• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریل کوئی کھیل نہیں,,,سفارت نامہ…ریاض احمد سید

بعض اوقات لوگ بڑے مزے کی بات کرجاتے ہیں۔ پچھلے دنوں میاں چنوں میں ریلوے کراسنگ پر جعفر ایکسپریس کی ٹکر سے اسکول وین کے پرخچے اڑ گئے اور چودہ معصوم بچے جان کی بازی ہار گئے۔ وزیر ریلوے سے کسی نے تبصرے کوکہا تو موصوف کے ارشادات ”سنہری حروف“ سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ فرمایا۔ ”ٹرین نے پٹڑی سے اتر کر تو کسی کو ٹکر نہیں ماری، وہ تو اپنے ٹریک پر جارہی تھی، ظاہر ہے، جو اس کی راہ میں آئے گا، کچلا جائے گا“۔ موصوف ایک سیدھے سادے، صاف گو بزرگ ہیں اور سادگی میں یہ سب کہہ گئے۔ لیکن اگر ان کا فرمان درست مان لیا جائے تو صدر اور وزیر اعظم نے سانحہ کا فوری نوٹس کیوں لیا، اور موخر الذکر نے تو 48گھنٹے کے اندر حادثہ کی جگہ پر گیٹ نصب کرنے کے احکامات بھی جاری کردئیے۔ اس افسوسناک واقعہ پر بے حد اثرانگیز تبصرہ ایک نجی ٹیلیویژن کی خاتون اینکر نے کیا۔ فرمایا۔ ”چودہ معصوموں کا خون بہا، تو ایک کراسنگ پر گیٹ لگوانے کا حکم جاری ہوا، ذرا ریلوے کا محکمہ ملک بھر کی بلاگیٹ گزرگاہوں کی تعداد بتادے، تاکہ اس کو چودہ سے ضرب دے کر معصوم جانوں کے نذرانہ کا بندوبست کیا جاسکے“۔ وزیر صاحب کا فرمان بالکل درست کہ گاڑیاں ٹریک چھوڑ کر کسی کو ٹکر نہیں مارتیں۔ مگر کھلی گزرگاہوں پر حفاظتی اقدامات بھی تو ان کی ذمہ داری ہے۔ اور پاکستانی ہونے کے ناطے وہ اپنی قوم کے ذہنی خلجان اور جلدبازی کی عادت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ تاہم کھلے کراسنگ پر گیٹ لگانے کی ضرورت نہیں۔ پہلے ہی قرض تلے دبی ریلوے مزید زیربار ہوجائے گی۔ ریلوے لائن کے دونوں جانب پائپ کے بنے ہوئے بیرئیر لگا دیجئے۔ ان سے کام بخوبی چل جائے گا۔پاکستان ریلوے ایک کرائسز سے دوچار ہے۔ جس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ یہ کرائسز ایک دن کی پیداوار نہیں۔ ہم نے وقت پر ایک ٹانکا نہیں لگایا اور آج نو کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ پچھلے بیس برسوں میں روڈ ٹرانسپورٹ پر تو اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی جبکہ ریلوے پر ایک پائی تک خرچ نہیں ہوئی۔ مسلسل گھاٹوں، کرپشن اور نااہلی کا توخوب ڈھنڈورا پیٹا گیا، مگر یہ کسی نے نہ سوچا کہ انیسویں صدی کی ریلوے کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق کیسے ڈھالا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی ریلوے نام اور دام کما رہی ہے۔ وہاں اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا گیا ہے۔ جس پر اربوں نہیں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ امریکہ، یورپ اور جاپان کی ریلوے سے تو خیر مقابلہ ہی کیا، بھارت میں ہی پچھلی ربع صدی میں سو ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ جس کا پھل وہ آج کھارہے ہیں۔ اور ان کی ریلوے سالانہ 200 ارب کا منافع کما رہی ہے۔
