹیلائزر انڈسٹری میں ہوتا ہے۔ اس کی کارکردگی اور پیداوار عالمی معیارکے مطابق ہے۔ اس لیے اس کی طلب برآمدی فرٹیلائزر سے زیادہ ہے، اگر آپ نے برآمدی فرٹیلائزر فروخت کرنی ہوگی تو پاکستان میں اس کی قیمت مقامی فرٹیلائزر سے کم رکھنی پڑے گی کیوں کہ صارف یہ بات سمجھتے ہیں کہ مقامی فرٹیلائزرکا معیار برآمدی فرٹیلائزر سے بہت اعلیٰ ہے۔ اگر آپ اینگروکیمیکل کی ہی مثال لے لیں تو ہمارا ڈھرکی میں قائم مینوفیکچرنگ مرکز دنیا کا پانچواں سب سے بڑا یوریا مینوفیکچرنگ سائٹ شمار ہوتا ہے۔ یہ مرکز شمالی امریکا اور مغربی یورپ میں موجودکسی بھی یوریا مینوفیکچرنگ سائٹ سے بڑا ہے۔ اس وقت جو یوریا پلانٹ زیر تکمیل ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا یوریا پلانٹ ہوگا۔ اس انڈسٹری میں یہ ترقی کیوں آئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پروفیشنل ازم کی اہمیت کو سمجھا گیا اور اس انڈسٹری کو پیشہ ور لوگوں نے چلایا ہے۔ اس ترقی کے باعث یہ انڈسٹری ٹیکنالوجی،کارکردگی اور ہر معیار سے دنیا کی بہترین انڈسٹری بن گئی ہے، اگر پاکستان میں مقامی کمپنیاں اعلیٰ معیاری مال فراہم کریں تو ہمارے لوگ برآمدی اشیاء کے مقابلے میں مقامی طور پر تیارکردہ مال خریدیں گے۔ جب پاکستان کی فرٹیلائزر انڈسٹری ترقی کا اعلیٰ معیار حاصل کرسکتی ہے تو باقی صنعتیں بھی یہی معیار حاصل کرسکتی ہیں۔ آپ جہاں تک ترقی کرنا چاہتے ہیں اس کے پاکستان میں مواقع دستیاب ہیں۔ یہاں مجھے وہ تمام مواقع میسر ہیں جو ترقی کیلئے دوسرے ملکوں میں دستیاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے پاکستان میں کام کرنے پر خوشی ہے، میرا ذاتی تجربہ ہے کہ پاکستان میں محنت کرنے والے کو اس کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ مجھے جتنی کامیابیاں ملی ہیں، میرا یقین ہے کہ وہ سب کو مل سکتی ہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ بھی۔



تازہ ترین