• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Peshawar See In The History

سیّد سبز علی شاہ..

پشاور....خیبر پختون خوا کا صوبائی دارالحکومت، پشاور ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی توجّہ کا مرکز رہا۔ یہ شہر، درّۂ خیبر کے راستے ہندوستان پر حملہ کرنے والوں کی گزرگاہ تھا، جب کہ اس دوران پشاور کے باسیوں کی طرف سے اپنے شہر کے دفاع کے لیے جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے گئے۔ شمال مغربی سرحدی صوبے پر سِکّھوں کی یورش 1818ء سے شروع ہوئی۔

ہری سنگھ نلوہ نے 1826ء میں پشاور کا قلعہ فتح کیا اور پھر رنجیت سنگھ پختونوں کے علاقے کا حاکم بن گیا۔ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد سِکّھوں کے درمیان تخت نشینی کے لیے جنگوں کا آغاز ہوا،تو انگریزوں نے سِکّھوں کے کم زور ہونے کا فائدہ اُٹھایا اور 1849ء میں شمال مغربی سرحدی صوبہ انگریزوں کی عمل داری میں آگیا۔

پختونوں نے اپنی آزادی کی خاطر سِکّھوں سے جنگیں لڑیں، جب کہ 1849ء سے 1901ء تک انگریزوں سے لڑتے رہے۔ بعدازاں، لارڈ کرزن کی جانب سے شمال مغربی سرحدی صوبے کو پنجاب سے الگ کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور پختونوں کی آزادی کی تحریک کُچلنے کے لیے یہاں غازی ایکٹ اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن جیسے کالے قوانین کا نفاذ کیا گیا۔

پشاور میں غیر مُلکیوں کا زور کم ہوا، تو پختونوں نے اپنی ذہانت اور طاقت کا استعمال کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور یہ ایک گنجان آباد شہر بن گیا۔ تب پشاور کی آبادی 50ہزار نفوس پر مشتمل تھی، جب کہ مکانات کی تعداد 8ہزار تھی۔ شہر کو برف سے ڈھکے پہاڑوں نے چاروں جانب سے اپنے حصار میں لے رکھا تھا اور میدانوں میں سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ ’’پنج تیرتھ‘‘ ہندوئوں کا مقدّس ترین مقام تھا جبکہ 1970ء کی دہائی میں پنج تیرتھ کے مقام پر سرحد چیمبرز آف کامرس کی عمارت اور بعد میں چاچا یونس پارک تعمیر کیا گیا۔

ہندوئوں نے نویں اور دسویں صدی کے دوران پشاور پر حُکم رانی کی، جب کہ گیارہویں صدی کے آغاز میں محمود غزنوی نے پشاور پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ سِکّھوں کے دَورِ حکومت میں 1849ء میں گورنر، ابو طبیلہ کی جانب سے پشاور کو محفوظ بنانے کے لیے اس کے چاروں اطراف چار ہزار مربّع گز طویل فصیل اور 16دروازے تعمیر کیے گئے۔

ان دروازوں کے نام ہل دروازہ، آسامائی دروازہ، کچہری دروازہ، ریتی دروازہ، رام پورہ دروازہ، ہشت نگری دروازہ، لاہوری دروازہ، گنج دروازہ، یکہ توت دروازہ، کوہاٹی دروازہ، سرکی دروازہ، ٹھنڈی کھوئی دروازہ، بارز خان دروازہ، رام داس دروازہ، ڈبگری دروازہ اور باجوڑی دروازہ ہیں۔

اشوک، کنشک اور چندر گپت کے دَور میں پشاور عظیم الشّان سلطنت کاحصّہ رہا اور مہاراجہ کنشک وہ پہلا حُکم راں تھا کہ جس نے پشاور کو دارالحکومت کا درجہ دیا، جب کہ آریائی قبائل کے دَور میں یہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل تھا۔

دارا کے زمانے میں ایرانی افواج نے پشاور کا رُخ کیا اور کافی کُشت و خوں کے بعد دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران گندھارا کے باشندے ایرانی افواج میں شامل ہو کر یونانیوں کے خلاف لڑتے رہے۔