ہمارے ہاں جب بھی اس قسم کی منصوبہ بندی ہوئی، تو گھات میں بیٹھے ”مبصرین“ نے پرفارمنس رپورٹ نکلی تھی تو پتہ چلا تھا کہ یہ تو غیرمعیاری ہیں اور ہمارے ٹریک کیلئے موزوں نہیں، صرف سولہ مہینوں میں 334مرتبہ فیل ہوئے، ان کی ساخت میں بنیادی خامیاں ہیں، اور مین فریم میں کریک پڑنے کی شکایات بھی سامنے آئیں۔ ایکسل لوڈکا مسئلہ الگ سے۔ سودا واپس کرنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی، چنانچہ لیپا پوتی سے کام چلانے کی کوشش کی گئی مگر بنیادی خامیاں رفع کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ حادثات ہوتے رہے۔ گاڑیوں کا پٹڑی سے اترنا اور انجنوں کا فیل ہونا معمول بنا رہا جن کی کم وبیش نصف تعداد ہمہ وقت ورکشاپوں میں ڈیرے ڈالے رہی۔
اس وقت اس صورتحال کو پاک چین دوستی کے تناظر میں دیکھا گیا تھا۔ اور دور کی کوڑی لائے تھے کہ مذکورہ فرم کے ساتھ سودا ٹوٹا تو چین کے ساتھ دوستی پرحرف آئے گا۔ حالانکہ بین الاقوامی امور میں معمولی سی سدھ بدھ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ تجارتی معاملات میں ہر ملک کو اپنے مفادات کے تحفظ کا پورا حق ہوتا ہے۔ اور ایسے سودے خوب ٹھونک بجاکر کئے جاتے ہیں۔ پاکستان ریلوے کو ٹریک اور سسٹم کے مطابق انجن حاصل کرنے کا پورا حق تھا۔ لیکن اگر معاہدہ طے پاتے وقت تصریحات کی فراہمی میں غفلت سے کام لیا گیا۔ تو اس کے لئے کوئی جواز تراشا نہیں جاسکتا۔ فی الحقیقت معاہدہ ہی خام تھا۔ بعض جزئیات کی مناسب وضاحت نہیں کی گئی تھی۔ چینی فرم نے معاہدہ نبھایا۔ ہم ہی نے اپنی روایتی ”چلے گا“ کی پالیسی اپنائے رکھی۔ کاروبار میں رواداری نہیں چلتی۔ ترکی بھی ہمارا دوست ملک ہے۔ لیکن M-1 موٹروے کے معاہدے میں معمولی چوک پر پاکستان کو کروڑوں ڈالر کا حرجانہ اداکرنا پڑا تھا۔
پاکستان کرہ ارض کا وہ واحد ملک ہے، جہاں دنیا بھر میں بننے والی تقریباً ہر میک اور ماڈل کی گاڑی موجود ہے۔ سستی سے لے کر مہنگی تک ہماری سڑکوں پر فراٹے بھر رہی ہیں۔ جس سے ٹریفک سے لے کر لا اینڈ آرڈر کے مسائل پیدا ہوئے۔ مگر ہماری مارکیٹ فری فار آل رہی اور ہے۔ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم ایک دو میک اور ماڈل کی گاڑیوں تک محدود رہتے، تو ہر لحاظ سے سکھی رہتے کچھ اسی قسم کا رویہ ریلوے والوں نے بھی روا رکھا اور چینی، امریکی، جاپانی کے علاوہ دو ایک دیگر ممالک سے بھی ریلوے انجن خریدے۔ ریلوے انجن ایک قومی الحبثہ مشین ہے۔ جس کو بار بار فونڈری میں ڈالنے کی بجائے اس کی اوورہالنگ کو ترجیح دی جاتی ہے اور دنیا بھر میں یہ کام بطریق احسن ہو رہا ہے۔ مگر تین چار قسم کی ٹیکنالوجی انوالو ہونے کے سبب ہمیں اس میں بھی دشواری پیش آرہی ہے۔ اور 36کے لگ بھگ انجن مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے گرین سگنل کے منتظرہیں۔
