• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات حیران کن ہے کہ 5 جولائی 2017ء کو انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ گزشتہ روز کی سطح 104.90 روپے سے بڑھ کر 108.25 روپے ہوگئی یعنی روپے کی قدر میں 3.1 فی صد یا 3.35 روپے فی ڈالر کی زبردست کمی ہوئی۔ یہ بات بہرحال معنی خیز ہے کہ کھلی منڈی میں یہ کمی صرف 1.75 روپے فی ڈالر ہوئی۔ روپے کی قدر میں اچانک کمی کروا کر کچھ اداروں اور اشخاص نے خوب ناجائز فائدہ اٹھایا۔ یہ بات اچنبھے کی ہے کہ اسٹیٹ بینک نے صورت حال کو سنبھالنے کے لئےنہ صرف زرمبادلہ کی منڈی میں مداخلت سے گریز کیا بلکہ روپے کو سہارا دینے کے لئے بھی منصوبہ بندی نہیں کی۔ یہی نہیں اسٹیٹ بینک نے اسی روز اپنے پالیسی بیان میں روپے کی قدر میں اس کمی کو مثبت قرار دیا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے 5 جولائی کی ہی شام کو اس کمی پر اپنی تشویش اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مصنوعی قرار دیا۔ اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ کے متضاد بیانات اور جزوی بہتری سے اس معاملے کی پراسراریت میں اضافہ ہوگیا ہے، اسٹیٹ بینک کی ساکھ مجروح ہوئی ہے اور عوام و وزارت خزانہ/ اسٹیٹ بینک کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں کمی سے معیشت میں بہتری آنے کی جن توقعات کا اظہار کیا ہے وہ درست نہیں ہیں اور زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ 2008ء اور 2013ء میں بھی پاکستان میں کرنسی کا بحران پیدا کرایا گیا تھا۔ ان برسوں میں بھی مشیر خزانہ اور وزیر خزانہ کے بیانات کے مطابق سٹے بازوں اور کچھ بینکوں نے روپے کی قدر میں زبردست کمی کروا کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ متعدد وعدوں کے باوجود غلط کارروائیوں میں ملوث بینکوں اور افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ اب ہوگی۔
روپے کی قدر میں کمی کے ضمن میں اسٹیٹ بینک کے 5 جولائی 2017ء کے پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ (الف) تمام معاشی اظہارئیے حوصلہ افزا تصویر پیش کررہے ہیں (ب) نئی شرح مبادلہ (108.25) معاشی مبادیات سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہے۔ (ج) شرح مبادلہ میں کمی بیرونی کھاتے میں ابھرتے ہوئے عدم توازن کا تدارک کرے گی اور (د) شرح مبادلہ میں کمی ملک میں ترقی کے امکانات مستحکم کرے گی۔ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ یہ دعوے صحیح نہیں ہیں۔
اسٹیٹ بینک کا یہ نقطہ نظر بھی غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ صرف روپے کی قدر میں کمی سے جاری حسابات کے ابھرتے ہوئے عدم توازن کا تدراک ہوگا اور ملک میں ترقی کے امکانات مستحکم ہوں گے۔ یہ بات ہر محب وطن پاکستانی کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے کہ ماضی میں بھی ناجائز دولت کمانے کے لئے سٹے بازی کے ذریعے روپے کی قدر میں کمی کرائی جاتی رہی ہے۔ چند حقائق یہ ہیں:: (1) وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نے 2008ء میں کہا تھا کہ روپے کی قدر گرانے میں کچھ بینکوں کے گٹھ جوڑ کا بھی دخل ہے۔ ہم نے ان ہی کالموں میں اب سے تقریباً 9 برس قبل لکھا تھا کہ کچھ سٹے بازوں اور سرمایہ داروں نے ڈالر خرید کر سرمایہ باہر منتقل کرنا شروع کردیا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر گرے اور روپے کی قدر مزید دبائو کا شکار ہوگئی۔ ہم نے مزید کہا تھا کہ’’اس گھنائونے کاروبار میں کچھ غیر ملکی بینک بشمول پاکستان میں کام کروانے والے وہ بینک بھی شریک ہوگئے جن کے حصص کا بڑا حصہ غیر ملکیوں کی ملکیت ہے جبکہ اسٹیٹ بینک اسی طرح خاموش تماشائی بنارہا…؟؟ (جنگ 14؍ اکتوبر 2008ء)