ایک روایت کے مطابق، پشاور کی بنیاد دارا کے دَور میں رکھی گئی، جب کہ ایک اور روایت میں گوپال داس کے بیٹے، ہرشنگ کو پشاور کا بانی بتایا جاتا ہے۔ تاریخ میں پشاور کو پارس پور، شاہ پور، باشا پور، پیشی پور، بگرام، پیشور اور پارو پاراش کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دار پوش اور اس کے جانشینوں کی جانب سے وادیٔ پشاو کو ’’گندھارا‘‘ کانام دیا گیا، جس میں دریائے سندھ اور درّۂ خیبر کے درمیانی علاقوں کے علاوہ سوات، باجوڑ اور کوہاٹ بھی شامل تھے۔ 16ویں اور 17ویں صدی میں مُغلوں کے دَور میں پشاور نے بڑی اہمیت حاصل کی۔ شہنشاہ بابر نے 1530ء میں اپنی وفات سے چند روز قبل قلعہ بالا حصار تعمیر کروایا، جب کہ مُغل حُکم رانوں ہی کے دَور میں جامع مسجد مہابت خان، مسجد گنج علی خان، بازار مسجد دلاور خان اور مسجد قاسم علی خان تعمیر کی گئی۔

سن 1849ء میں انگریزوں نے اپنے فوجی دستوں کے لیے پشاور کینٹ تعمیر کیا۔ مہاتما بودھ کا پہلا مجسمہ بھی پشاور ہی میں تعمیر کیا گیا اور یہاں کے پہاڑوں میں آج بھی بودھ مَت دَور کے کھنڈرات موجود ہیں۔ انگریزوں کے دَور میں پشاور میں پیپل کے درخت اور مہاتما بودھ کے ایک مقدّس برتن کا بڑا چرچا تھا۔ پیپل کا یہ درخت تقریباً ایک سو فٹ بلند تھا اور اس کی شاخیں دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھیں۔

مذکورہ درخت کے نیچے چار بُت اور درخت کے قریب کنشک کا 400فٹ بلند اسٹوپا اور ایک خانقاہ موجود تھی۔ پشاور کے سرائے کالا خان، سرائے بھگت سنگھ، سرائے سکھرام، سرائے سری مل، سرائے دین سرا اور سرائے جگن ناتھ کو خاصی شُہرت حاصل تھی۔ پشاور میں دستی پنکھے تیار کرنے والوں کے محلّے کو محلّہ پکھی گراں، پنکھوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی ڈنڈیاں بنانے والوں کے محلّے کو محلّہ ڈنڈی گراں، گھوڑوں کو نعل لگانے والوں کے علاقے کو محلّہ ڈھکی نعل بندی، چوڑیاں تیار کرنے والوں کے علاقے کو محلہ چوڑی گراں، مٹّی کے برتن بنانے والوں کے علاقے کو محلّہ چینی گراں، چِرمی صندوق بنانے والوں کے علاقے کو محلّہ بجوڑی، رجسٹریاں، فائلیں اور اراضی کے کاغذات محفوظ رکھنے والوں کے علاقے کو محلہ دفتر بنداں، رسّیاں بنانے والوں کے علاقے کو محلّہ رسی وٹاں، تیل نکالنے والوں کے علاقے کو محلّہ تیلیاں، کپڑا بیچنے والوں کے علاقے کو محلّہ بجاز لڑہ، سونے، چاندی اور تانبے کی انگوٹھیوں میں نگینے لگانے والوں کے علاقے کو محلّہ مور کناں، کبوتر بازوں کے محلّے کو محلّہ کبوتر بازاں اور دھوبیوں کے علاقے کو محلّہ دھوبی گل کے نام سے پُکارا جاتا تھا۔

جن علاقوں میں ہندو اور سِکھ رہتے تھے، انہیں محلّہ جیون مل اور محلّہ جوگن شاہ کے نام سے پکارا جاتا۔ اندرونِ شہر کا قریبی علاقہ 44خشت سازوں، محلّہ ڈومہ گلی 15قصابوں، دُنبے کا گوشت فروخت کرنے والے 63دُکان داروں کے مکانات اور محلہ کٹرا محبّت خان 13جِلد سازوں کے مکانات پر مشتمل تھا۔ پل پختہ کے قریب اسلحہ فروشوں کی 11دُکانیں تھیں، جب کہ 44خشت ساز، 87حجام، 42قالین باف، 11سری پائے پکانے والے، 56حلوائی اور 18بڑھئی رہتے تھے۔

