• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گلگت بلتستان کے لئے امپاور منٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈیننس 2009ء کی منظوری ایک احسن اقدام ہے ۔14اگست 1947ء سے قبل گلگت بلتستان لداخ ڈویژن سے وابستہ جموں و کشمیر کا حصہ رہا ہے جس پر آخری ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی حکومت تھی۔1947ء کے بعد کشمیر کی86ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ریاست تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ایک حصہ بھارت کے زیر قبضہ ہے۔جہاں پہلے چند سال تک اندرونی خودمختاری تھی۔ بعد ازاں وزیر اعظم کی جگہ وزیراعلیٰ نے لے لی۔مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی کل نشستیں 78ہیں۔ جن کے لئے ارکان کو کشمیر وادی،جموں ڈویژن اور لداخ میں عام انتخابات کے دوران منتخب کیا جاتا ہے۔اس میں 12نشستیں آزادکشمیر اور گلگت و بلتستان کے لئے مختص ہیں۔اسمبلی کی مدت 6سال رکھی گئی ہے۔اس کے علاوہ قانون ساز کونسل ہے جس کے ارکان کو اسمبلی منتخب کرتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کو بھارتی پارلیمنٹ میں بھی نمائیندگی دی گئی ہے۔لوک سبھا کی مقبوضہ کشمیر میں6نشستیں ہیں۔ پارلیمنٹ کی ایوان بالا راجیہ سبھا میں بھی نمائندگی دی گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی ایک ریاست کی حیثیت حاصل ہے۔تاہم بھارتی آئین کی دفعہ 370کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاستوں کے بر عکس بعض خصوصی اختیارات اور درجہ دیا گیا ہے۔ریاستی اسمبلی کی توثیق کے بغیر بھارت کا کوئی قانون مقبوضہ کشمیر میں نافذ نہیں ہو سکتاہے۔مقبوضہ کشمیر کا اپنا پرچم،آئین،پبلک سروس کمیشن ہے ۔بھارتی الیکشن کمیشن،سپریم کورٹ،یونین پبلک سروس کمیشن کا اطلاق مقبوضہ کشمیر پر ہوتا ہے۔بھارت مقبوضہ ریاست کو اپنا ٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔جبکہ بھارتی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی بھارت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح آزاد کشمیر میں کوئی پاکستانی یا غیر ملکی غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی کسی بھارتی شہری کو زمین خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ زمین پٹے یا لیز پر حاصل کی جا سکتی ہے۔آزاد کشمیر گو کہ پاکستان کے زیر انتظام ہے تا ہم آزاد کشمیرکا اپنا عبوری آئین، صدر ،وزیر اعظم،چیف الیکشن کمیشن،سپریم کورٹ،پبلک سروس کمیشن،پرچم ،قانون ساز اسمبلی ہے۔آزاد کشمیرمیں مقبوضہ کشمیر کے برعکس قانون ساز کونسل کا چیئر مین وزیر اعظم پاکستان ہوتا ہے جبکہ اس میں پاکستان کے 6ارکان نامزد کئے جاتے ہیں۔پاکستانی قومی اسمبلی یا سینٹ میں آزاد کشمیر کو نمائیندگی نہیں دی گئی ہے۔
پاکستان کے آئین میں گلگت بلتستان سمیت پوری ریاست جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیا گیا ہے۔1947ء میں قیام پاکستان کے بعد گلگت بلتستان آزاد کشمیرکے ساتھ منسلک تھا۔مارچ1949ء کو پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان معاہدہ کراچی ہو اجس پر آزاد کشمیر کی طرف سے صدر سردارمحمد ابراہیم خان اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کر صدر چوہدری غلام عباس جبکہ پاکستان کے جانب سے وزیر بے محکمہ حکومت پاکستان مشتاق احمد گورمانی نے دستخط کئے۔معاہدہ کراچی کی دفعہ اے(8) کے تحت گلگت ولداخ کے تمام معاملات پاکستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کے سپرد کر دئے گئے۔تب سے گلگت بلتستان کا علاقہ بے آئین ہے۔62سال سے یہاں کے لوگ ووٹ کے حق سے محروم ہیں۔اب پاکستان کے اعلان کردہ پیکیج کے تحت گلگت بلتستان کے 33ارکان پر مشتمل قانون ساز اسمبلی، وزیراعلیٰ، گورنر، پبلک سروس کمیشن،الیکشن کمیشن، چیف کورٹ ،آڈیٹر جنرل ہو گا۔ پیکج سے ایک صوبے کا تائثر ابھرتا ہے۔ گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر کی طرح پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں دی گئی۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علاقہ کو پاکستان کا پانچواں صوبہ قرار نہیں دیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کو سیلف گورننس دینا بلا شبہ ایک اچھا قدم ہے۔ گورنر کے تقرر کااختیار پاکستان کے صدرکو نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی قانون سازیہ کو حاصل ہونا چاہئے۔الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ پیکیج تقسیم کشمیر اور جنگ بندی لا ئن کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے کی ابتدا ء ہے۔اس الزام کی حکومت نے کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔آزاد ومقبوضہ کشمیر اور گلگت و بلتستان کی سیاسی اور دینی جماعتوں کامطالبہ ہے کہ آئینی پیکج میں بہتری لانے کے اقدامات کئے جائیں۔صدر آزاد کشمیرراجہ ذو القرنین کے مطابق پیکج کے اعلان سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی گئی،اس میں سقم موجود ہیں۔انھوں نے آزاد کشمیر کے آئین میں بھی ترمیم کے لئے وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی سے بات کی ہے۔صدر راجہ ذو القرنین پیش کش کر رہے ہیں کہ اگر گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے ملایا جاتا ہے تو وہ صدارت چھوڑ کر گلگت بلتستان سے صدر تسلیم کر لیں گے۔مسلم کانفرنس (ع)کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سردار عتیق احمد کے مطابق آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان کا ایک صدر ہونا چاہئے۔ گلگت بلتستان کی سیاسی اور دینی جماعتوں کو بھی پیکج پر تحفظات ہیں۔مسلم لیگ (ن)گلگت بلتستان کے صدر حفیظ الرحمن،چیئر مین گلگت بلتستان نیشنل الائنس عنایت اللہ شمالی،بالاورستان نیشنل فرنٹ کے سربراہ نواز خان،جمعیت علمائے اسلام گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل مولانا عطاء اللہ شہاب اور دیگر کا مطالبہ ہے کہ پیکج میں بہتری لائی جائے۔پیکج کے بارے میں تحفظات کو دور کرنے اور اس میں بہتری لانے کے لئے مشاورت کی جانی چاہئے۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ۔انھوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی مد نظر رکھنے کی بات کی ہے۔یعنی اس اعلان سے کشمیر کی متنازع حیثیت پر منفی اثرات مرتب نہیں ہو گے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دئے جانے چاہیئں۔انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا جس کا جلدکفارہ ادا کیا جائے تو بہترہے۔ گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کی طرز کا سیٹ اپ دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔مسئلہ کشمیر کے حل تک کوئی بھی ایسا اقدام جس سے کشمیر کی متنازع حیثیت متاثر ہوتی ہو ہر گز مناسب نہیں بلکہ یہ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کے ساتھ مذاق ہو گا۔جموں وکشمیر ایک وحدت ہے۔غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رائے شماری میں مقبوضہ جموں و کشمیر،آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان،چین کے زیر تسلط علاقوں کے عوام، پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مہاجرین اور تارکین وطن کے آراء اور ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہو گی۔رائے شماری میں اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے ووٹ ڈالنے کا گلگت کا شہری اتنا ہی حق رکھتا ہے جتنا حق سرینگر،جموں ،مظفرآباد کے شہریوں کو حاصل ہے۔اسلئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری تک 14اگست1947ء سے قبل کی ریاست جموں و کشمیر کی وحدت اور تشخص کو بر قرار رکھا جانا انتہائی ضروری ہے۔
تازہ ترین