(2) اسٹیٹ بینک کی 2013-14ء کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس مالی سال کے ابتدائی مہینوں میں پاکستانی روپے کی قد گرانے کے لئے ’’سٹے بازی کے حملے‘‘ کئے گئے تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں نومبر 2013ء میں بھی روپے کی قدر گر کر 108.38 روپے ہوگئی تھی۔ اس بات کے شواہد موجد تھے کہ کچھ بینکوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوکر اربوں روپے کا ناجائز منافع کمایا تھا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا تھا کہ سٹے بازی ہورہی ہے، بینکوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈالر کو 108 روپے سے کم کر کے 98 روپے پر لے آئیں گے اور یہ کر کے بھی دکھلایا اور مارچ 2014ء میں ڈالر واقعی 98 روپے پر آگیا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ بینکوں اور ایکسچینج کمپنیز نے اس مشن میں حکومت کی معاونت اس شرط پر کی تھی کہ سٹے بازی کر کے ناجائز دولت کمانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی چنانچہ کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا۔
اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر کی تقرری
اسٹیٹ بینک کے حالیہ بحران کے بعد حکومت نے انتہائی سرعت کے ساتھ طارق باجوہ کو گورنر اسٹیٹ بینک مقرر کردیا۔ ان کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد اسٹیٹ بینک نے7 جولائی 2017ء کو جو پریس ریلیز جاری کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ باجوہ صاحب جولائی 2013ء سے اکتوبر 2015ء تک ایف بی آر کے چیئرمین بھی رہے تھے اور ان کی قیادت میں ایف بی آر کے محصولات میں نمایاں اضافہ ہوا تھا اور فائلر / نان فائلر کا تصور متعارف کرایا گیا تھا۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی 2013-14 کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس مالی سال میں ٹیکسوں کی وصولی توقعات سے کم اور غیر اطمینان بخش رہیں۔ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق 2014-15 میں بھی ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور میں صرف دو برسوں میں ٹیکسوں کی وصولی اہداف کے مقابلے میں 435 ارب روپے کم رہیں اور نان فائلر کا جو تصور متعارف کرایا گیا تھا اس کا عملاً مطلب یہ ہے کہ ٹیکس چوری کرتے رہو اور ٹیکس کے گوشوارے بھی داخل نہ کرو مگر اس کی تھوڑی سی قیمت دے دو۔ اس کے بعد بے شک ملک میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں خریدتے رہو۔ اس ضمن میں ان ہی کالموں میں ہماری چند تحریریں یہ ہیں:
(1) اس فیصلے سے ٹیکس چوری کرنے والے انتہائی مالدار افراد خصوصی طور پر بدستور مزے میں رہیں گے، معیشت دستاویزی نہیں ہوگی۔ (2) اس نظام کا مقصد پاکستان کو بدستور ٹیکس چوروں کی جنت بنائے رکھنا ہے۔ (3) جہاں آمدنی وہاں ٹیکس کا کوئی متبادل ہے ہی نہیں (4) ’’نان فائلر‘‘ اسکیم کے تحت ایک شخص یا گھریلو خاتون جس کے پاس چند لاکھ روپے ہیں مگر اس کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سالانہ سے بھی کم ہے وہ نان فائلر قرار پاتا ہے اگر وہ اس رقم کو کسی دوسری بینک میں منتقل کراتا ہے یا قومی بچت اسکیم میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس سے نہ صرف غیر قانونی طور پر ود ہولڈنگ ٹیکس منہا کرلیا جاتا ہے بلکہ اس کو نان فائلر قرار دے کر اسی کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے (جنگ 13-8-2015)
اس پریس ریلیز سے واضح ہوگیا ہے کہ اہم ترین قومی ادارے بھی فرد واحد کے حکم پر حقائق سے رو گردانی کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے نفع نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے گئے بینکوں کے کھاتوں پر منافع کی تقسیم کو بینکوں کے منافع کے بجائے شرح سود سے منسلک کیا ہوا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔ نئے گورنر کیلئے موقع ہے کہ وہ اس کی تصحیح کر کے کھاتے داروں کو دیئے جانیوالی شرح منافع میں اضافہ کرائیں اور ملک میں شعبہ بینکاری کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے، غربت میں کمی کرنے اور بچتوں کی شرح میں اضافے کے ضمن میں اپنا کردار ادا کریں۔

تازہ ترین