شکاریات میں پڑھتے آئے تھے اب دیکھ اور سن رہے ہیں، جنگل میں شیر کا شکار مچان سے بھی کیا جاتا تھا۔ تازہ بکرے شیر کی ضیافت کے لئے باندھ دےئے جاتے تھے۔ بھوکا شیر جب منہ سے رال ٹپکاتا اپنے ڈنر کا آغاز کرتا تھا تو چھپے ہوئے شکاری کی بندوق گولیاں اگلنا شروع کردیتی تھی۔ یہ تو ایک فارمولا تھا۔ دوسرا فارمولا یہ بھی تھا جو اب زیادہ یاد آرہا ہے۔ اس میں شکار اجتماعی انداز میں کیا جاتا تھا۔ سب گاؤں والے سرکاری، غیر سرکاری شریک ہوتے تھے۔ شور مچایا جاتا تھا۔ ڈھول پیٹے جاتے تھے۔ مختلف سمتوں سے لوگ جنگل میں بڑھتے تھے۔ شیر ادھر ادھر گھوم کر، بھاگ کر جب بے بس ہوجاتا، بلکہ نرغے میں آجاتا تو خاکی وردی میں ملبوس شکاری اپنی نشانہ بازی کا مظاہرہ کرتا اور شیر ڈھیر ہوجاتا۔
ڈھول بج رہے ہیں، شور مچ رہا ہے، گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔
سلسلہ وہی ہے، ایک شخصیت ہدف ہے، یہ اور ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتے، اس کے مستعفی یا برطرف ہونے سے ملک میں امن و امان ہوجائے گا۔ ہر عمل آئین کے مطابق ہوجائے گا اور دوسری طرف سے وہی نعرہ۔ یہ ملک کے اتحاد کی آخری امید ہے۔ اسے ہٹایا گیا تو سارا نظام رخصت ہوجائے گا۔ ہانکے میں اب غیرملکی دانشور اور تجزیہ کار بھی شامل ہوگئے ہیں۔ ڈھول وہی پرانے ہیں۔
یہ اس وقت ہورہا ہے جب امریکہ افغانستان کی نئی پالیسی طے کررہا ہے، بھارت کوخطے میں غالب کردار دینے کیلئے وہ پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہ رہا ہے۔ یہاں آپس کے اختلافات بڑھا رہا ہے۔ امریکی، برطانوی، بھارتی اخبارات بھی ہانکا لگانے والوں میں پیش پیش ہیں۔ مقصد یہ کہ پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر اختلافات بڑھتے جائیں ملک میں انتشار برپا رہے۔
دنیا بھر میں آئین بنانے والے صدر مملکت کو اگر عدالتوں میں طلب کئے جانے سے استثنیٰ دینے کی شقیں شامل کرتے رہے ہیں۔ اس میں مملکت کا تقدس اور احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہ خیال ہوتا ہے کہ مملکت سب کی ماں ہے۔ سب کے نزدیک قابل عزت ہے۔ اس کے سلسلے میں کوئی اختلاف، کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی سربراہی پر جو شخصیت فائز ہو اس کا احترام اور وقار بھی اسی لئے ہونا چاہئے۔ مملکت کے لئے۔ اس کی ذات کے لئے نہیں۔ اس کی شخصیت کو اگر ہدف بنایا جائے گا تو ایک طرف تو مملکت بھی زد میں آئے گی کیونکہ سربراہ تو وہی ہے اور وہ اس ایوان میں بھی مقیم ہے جو سب کے نزدیک قابل قدر ہے، جو ملک کی عظمت اور بلندی کا نشان ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ملک کی تاریخ میں کئی بار ایسے لوگ بھی سربراہ بن گئے جو آئین اور قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے نہیں بلکہ بندوق کے زور پرصدر بنے۔ اس لئے ایوان صدر بھی ان کی شخصیت کی طرح متنازع ہوتا رہا۔ اس سے مملکت کو بھی سنگین نقصانات پہنچے۔ صرف عہدہ صدارت ہی نہیں، فوج بھی مطعون ہوتی رہی۔ مسلح افواج کو بھی جو محبت، وقار اور احترام میسر آنا چاہئے، وہ ان کے حصے میں بھی تاریخ کے ان ادوار کی طرح نہیں آسکا لیکن جب ایک شخصیت آئین اور قانون کے تمام مطلوبہ تقاضے پورے کرتے ہوئے صدر مملکت بننے کے لئے میدان میں آرہی ہو تو کافی وقت ہوتا ہے کہ اگر اس شخصیت کے بارے میں کوئی الزامات، شکوک و شبہات، شواہد ہوں تو ان کی بنا پر اعتراض کیا جائے اور اسے صدر جیسے مقدس عہدے پر آنے سے روکا جائے۔ اگر یہ مہلت استعمال نہیں کی گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بارے میں ایسے شواہد میسر نہیں تھے جو اسے اتنے اہم ترین منصب کے لئے نااہل قرار دے سکتے لیکن تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب ہم کسی وجہ سے بھی کسی شخصیت سے بیزار ہوجاتے ہیں تو اس کے حوالے سے ایک طرف تو آئین، تہذیب، شائستگی، روایات سب کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری طرف اس کے علاوہ سب کو پارسا، باکردار اور ہرعیب سے بالاتر خیال کرنے لگتے ہیں بلکہ ان کی برائیاں بڑی بڑی بھی چھپاتے ہیں جبکہ اپنے ہدف کی چھوٹی چھوٹی خامیاں بھی بڑھ چڑھ کر اچھالتے ہیں۔ مملکت کے سربراہ کو آئین بنانے والے نے صدیوں کی سوچ کے بعد جو استثنیٰ دیا، اس کا مطلب صرف عدالت میں طلبی سے مستثنیٰ کرنا نہیں تھا بلکہ اس کی روح یہ ہے کہ ملک بھر میں اس ادارے کا بھرم رکھا جائے۔ اگر کوئی خامیاں ہیں بھی تو انہیں دور کرنے کا مشورہ دیا جائے نہ کہ ان کو ضرورت سے زیاد بڑھا کر طبل جنگ بجادیا جائے۔ صرف عدالتیں ہی نہیں تمام سرکاری محکمے، میڈیا، معاشرہ بھی اس استثنیٰ کو سامنے رکھیں تو مملکت کا تقدس برقرار رہ سکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اتنا ہنگامہ برپا کردیا جائے کہ عدالت بھی استثنیٰ کو ترک کردے۔ صدر یا سربراہ دنیا بھر میں فرشتے نہیں ہوتے۔
آئین بنانے اورجمہوری اصول طے کرنے والوں نے ہر حکومت اور عہدے کیلئے میعاد بھی مقرر کی ہے، وہ مکمل کرنا اس کا حق ہے ، کسی کو بھی بے صبر نہیں ہونا چاہئے،مدت کی تکمیل کا انتظار کریں۔ نئے انتخابات ہوں تو اس حکومت کی خامیاں بیان کرکے الیکشن جیتنے کی کوشش کریں۔ ہماری ان عادات، اداروں کے سربراہوں میں کشمکش ایک دوسرے کے احترام کے فقدان، حکومت کے اختیار کے مذاق، آئین اور قانون کی خلاف ورزی پر چشم پوشی، امریکہ اور دوسروں کی جنگیں لڑنے کے لئے مذہبی شدت پسندوں کی مالی اور عسکری سرپرستی، سول سوسائٹی کی تشکیل میں رکاوٹوں کے سبب آج ہماری مملکت دنیا بھر میں تنقید، توہین، تشکیک اور حقارت کا مرکز بنی ہوئی ہے ہم ان اسباب کو دور کرکے عالمگیر سطح پر ایک باوقار مقام حاصل کرنے کی کوششوں کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے دنیا کے پاکستان پر الزامات کو صحیح ثابت کررہے ہیں۔ یہ نہ بھولیں کہ ہم افغانستان اور بھارت کے عین درمیان موجود ہیں، افغانستان میں امریکہ اور مغرب ناکامی کے بعد بھارت کا سہارا لے رہے ہیں۔ امریکہ اور مغرب تو اس علاقے سے پہلے بھی چلے گئے تھے۔ اب بھی وہ جانے کی راہ تلاش کررہے ہیں جبکہ بھارت کو اسی علاقے میں رہنا ہے اور وہ یہاں کی سپر طاقت بن کر رہنا چاہتا ہے۔ بھارت کے عزائم بالکل واضح ہیں وہ کسی صورت میں بھی پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہم خود بھی اگر پاکستان میں استحکام کی بجائے ہر روز انتشار ہی برپا کرتے ہیں تو کس کا مقصد پورا کررہے ہیں۔ بھارت کے مقابلے کے لئے صدر، وزیراعظم، مسلح افواج کے سربراہوں سب کو مضبوط بھی ہونا چاہئے اور متحد بھی۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو کم از کم بیرونی معاملات یعنی امریکہ بھارت کے حوالے سے ایک رائے رکھنی چاہئے۔ سوچئے! کیا یہ وقت کی ضرورت نہیں ہے۔
بے غیرتی
سحر ہونے تک … ڈاکٹر عبدالقدیر خان
اپنے ایک پچھلے کالم میں (7 اکتوبر 2009ء) غیرت پر میں نے کچھ تبصرہ کیا تھا اور کچھ مثالیں بھی پیش کی تھیں اس سے ایک بہت اچھا مفید مباحثہ شروع ہو گیا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس ناپید جنس سے اب بھی کچھ لوگ واقف ہیں۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ کچھ غیور یعنی غیرت مند لوگ تو اس مضمون سے بہت خوش ہوئے کہ میں نے وقت کی ایک اہم ضرورت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے لیکن بعض دوسری طرف کے لوگ ”چور کی داڑھی میں تنکا“ کی ضرب المثل کے مصداق بہت برہم ہوئے اور غیر منطقی تشریحات دینے لگے۔ آپ کو میں نے بتلایا تھاکہ کس طرح غیور عربی شاعر عمرو بن کلثوم نے اپنی ماں کی ہتک عزت کا بدلہ حکمران وقت عمرو بن ہند کا سر قلم کرکے لے لیا تھا۔
موجودہ دور میں اس کی درخشاں مثال اس عراقی صحافی منتظر زیدی کی ہے جس نے بے غیرت دروغ گو بش کو جوتوں سے الوداعی ”بوسہ“ دیا تھا مگر بش جیسے بے حس انسان پر کچھ بھی اثر نہ ہوا اور یہ احساس ہوا گویا مگرمچھ کی کمر پر سے پانی بہہ گیا۔ ماضی قریب میں سکھوں کے غیرت مندانہ کے اقدامات نے ان کی قوم کا سر بلند کر دیا۔ آپ کو علم ہو گا کہ جلیانوالہ باغ کے قتل کا بدلہ لینے ایک سکھ اودھم سنگھ انگلینڈ گیا تھا اور اس نے لیفٹیننٹ جنرل مائیکل اوڈائر (Michael O'Dwyer) کو، جس نے نہتے عوام پر گولی چلانے کا حکم دیا تھا، قتل کرکے غیرت مندی کا ثبوت دیا تھا۔ پھر گولڈن ٹمپل امرتسر پر فوجی کاروائی کا بدلہ لینے کے لیے سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو کیفر کردار تک پہنچا دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ارون شریدھروائدیا (Gen. Arun Shridhar Vaidya) کو جس نے ٹمپل پر حملہ کرایا تھا اس کو ریٹائرمنٹ کے بعد پونا میں سڑک پر کار میں قتل کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ پنجاب کے آئی جی پولیس پیریرا (Pereira) کو بخارسٹ جا کر، جہاں وہ سفیر لگا دیا گیا تھا، سکھوں نے جا لیا اور گولی مار دی وہ بچ تو گیا مگر زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو گیا۔
