• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری:ہنگامے اور افراتفری،حقیقت طشت ازبام ہو گئی

اسلام آباد (محمد صالح ظافر/خصوصی تجزیہ نگار) ماہ صیام کے بعد جس سیاسی ہنگامے اور افراتفری کا اندازہ لگایا جا رہا تھا اس کی حقیقت طشت ازبام ہو گئی ہے، تحریک انصاف کی قیادت نے عدالت عظمیٰ کے ایک بنچ کی طرف سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیئے جانے پر جو واویلا مچایا تھا وہ کوئی خفیہ راز نہیں اس ٹیم کو جو جے آئی ٹی سے موسوم ہے، پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی بعض چھوٹی پارٹیوں نے بھی اپنے نشانے پر لے لیا، حزب اختلاف کی ہونے کی دعویدار ان جماعتوں نے ابتداً کورس کے انداز میں جے آئی ٹی کو تنقید کے تیروں سے چھلنی کر دیا اس ٹیم نے اپنا کام پراسرار انداز میں شروع کیا اور متنازع شکل اختیار کرتی گئی تو وہی حزب اختلاف جو اسے برا بھلا کہنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کوشاں تھی اب اس کا دودھ اس ٹیم پر اتر آیا اسے اپنی توقعات، امیدوں اور آورشوں کا مستقبل اس میں دکھائی دینے لگا، وجہ بالکل عیاں تھی مقصد حصول انصاف نہیں تھا بلکہ انہیں پاکستان میں عود آ رہے استحکام اور معاشی بحالی کو زیر و زبر کرنا تھا، پاکستان کے دشمنوں کے اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل گروپس موجودہ حکومت سے زیادہ نواز شریف کی ذات کے درپے تھے ان میں سے ایک جس کی داستان کیلی فورنیا سے شروع ہو کر شکاگو اور پھر لندن تک آپہنچی تھی اس نے غیرمعیاری اور غلیظ لہجہ اختیار کر کے شریف خانوادے بالخصوص وزیراعظم کو ہدف بنالیا اس نے قبل ازیں عام انتخابات میں اپنی ناکامی کا انتقام لینے کے لیے پورے ملک کی بھلائی کو داؤ پر لگا دیا اور وفاقی دارالحکومت کو عضو معطل بنا دیا، حکومت کو عین اس وقت آگے بڑھنے سے روک دیا جب وہ معاشی زوال پر قابو پانے میں قابل لحاظ کامیابیاں حاصل کر رہی تھی اور اقتصادی ترقی کے احکامات روشن تر ہو رہے تھے، چین کے صدر شی پاکستان کے اولین دورے پر آ رہے تھے یہاں اُنہوں نے پچاس ارب ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرنا تھا ان کے دورے کو ناممکن بنا دیا گیا وہ بھارت چلے گئے اور پاکستان نہیں آئے، اس پر ذہنی پژمردگی کے شکار اس کھلنڈرے سیاستدان اور اس کے ہمنواؤں نے بند کمروں میں رقص کیا کہ ان کے ایجنڈے کا پہلا اور بڑا آئٹم پورا ہو گیا ہے، دوسری جانب حکمرانوں اور نواز شریف ہمت نہیں ہاری وہ معاملے کو چھان بین کے مرحلے میں لے گئے اور عدالت عظمیٰ کے انصاف پروری کی شہرت رکھنے والے چیف جسٹس کی سربراہی میں اعلیٰ ترین سطح کے عدالتی کمیشن نے ان الزامات کو غلط قرار دے دیا جن کا بہانہ بناکر استحکام اور ترقی کے پہیے کو مسدود کیا گیا تھا، بیرونی اشارو ں پر ناچنے والے عناصر آرام سے بیٹھنے کی بجائے کسی نئے عذر کی تلاش میں مصروف ہوئے ان کے غیرملکی ممدو حسن نے ’’محنت شاقہ ‘‘ کے ذریعے انہیں پاناما سازش کیس مہیا کر دیا اور سات سمندر پار سے آئے ایسی دستاویزات کو ہنگامے کی بنیاد بنایا جن کی کوئی قانونی حیثیت تسلیم نہیں کرتا، اسی اثنا میں وفاقی دارالحکومت کو شل کرنے کے لیے ’’لاک ڈاؤن ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی اپنی اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے اسی سیاسی لال بجھکڑ نے پورے پاکستان سے اپنے حامیوں کو اسلام آباد کا رخ کرنے کی استدعا کی، نتیجہ برآمد ہوا کہ وہ چند سیکڑہ افراد کو بھی وفاقی دارالحکومت لانے میں کامیاب نہ ہو سکا اوراپنے ہی محل نما گھر کے باہر عین اس وقت پش اپ لگاتا رہ گیا جب اس کے کارکن قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ہاتھ ڈنڈے کھا رہے تھے جنہیں دیکھ کر اس کی طرفدار خواتین آنسوؤں سے رو رہی تھیں یہ شخص بار بار اپنے ساتھیوں کو پکارتا رہا اور سوا چار سال کے دوران ناکامی اس کی تقدیر بنتی رہی اب اس نے جے آئی ٹی کے لیے بھی ایسے ہی ارادے کا اظہار کیا ہے چند لونڈے لپاڑے جو اس کے اشاروں پر رقص کناں ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں پوری قوم اس کی فتنہ گری سے آگاہ ہو چکی ہے، عوام اس کے منفی ذہن کو پڑھ چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی مایوس ہو کر بلند پہاڑوں میں جا چھپتا ہے اور کبھی کبھی بہکی باتوں سے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کرے گا خود اس کا ہاتھ پکڑوانے کے لیے اب رائے عامہ تیار نہیں ایسے میں اس کی دھمکیاں کوئی اثر نہیں رکھتیں، اسی اثنا میں متحدہ حزب اختلاف تشکیل دینے کی باتیں بھی سننے کے لیے آ رہی ہیں، ان کوششوں میں حصہ لینے والوں کو سب سے پہلے کسی صحیح الدماغ شخص کی قیادت پر متفق ہونا پڑے گا جبکہ ایجنڈا کو پہلے ہی سازش کیس کے ذریعے اسے مل چکا ہے اسے بے چینی اس بات کی ہے کہ آئندہ سال عام انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا اس سے پہلے حکومت تیزی کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کو پورا کر رہی ہے یہی وہ ہوش آمدہ منظر ہے جس نے بدزبانوں کو بے حال کر رکھا ہے۔

تازہ ترین