• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کے مخالفین اور کچھ دوسرے عناصر بشمول چند ٹی وی اینکرز اور وٹس ایپ گروپس ایک ماحول بنانے میں مصروف ہیں کہ جے آئی ٹی جونہی 10جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی اسپیشل بنچ کے سامنے پیش کرے گی نوازشریف کی سیاست ختم ہو جائے گی اور ن لیگ تتربتر ہوجائے گی۔ یہ حضرات عدالتی فیصلے سے قبل ہی اپنا فیصلہ سنا رہے ہیں مقصد صاف ظاہر ہے کہ ہر طریقے سے جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ پر اثر انداز ہو ا جاسکے۔ ان عناصر میں سب سے آگے آگے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ہیں جو ہر سیاسی محاذ پر ن لیگ سے شکست کے بعد عدالت کے ذریعے سیاسی میدان مارنا چاہتے ہیں ۔سب سے پہلے انہوں نے ہی جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کیا تھا اور کہا تھا کہ نوازشریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے یہ صحیح اور شفاف تفتیش نہیں کرسکتی مگر جوں جوں جے آئی ٹی نے کام شروع کیا اور اس کا تعصب اظہرمن الشمس ہوتا گیا ان کے دل اور دماغ میں اس کے لئے محبت پیدا ہوتی گئی اور اب تو وہ اس حد تک چلے گئے ہیں کہ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ جے آئی ٹی پر حکومتی دبائو کے خلاف احتجاجی مہم شروع کر دیں گے۔ کچھ ٹی وی چینلزدن رات لگے ہوئے ہیں کہ ہر صورت عدالت وزیراعظم کو نااہل قرار دے دے تاکہ ان کی پرانی دلی خواہش پوری ہو۔ اسپیشل بنچ کے جج صاحبان کے کچھ ریمارکس نے بھی ایسے ہی عناصر کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ معززججوں نے جے آئی ٹی کی ہر رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا اور جو جو بھی اس نے اپنی رپورٹوں میں مختلف حکومتی اداروں اور شخصیات پر الزامات لگائے ان کو من و عن تسلیم کیا۔
جے آئی ٹی اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے بڑے بھرپور انداز میں ہاتھ پیر مار رہی ہے تاکہ اسے کچھ نہ کچھ شریف فیملی کے خلاف مل جائے ۔اگراسے واقعی کوئی ’’بم شیل‘‘شہادت اور ثبوت ہاتھ لگ گیا ہوتا تو وہ یقیناً وزیراعظم کے کزن میاں طارق شفیع کو نہ ڈراتی اور نہ ہی دھمکیاں دیتی کہ وہ اپنا حلفیہ بیان جو کہ انہوں نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں دیا ہوا ہے کوواپس لیں ورنہ 14سال قید کے لئے تیار ہو جائیں۔طارق شفیع نے اس بیان میں دبئی اسٹیل مل کے بارے میں منی ٹریل دی تھی۔ جے آئی ٹی کے رویئے سے ظاہر ہوا کہ اس کے لئے یہ حلفیہ بیان کتنا اہم ہے ورنہ وہ ایسی زبان نہ استعمال کرتی جو کہ اس نے گواہ کے خلاف استعمال کی ۔طارق شفیع نے ان ملنے والی دھمکیوں سے جے آئی ٹی کے ہیڈ واجد ضیاء کو ایک خط کے ذریعے مطلع کر دیا تھا اور اس لیٹر کی ایک کاپی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو بھی ارسال کی تھی تاہم عدالت عظمیٰ نے اس کا کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا۔اگر جے آئی ٹی کو واقعی شریف فیملی کے خلاف کوئی قابل اعتبار شہادت مل گئی ہوتی تو وہ جاوید کیانی کو وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور نہ کرتی۔جاوید کیانی نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ وہ حدیبیہ پیپرزملز ریفرنس میں پہلے ہی باعزت بری ہو چکے ہیں ۔اسی طرح نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو بھی جے آئی ٹی کافی دبائو میں لائی تاکہ وہ اس کی مرضی کے مطابق بیان دے دیں۔ اپنے انٹرویو کے بعد انہوں نے ایک خط جو کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھا تھا دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا جیسے وہ سزائے موت کے قیدی ہیں۔