ریلوے والوں کو اپنے اثاثوں پر بہت ناز ہے، اور ہونا بھی چاہئے، کہ یہ قومی سرمایہ ہے۔مگر اسے کالونیوں اور کلبوں کی شکل میں لٹانے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ مشتے ازخروار سے، لاہور میں ریلوے اکیڈمی کی زمیں پر پرائیویٹ کالونی کی تعمیر ویژن کی بدترین مثال ہے۔ والٹن ریلوے اسٹیشن تک کا علاقہ اکیڈمی کا قدرتی حصہ ہے کالونیاں بنانے کیلئے پرائیویٹ زمین خرید کر ڈیولپ کریں۔ نہ کہ ریلوے کے اثاثہ پر ہاتھ صاف کریں۔ الزامات کی بوچھاڑ سے اسے مشکوک بنادیا، کہ یہ سب سیر و تفریح اور کھانے پینے کے بہانے ہیں۔ بھائی! ڈیولپمنٹ خرچے سے ہوتی ہے اور پیسہ انسانوں نے ہی خرچ کرنا ہوتا ہے، فرشتے تو آنے سے رہے۔ سو ان کی نیت پر شک کرنیکی بجائے کچھ ایسا اہتمام کریں کہ وہ دیانتدار، خدا ترس اور محب وطن ہوں۔ اور خرچے کے سسٹم کو فول پروف بنائیں۔ قومی اداروں پر کیا گیا خرچہ رائیگاں نہیں جاتا وہ فی الحقیقت مستقبل کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ بیس ارب روپے کے صرف سے بننے والی اسلام آباد، لاہور موٹروے کی تعمیر کے وقت گھپلوں کی کیا کیا داستانیں نہیں بنی تھیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج یہ قوم کا اثاثہ ہے۔ اور اسکی مالیت ایک بلین ڈالرسے بھی زیادہ ہے۔فی الوقت پاکستان ریلوے ملبے کا ڈھیر ہے۔ فی الحقیقت پچھلے دو عشروں میں ہم محض پڑھکیں مارتے رہے۔ ایک وزیر نے تو بلٹ ٹرین کا بھی شوشہ چھوڑا۔ شاید موصوف کوعلم نہیں کہ جاپان نے 320کلومیٹر بلٹ ٹرین پر دو ٹریلین ڈالر خرچ کئے تھے اور ہم؟
مگر ایک بات ضرور کھٹکتی ہے۔ مانا کہ ہم انجن بنانے کی اہلیت اور تکنیکی مہارت نہیں رکھتے مگر بوگیاں بنانے کا عمل تو زیادہ پیچیدہ نہیں۔ جب ماضی میں ہم یہ کام بخوبی کرتے رہے ہیں، تو اب کیوں دشواری ہے؟ ہم جو 114ملین ڈالر کے خرچے سے چین سے 202بوگیاں درآمد کرنے جارہے ہیں۔ یقیناً اس سے آدھے پیسوں میں ہم اپنی بوگی سازی کی صلاحیت کو پھر سے بروئے کار لا سکتے ہیں۔ رہا انجنوں کا معاملہ، تو پاکستان ریلوے میں ڈیزل انجنوں کی پہلی کھیپ امریکہ سے آئی تھی۔ پی۔ایل480 کے تحت آنے والے وہ انجن انجینئرنگ کا شاہکار تھے اور چار دہائیوں تک پاکستان ریلوے کی خدمت کرتے رہے۔ ان کی ریپلیسمنٹ کی ضرورت محسوس ہوئی تو قرعہ فال ایک چینی فرم کے نام نکلا۔ جس نے ستمبر 2003ء میں 69عدد انجن خریدے گئے۔ اب مزید 75انجنوں کی خریداری کیلئے ہم ایک بار پھر اسی فرم کے پاس جارہے ہیں اس میں شک نہیں کہ ہماری اپنی مجبوریاں ہیں۔ اور ہاتھ بڑی حد تک بندھے ہوئے ہیں۔ برائے نام (2.2%) سود پر چین سے ایک خطیر رقم قرضہ میں مل رہی ہے اور پھر امریکن کمال مہنگا بھی ہے، جو ہم افورڈ نہیں کرسکتے۔ یہ سب تسلیم، مگر ماضی کے تلخ تجربات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا۔
تازہ ترین