بازارِ بزازان میں پارچہ فروشوں کی 52، رنگ سازوں کی 76، دوا فروشوں کی 57، سُناروں کی 41، کریانے کی 16، چٹائی تیار کرنے والوں کی 37، شِیر فروشوں کی 37، تیل فروخت کرنے والوں کی 25، نسوار فروشوں کی 45،شکر فروشوں کی3، فالودہ فروشوں کی 10،کاغذ سازوں کی22،رسی بنانے والوں کی 11،جفت سازوں کی 58، لوہاروں کی 27، درزیوں کی 10اور خیمہ سازوں کی 13دُکانیں قائم تھیں۔

قدیم پشاور میں آبادیاں احاطوں اور دُکانیں کٹھڑوں کے اندر بنائی گئیں۔ اس سلسلے میں کٹھڑا ابریشم گراں، کٹھڑا نیل، کٹھڑا محبت خان اور کٹھڑا بزازان مشہور ہیں۔ ڈھومہ گلی رقص و سرود کی محفلوں کے حوالے سے مشہور تھی۔ جہانگیر پورہ مُغلوں کا علاقہ تھا، جب کہ کریم پورہ اور میر پورہ میں پشاوری رہائش پذیر تھے۔ پشاور شہر سے الگ گنج، کریم پورہ اور جہانگیر پورہ کے بازار تھے۔ بازارِ کلاں اور گور گٹھڑی میں پشاوریوں اور ہندوئوں کی اکثریت تھی، جب کہ اندرونِ شہر زیادہ تر سِکھ اور کھتری ہندو رہائش پذیر تھے۔

قصّہ خوانی بازار، پشاور کا بارونق بازار تھا اور اس کی پُھولوں والی گلی سے جہانگیر پورہ تک طوائفوں کے تقریباً4 ہزارتھکانے تھے۔ پشاور میں بودھ مت دَور میں ایک کنواں بنایا گیا، جس کی دیوار وں پر مورتیاں بنائی گئی تھیں۔ اپنے ٹھنڈے پانی کی وجہ سے یہ کنواں ’’ٹھنڈ ی کھوئی‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔

گرچہ مغلوں کے دَور میں کنویں کی دیواروں سے مورتیاں ہٹا دی گئی تھیں، لیکن مسلمان پھر بھی اس کنویں کا پانی نہیں پیتے تھے۔ پشاور کے باسی دُنبے اور بکرے کے گوشت سے بنے تِکّوں کے بہت زیادہ شوقین تھے اور نمک منڈی بازار دُنبوں اور بکروں کے گوشت کی تِکّہ کڑاہی اور بُھنے ہوئے گوشت کے حوالے سے آج بھی بہت مشہور ہے۔

نمک منڈی بازار میں، صوبے بَھر کے علاوہ افغانستان، قبائلی علاقوں اور پنجاب و سندھ سے بھی لوگ کڑاہی تِکّہ اور سیخ تِکّہ کھانے کے لیے آتے ہیں۔ قصّہ خوانی بازار کو ’’پشاور کا دِل‘‘ کہا جاتا ہے۔ کسی دَور میں دریائے باڑہ قصّہ خوانی کے پُشت پر بہتا تھا اور وسطی ایشیا سے آنے والے قافلوں میں شامل افراد یہاں بیٹھ کر قصّے سُناتے تھے جس کی وجہ سے اس کا نام ’’قصّہ خوانی بازار‘‘ پڑ گیا۔

ماضی میں پشاور کے باغات نہایت خُوب صُورت اور دِل کش ہوا کرتے تھے اور غیر مُلکی مٔورخین اور سیّاحوں نے بھی انہیں دُنیا کے خُوب صُورت ترین باغات قرار دیا تھا۔

پشاور کے مشہور باغات میں شاہی باغ، وزیر باغ، پردہ باغ، بیری باغ، نذر باغ، سیٹھیوں کے باغ، کمپنی باغ، مہارانی باغ، گور گٹھڑی باغ اور جناح باغ شامل تھے۔

تازہ ترین