شریف فیملی کے خلاف پاناما کیس 2 آف شور کمپنیاں اور لندن فلیٹس کے ارد گرد گھومتا ہے جس میں پاکستان سے پیسہ باہر جانے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔اس نے دبئی میں اسٹیل مل لگا ئی اسے بیچ کر پیسہ قطر میں انویسٹ کیا اور وہاں سے فنڈز سعودی عرب اور لندن منتقل کئے گئے لہٰذا جے آئی ٹی کے لئے ضروری تھا کہ وہ ان تمام ممالک بشمول دبئی ٗ قطر ٗسعودی عرب اور برطانیہ کا دورہ کرتی تاکہ وہاں سے مواد اکٹھا کر سکتی مگر اس نے ابھی تک ایسا نہیں کیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی تحقیقات نا مکمل اور ناقص ہوں گی ۔ اس کا سارا زور حدیبیہ پیپرزملز کے معاملات پر ہے اور بہت سے گواہان صرف اس لئے طلب کئے گئے کہ ان کا تعلق اس کیس سے تھا۔ یعنی آف شور کمپنیاں اور لندن فلیٹس پیچھے رہ گئے اور حدیبیہ پیپرزملز سب سے آگے کر دی گئی۔جے آئی ٹی نے ابھی تک جو 3 رپورٹیںعدالت عظمیٰ میں پیش کی ہیں ان کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں سوائے جج صاحبان کے جنہوں نے ان کو پبلک نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا فیصلہ حتمی رپورٹ کے بارے میں کیا ہوگا معلوم نہیں کہ کیا اس کو بھی خفیہ رکھا جائے گا یا کہ نہیں۔ حسین کی جے آئی ٹی کے تفتیشی کمرے سے جو تصویر لیک ہوئی اس کے بارے میں بھی اس کمیٹی نے جو تحقیقات کیں اور ان سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا میں نہ تو اس شخص کا نام اور نہ ہی اس کے ادارے کا نام ظاہر کیا گیا ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ اسے فوٹو لیک کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور سزا بھی دی گئی۔جے آئی ٹی نے یہ رپورٹ عدالت میں حسین نوازکی اس لیک کے خلاف میں پٹیشن فائل کرنے سے قبل ہی جمع کرا دی تھی۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کو عدالت نے اس رپورٹ کی ایک کاپی دی تھی اور ان پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ اسے پبلک کریں یا نہ کریں۔تاہم اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے اس شخص اور ادارے کا نام بھی عدالت سے چھپایا ہے ۔
اگلا ہفتہ جے آئی ٹی کی تفتیش کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ اس نے چند روز بعد 10جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ عدالت میں پیش کرنی ہے ۔ اس نے پہلی بار وزیراعظم کی دختر مریم نواز کو 5جولائی کو طلب کیا ہے ۔13سوال جو عدالت نے جے آئی ٹی کے لئے بنائے تھے کہ وہ ان کا جواب تلاش کرے اس میں سے صرف ایک کا تعلق مریم نوازسے ہے یعنی کیا وہ 2آف شور کمپنیوں کی بینی فیشل اونر ہیں یا نہیں ۔ وہ پہلے ہی عدالت کو بتا چکی ہیں کہ وہ ان کی صرف ٹرسٹی ہیں اور ان کا کوئی مالی مفاد ان سے وابستہ نہیں ہے۔اس کے بارے میں انہوں نے ایک ڈاکو منٹ بھی عدالت میں پیش کیا تھا۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ جے آئی ٹی کو کوئی نیا بیان دیں بلکہ وہ اپنی پرانی بات کو ہی دہرائیں گی جیسا کہ پہلے ہی وزیراعظم اور ان کے بیٹے حسین اور حسن کر چکے ہیں ۔ جے آئی ٹی نے ایک بار پھر طارق شفیع کو2 جولائی کو طلب کیا ہے یہ ان کی تیسری پیشی ہو گی ۔ اسی طرح حسن نواز 3جولائی کو جے آئی ٹی کے سامنے حاضر ہوں گے اور حسین نواز 4جولائی کو جو کہ ان کی چھٹی پیشی ہو گی۔وزیراعظم کی فیملی میں سے اب صرف ان کی زوجہ بیگم کلثوم نواز اور ان کی چھوٹی بیٹی جو کہ وزیرخزانہ سینیٹر اسحق ڈار کی بہو ہیں بچی ہیں جن کو ابھی تک جے آئی ٹی نے طلب نہیں کیا۔تاہم اطلاعات ہیں کہ بیگم کلثوم نواز کو بھی سمن جاری کیا جاسکتا ہے ۔ جے آئی ٹی جس کو چاہے اور جتنی بار چاہے طلب کرتی رہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کی رپورٹ عوامی سطح پر قابل قبول ہو گی جبکہ ہر کوئی یہ کہہ رہاہے کہ یہ بہت متنازع ہو چکی ہے اور اس کامبینہ ایجنڈا تفتیش نہیں سیاسی ہے ۔شروع میں عمران خان اور حزب اختلاف کی دوسری جماعتیں جے آئی ٹی کو مسترد کر چکی ہیں اس کے بعد ن لیگ نے بھی ایسا ہی کیا۔

 

.

تازہ ترین