• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانامہ لیکس کا معاملہ اب حتمی مرحلے میں ہے۔ جج صاحبان نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔چند روز میں اس مقدمے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد، معزز جج صاحبان پیش کردہ شواہد اور دلائل کی روشنی میں ، قانون و انصاف کے تقاضوں کےمطابق فیصلہ سنائیں گے۔ تاہم اس بڑی عدالت کے باہر کئی عدالتیں لگی ہیں۔ فیصلے صادر ہو رہے ہیں۔ سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے جاری یہ سرکس، اب انتہائی غیر دلچسپ بلکہ بیزار کن معلوم ہوتا ہے۔ جج صاحبان کے ریماکس زیر بحث لاتے ہوئے ،ہر ایک اس میں سے اپنی مرضی کے معنی کشید کرتا رہا۔ محسوس ہوتا رہا کہ فریقین میڈیا کے ذریعے، عدالتی کارروائی اور فیصلے پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔ عدالتی فیصلے پر اثر ہو نہ ہو ، عوام کے اعصاب البتہ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔گزشتہ کئی ماہ سے پورا ملک ایک ہیجان اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے کی کوریج میں،صحافتی اخلاقیات ملحوظ خاطر رہتیں تو اسقدر اضطراب کی کیفیت نہ ہوتی۔بہت اچھا ہوتا اگر صحافتی تنظیمیں اور ادارے کوئی ضابطہ اخلاق وضع کر لیتے۔کم از کم عدالت کے احاطے میں لگنے والی عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا جاتا۔ اور تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کا جو اخلاقی حدور سے متجاوز زبان و بیان اختیار کرتے ہیں۔جس طرح کی میڈیا کوریج ہم نے ان مہینوں میں دیکھی ہے اس نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کو بھی خود احتسابی درکار ہے۔
اس سارے ہنگامے میں ایک اہم خبر سامنے آئی ہے۔ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن بل 2017 کا مسودہ منظور کر لیا ہے۔ انتخابات 2013 کے کچھ عرصہ بعد ، جب انتخابی دھاندلی کا شور جاری تھا، خود وزیر اعظم نواز شریف نے تجویز کیا تھا کہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی جائے جو نظام کی اصلاح کیلئے تجاویز دے۔ لہذا جولائی 2014 میں ایک 33 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ، جس میں پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کو نمائندگی دی گئی۔ ان تین سالوں میں کمیٹی کی 118 میٹنگز ہوئیں ۔ فی الحال جو تفصیلات سامنے آئی ہیں انکے مطابق انتخابی عمل سے متعلق 9 ذیلی قوانین کو یکجا کر دیا گیا ہے اور 66 اہم ترامیم تجویز ہوئی ہیں۔ خدا خدا کر کے انتخابی اصلاحات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں موجود تمام جماعتیں اس مسودہ قانون پر متفق ہیں۔ اس اچھی خبر کا بھی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنی حمایت کو چار تجاویز سے مشروط کر دیا ہے۔تحریک انصاف چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جائے۔سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے اور نگران حکومتوں کی تشکیل میں تمام جماعتوں کی شمولیت ہو۔
جہاں تک الیکشن کمیشن کی تحلیل اور نگران حکومتوں کے قیام کاتعلق ہے، یہ آئینی معاملات ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی لانی ہے تو آئینی ترامیم کرنا ہونگی۔ جسکے لئے طے کردہ طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا۔ صرف تحریک انصاف کے مطالبے پر سارا آئینی و قانونی نظام درہم برہم نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر اس صورت میں جب دیگر تمام جماعتیں اس نظام پر مطمئن ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی تجویز سیاسی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے 2013 کے انتخابات کے بعد سامنے آئی۔ بظاہر اس میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں انتخابی عمل میں الیکٹرانک مشینوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ تاہم یہ کوئی مثالی نظام نہیں ہے۔ اس میں بھی کمزوریاں اور خامیاں موجود ہیں۔ انڈیا میں ان مشینوں کا تجربہ کامیاب نہیں ہو سکا اور ان مشینوں کی ٹمپرنگ کی شکایات اعلیٰ عدلیہ تک گئیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی وو ٹنگ مشینوں کے حوالے سے کئی شکایات سامنے آئیں۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی ہی بتا سکتی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے حوالے سے کیا خدشات یا رکاوٹیں تھیں جو انہیں قانونی مسودے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔تحریک انصاف کا چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ہمیشہ سے حاصل رہا ہے۔ البتہ انہیں کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ووٹ ڈالنے کی سہولت حاصل نہیں۔ یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے کہ کس طرح دوسرے ملکوں میں بسنے والے شہریوں کو یہ سہولت فراہم کی جائے ۔ صدارتی نظام کے حامل ممالک کیلئے یہ معاملہ نسبتا آسان ہے۔ مگرجمہوری پارلیمانی نظام کے حامل ممالک کے لئے یہ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے۔ ا بھی تک انڈیا اور برطانیہ جیسے ممالک بھی ا پنے شہریوں کو یہ سہولت دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستا ن تو کسی گنتی شمار میں نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف محض مطالبہ کرنے کے بجائے اسکا کوئی حل تجویز کرتی ۔ اس اہم مسودہ قانون کا بائیکاٹ انتہائی افسوس ناک ہے ۔ خاص طور پراس وقت جب تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں سمیت، دیگر تمام جماعتیں اس مسودہ قانون پر متفق ہیں۔ ایک بڑی جماعت ہونے اور 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اعزاز رکھنے والی پارٹی کے طور پر تحریک انصاف کا یہ کردار جمہوری عمل کے لئے کوئی زیادہ دل خوش کن نہیں ۔
پانامہ کا ہنگامہ تو ایک آدھ دن میں ختم ہو جائے گا یا کسی نئے موڑ کی طرف مڑ جائے گا۔ لیکن انتخابات بہرحال ہونے ہیں۔ جلد یا بدیر میڈیا کو پانامہ کے سرکس سے ہٹ کر انتخابی مہم اور نئی سیاسی حرکیات کی طرف مڑ جانا ہے۔ اچھا ہو کہ قوم اضطراب، بے چینی اور بے یقینی کے اعصاب کش ماحول سے نکلے۔ مزید اچھا ہو کہ میڈیا اسطرح کے بے ثمر کھیل تماشو ں سے ہٹ کر ٹھوس قومی تقاضوں کا ادراک کرے۔ قوم کو نئے انتخابات کے حوالے سے شعور و آگہی فراہم کرے تاکہ وہ موجودہ حکمرانوں کا احتساب بھی کر سکیں اور اگلے پانچ سال کے لئے اپنی پسندیدہ قیادت کو سامنے لا سکیں۔ سب سے زیادہ اچھا ہو کہ سیاست دان بھی ایک دوسرے کا گریبان نوچنے، کیچڑ اچھالنے ،الزامات کی گرد اڑانے اور بات بات پر احتجاج اور دھرنوں کا مشغلہ چھوڑ کر آنے والے انتخابات کو صاف شفاف اور منصفانہ بنانے کی کوششوں پر متفق ہوتے ہوئے، اپنا اپنا منشور لے کر عوام میں جائیںاورکسی دوسرے کے کندھے پر بندوق رکھ کر اقتدار کا راستہ تلاش کرنے کے بجائے ، ان عوام کی تائید و حمایت حاصل کریں جو طاقت کا سرچشمہ ہیں۔

تازہ ترین