یہی نہیں بلکہ اندراگاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھوں کے قتل عام میں ملوث تمام رہنماوٴں کو چن چن کر سکھوں نے کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ اسی طرح ہمارے غیور قبائلی عوام کی تاریخ بھی لاتعداد سنہری مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کی بے عزتی کرنے والے زیادہ عرصہ اس دنیا میں زندہ نہ رہ سکے۔ میرے دوست و ہمدرد مشہور کمپیئر اور صحافی نے اپنے ۳۲ اکتوبر کے ایک کالم میں غیرت کے سلسلہ میں بہت اچھی مثالیں دی ہیں۔اس طرح ہمارے عرفان صدیقی اور بہت سے دوست بہت اچھی طرح سمجھا رہے ہیں۔ ایک مثال سب سے نمایاں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے ویلفیئر رہنما اور سابق وزیر دفاع جناب جارج فرنانڈس کی ہے۔ جب وہ سرکاری دورہ پر امریکہ گئے تو وہاں سیکورٹی والوں نے ان کی جامہ تلاشی لینا چاہی تو انہوں نے ان کو للکار کر دور کر دیا، واپس جہاز پر گئے اور ہندوستان واپس آگئے۔ ہندوستانی حکومت نے حکم دے دیا جو بھی امریکن، خواہ وہ سفیر ہو، کوئی افسر ہو، سابق صدر ہو، آئندہ جب ہندوستان آئے تو اس کی جامہ تلاشی لی جائے اور جوتے اتروائے جائیں۔ چند دن بعد سابق صدر کلنٹن آنے والا تھا امریکن بہت گھبرائے اور ہندوستان سے اس ”غلطی“ پر تحریری طور پر معافی مانگی اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے برعکس ہم سب نے امریکہ کے ایک ایئرپورٹ پر اپنے سینئر وزیر (مشیر) شریف الدین پیرزادہ اور اس کے وفد کے ارکان کو ٹوپیاں، جوتے اتارتے دیکھا اور جیبیں خالی کرتے اور مجرموں کی طرح ہوا میں ہاتھ اٹھائے جامہ تلاشی کراتے دیکھا۔
غیرت مند قوموں کے کردار کو دیکھنا ہو تو ایران، شمالی کوریا، وینزویلا کو دیکھو اور اگر بے غیرتی کی مثالیں تلاش کرنا چاہتے ہو تو دور جانے کی ضرورت نہیں ہمارے باقی اسلامی ممالک کی سابقہ اور موجودہ تاریخ اس سے پُر ہے۔ مشرف کا امریکنوں کے ایک فون پر لیٹ جانا، دور حاضر کی بدترین بے غیرتی کی ایک مثال ہے جو ہمارے لئے باعث شرم اور عبرت ہے۔
انسان کے اخلاقی کردار کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا بے غیرتی سے چولی دامن کا ساتھ ہے وہ ہیں منافقت اور بے حیائی۔ منافقت یعنی قول وعمل میں تضاد، کھلے عام دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا اپنے پر بھروسہ کرنے والوں کو دھوکا دینا، یہ سب بے حیائی، منافقت اور بے غیرتی کی بدترین مثالیں ہیں۔ حیاء غیرت سے بھی اعلیٰ ایک شریفانہ جذبہ ہے جو انسانی شرافت کی روح ہے۔ جب حیاء رخصت ہو جائے تو ایسی ہی کیفیت ہو جاتی ہے جیسے کسی دوڑتی ہوئی گاڑی کا ٹائی راڈ کھل جائے اس کے بعد گاڑی کسی بھی سمت میں جا کر ٹکرا سکتی ہے۔ اسی لئے حضور نے فرمایا: ”جب تم میں حیاء باقی نہ رہے تو پھر جو جی چاہے کرو“۔
ہمارے ہاں بے حیائی اور بے غیرتی کا یہ سلسلہ ایوب خان کے دور سے شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس نے ہمارے معاشرہ میں جڑ پکڑ لی اور رفتہ رفتہ بے حد توانائی حاصل کرلی اور موجودہ دور میں تو یہ علت اتنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ مشرف نے ٹی وی پر وعدہ کیا تھا کہ وہ دسمبر ۴۰۰۲ء میں فوجی وردی اتار دے گا مگر وہ اس سے مُکر گیا یوں اس نے بے غیرتی کا بہت بڑا ثبوت دیا۔ اس سے پیشتر ایوب خان، ضیاء الحق، وغیرہ کے دور میں لاتعداد عوامی وعدے کئے گئے اور توڑ دیئے گئے۔ کچھ اسی قسم کے واقعات موجودہ دور میں بھی بار بار نظر آئے ہیں افسوس یہ ہے کہ وہ زبان جس پر اللہ کا نام آتا ہے جس سے ہم کلمہ پڑھتے ہیں جس زبان سے اللہ سے دُعا مانگی جاتی ہے اسی زبان کو بے غیرتی کے اظہار کے لئے استعمال کرنے میں قطعی شرم نہیں آتی۔ حیا کے لفظی معنی تو شرم وغیرت کے ہیں مگر حقیقت میں اس کا دائرہ بہت وسیع ہے ہر وہ عمل جو بے حیائی اور بے غیرتی کے زمرہ میں آتا ہے وہ حیاء کے سنہری اصول کی نفی اور ضد ہوتا ہے، حیاء اسلامی شخصیت کا اتنا لازمی جز ہے کہ حدیث نبوی ہے: ”حیاء جز ایمان ہے“۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر غیرت انسانی فطرت میں دوسری تمام اعلی لائق تحسین خصوصیات کی طرح موجود ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ اعلی خصوصیت اس قدر تیز رفتاری سے ناپید ہو رہی ہے اور اس کی جگہ بے غیرتی لے رہی ہے یہ انگریزی ضرب المثل کے مطابق دس لاکھ ڈالر والا سوال ہے۔ ہمیں بہت سخت سوچ بچار کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
اگر آپ سنجیدگی سے اپنے چاروں طرف دیکھیں تو بہت تعجب اور دکھ ہوگا کہ ہمارے لیڈر، حکمران، وکلاء، منتظم، اساتذہ، ڈاکٹر، خواتین، نوجوان یہاں تک کہ بعض جج صاحبان تک اس لعنت سے پاک نہیں ہیں لیکن قابل غور یہ بات ہے کہ یہ وائرس کہاں سے آ رہا ہے؟ یا یہ بھی ایک سے دوسرے کو لگنے والی متعدی بیماری ہے؟ بدقسمتی سے یہ بیماری ہمارے معاشرہ میں اونچے درجہ کے طبقوں میں بکثرت پائی جاتی ہے۔ دوسری بیماریوں کے عکس جن سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے دوائیں اور انجکشن موجود ہیں اس بیماری سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور میں وہ آپ کے تصور پر چھوڑتا ہوں۔ مصیبت یہ ہے کہ دوسرے وائرس تو بدن کو کھاتے ہیں جب کہ یہ وائرس ہماری روح اور اخلاق کو کھوکھلا کر دیتا ہے یہ ہمارے انسانی جوہر کو کھا جاتا ہے اور ہمیں اجتماعی طور پر ضمیر فروش بنا دیتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے قابل تقلید رہنما قائداعظم محمد علی جناح علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، راجہ صاحب محمود آباد، سر عبد الرحمن، نواب حمید اللہ خان، آغا خان، خان عبد القیوم خان، غازی عبد القیوم، غازی علم الدین، غلام اسحاق خان، وغیرہ وغیرہ، یہ سب شخصیات غیرت مندی کی جیتی جاگتی مثالیں رہی ہیں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں کہ غیرت وحمیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور بے غیرتی ان کوچھو کر نہ گزری تھی اگر ان رہنماوٴں میں یہ اعلی خصوصیات نہ ہوتیں تو ہم کبھی پاکستان حاصل نہ کر پاتے اور آج بھی ہندوٴوں کی غلامی میں زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ سب سے درد ناک اور ناقابل فراموش بے غیرتی کا مظاہرہ جنرل امیر عبد اللہ خان نیازی نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال کر کیا تھا۔ یہ دھبہ اتنا بدنما ہے جو ہماری تاریخ کے صفحات سے کبھی بھی نہ دھویا جا سکے گا۔
پچھلے تقریباً پانچ سال سے میں نہایت سنجیدگی سے غور کر رہا ہوں کہ بے غیرتی کی یہ لعنت کس طرح ہماری قوم میں، خاص کر لیڈروں میں، تاجروں میں اساتذہ کے خون میں سرایت کر گئی ہے آپ نیچے سے اوپر کی جانب چلیں تو اس میں آپ کو اضافہ ہی ہوتا نظر آئے گا اور یہ محسوس ہوگا کہ دن بدن یہ لعنت پھیلتی ہی جا رہی ہے۔
آئیے آپ کو کلام الٰہی کی جانب متوجہ کرتا ہوں کہ اس نے ایسے لوگوں اور اقوام کے لیے کیا تنبیہ کی ہے۔ سورة ہود، آیت: ۹۵ میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ”اور یہ وہی عاد ہیں جنہوں نے اللہ تعالی کی نشانیوں سے انکار کیا اور اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش ومتکبر کے احکام کی تعمیل کی“۔ اس طرح انہوں نے ہر متکبر، سرکش (اور بے غیرت) حکمران کے احکام کی تعمیل کی اور جہنم کے مستحق ہوئے۔ سورة بنی اسرائیل، آیت: ۶۱ میں اللہ تعالی نے فرمایا: ”اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوتا ہے تو ہم وہاں کے صاحب اقتدار، امیر لوگوں کو اللہ کے احکام کی کھلم کھلا نافرمانی کے راستوں پر چلنے دیتے ہیں اور وہ نافرمانیاں (گناہ) کرتے رہتے ہیں اور پھر اس بستی پر عذاب کا حکم نازل ہو جاتا ہے اور ہم اس کو ہلاک کر ڈالتے ہیں“۔ یہاں اللہ تعالی گنہگار، ظالم، بے غیرت حکمرانوں کو مہلت دینے کی بات کر رہا ہے اور پھر ان کے پیچھے چلنے کی پاداش میں سب کو عبرتناک سزا دینے کی۔ اور سورة انعام، آیت: ۳۲۱ میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔ ”اور اسی طرح ہم نے ہر بستی (قوم) میں اس بستی (قوم) کے بڑے بڑے (صاحب اقتدار) مجرمین بنا دیئے ہیں تاکہ وہ وہاں اپنے مکروفریب کا جال پھیلاتے رہیں۔ حالانکہ وہ اپنے فریب کے جال میں خود ہی پھنستے ہیں مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں“۔
بدقسمتی سے موجودہ دور میں صاحبان اقتدار کی ایک بڑی اکثریت میں وہ تمام خرابیاں گھر کر گئی ہیں جن کو آپ صرف ایک لفظ بے غیرتی سے بیان کر سکتے ہیں۔ کاش ہم ان کے اقدامات کو غیرت کے عنوان سے یاد کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں وہ ضرور ایک نہ ایک دن جلد یا بدیر ہمیں غیرت مند، سچے، بہادر اور مخلص لیڈر ضرور فراہم کرے گا۔ مجھے یقین ہے اور ہم سب کو امید رکھنی چاہئے کہ اس پت جھڑ کے بعد بہار ضرور آئے گی: ایمان اور یقین، دیانت وامانت، غیرت وشجاعت سے معمور قیادت کی بہار إن شاء اللہ۔
آخر میں ذرا غور فرمائیے کہ ایک شعر جو اب ایک ضرب المثل بن گیا ہے علامہ اقبال نے کہا تو تیموری خاندان کے بارے میں تھا، مگر کیا یہ آج ان تیموریوں سے زیادہ ہم پاکستانیوں پر صادق نہیں آتا؟ جب ملک وقوم کی موجودہ حالت دیکھتا ہوں تو علامہ اقبال کی غلام قادر رُہیلہ نامی نظم کا وہ شعر بار بار یاد آتا ہے علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ کچھ رد وبدل کرکے وہ شعر حاضر خدمت ہے:
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیّت نام ہے جس کا، گئی اس قوم کے دل سے
معذرت:(اصل مصرعہ ہے”حمیّت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سی“۔