• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق 1980ء سے 2017ء کے 37برسوں میں جنوبی ایشیا کے کچھ ملکوں بشمول بنگلہ دیش کی معیشت کی اوسط شرح نمو پاکستان سے زیادہ رہی۔ یہ بات بھی نوٹ کرنا اہم ہے کہ 1958ء سے 2008 کے 50برسوں میں سے تقریباً 32برسوں میں ڈکٹیٹر اقتدار پر قابض رہے۔ ان برسوں کے دوران جن 4برسوں میں پاکستانی معیشت کی شرح نموسست ترین رہی وہ یہ ہیں۔
(1) مالی سال 1960ایوب خان 0.9فیصد (2)مالی سال 1971یحیٰی خان 1.2فیصد (3)مالی سال 1997۔ بے نظیر کی برطرفی کا سال۔ 1.7فیصد (اس سال 3حکومتیں اقتدار میں رہیں) (4) مالی سال 2001۔ پرویز مشرف 1.8فیصد۔
گزشتہ 10برسوں میں مالی سال 2009میں 0.4فیصد کی شرح نمو حاصل کی گئی جوکہ پاکستان کی تاریخ کی سست ترین شرح نمو تھی۔ یہ ناکامی پرویز مشرف کے جاری کردہ این آر او سے مستفید ہو کر اقتدار میں آنے والی زرداری، گیلانی حکومت کے حصے میں آئی۔ سوویت یونین نے 1979میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی افغان مہاجرین بڑے پیمانے پر پاکستان میں داخل ہوگئے۔ ڈکٹیٹر ضیاالحق نے ان مہاجرین کو پاک افغان سرحدکے قریب کیمپوں تک محدود رکھنے کے بجائے ان کو ملک بھر میں پھیلنے دیا۔ اس کے تباہ کن نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہئے کہ 1971 میں جب ملک دو لخت ہوا اور ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کا اعزاز کھو بیٹھے، اس وقت گزشتہ 13برسوں سے پاکستان میں ڈکٹیٹر ہی اقتدار پر قابض تھے۔ پہلے ایوب خان جس کے دور میں مشرقی پاکستان میں احساس محرومی بڑھا اور پھر یحیٰی خان۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہےکہ سوات اور جنوبی و شمالی و زیرستان میں فوجی آپریشن امریکی دبائو پر کئے گئے تھے حالانکہ یہ بات واضح تھی کہ پاک افغان سرحد پر باڑلگائے بغیر اور امریکہ سے یہ یقین دہائی حاصل کئے بغیر کہ افغانستان سے بھارت کی جانب سے پاکستان میں اسلحہ، ڈالر اور دہشت گردوں کے بھیجنے کو ممکنہ حد تک روکا جائے گا۔ دہشت گردی کی جنگ جیتی ہی نہیں جاسکتی۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا 3؍اگست 2017ء کو دیا گیا یہ انٹرویو تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے جس میں یہ ناقابل قبول دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈکٹیٹروں نے ملک ٹھیک کیا جبکہ سول حکمرانوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا۔
پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ہی ہم نے ان ہی کالموں میں حکومت کی معاشی ترقی کے دعوئوں کو دھوکا قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور معاشی ترقی کے غلط دعوے کئے جارہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ مشرف دور میںہی اسٹیٹ بینک کی گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر کے زمانے میں اسٹیٹ بینک کی 2007 کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2001سے 2007تک پاکستانی برآمدات میں 7800ملین ڈالر کا اضافہ دکھلایا گیا ہے جس میں سے 5500 ملین ڈالر کی برآمدات جعلی ہیں۔
ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے امریکہ کی سرتوڑ کوششوں کے نتیجے میں این آر او کے اجراکی راہ ہموار کی اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے 16؍اکتوبر 2007کو این آر او کا اجرا کیا اور اپنے رفقا کی مدد سے 3؍نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگا کر عدلیہ پر وار کیا۔ اقتدار برقرار رکھنے کے لئے کئے گئے ان تباہ کن فیصلوں سے پاکستان کو گہرے زخم لگے۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پرویز مشرف نے اعتراف کیا کہ ان کی کچھ غلطیوں بشمول این آر او کے اجرا سے پاکستان کو نقصان پہنچا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی جو این آر او سے مستفید ہو کر اقتدار میں آئی تھی ججوں کی بحالی میں جان بوجھ کر تاخیر کرکے پاکستان اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچایا لیکن بعد میں تسلیم کیا کہ یہ ان کی غلطی تھی۔
ہم نے اب سے 6برس قبل شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’دہشت گردی، سیاست و معیشت ‘‘ میں لکھا تھا کہ مشرف اور گیلانی یہ تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ یہ ان کی غلطیاں نہیں بلکہ امریکی ایجنڈے کی تکمیل تھی۔ ہم نے اپنی اس کتاب میں دلائل کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ 26؍ستمبر 2008 کو کئے گئے سو دے (جوکہ ایک عظیم دھوکا تھا) کے مطابق ملک کے اندر دہشت گردی کی جنگ امریکی ایجنڈے کے تحت لڑنے، ایبٹ آباد آپریشن کو عملاً خاموشی سے برداشت کرنے، اس آپریشن کے بعد امریکہ کے دیئےہوئے روڈ میپ پر عمل کرنے اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کچھ اہم مقدمات کے فیصلے ہی نہ ہونے یا ان پر عمل درآمد نہ ہونے جیسے اقدامات امریکی ایجنڈے اور ریشہ دوانیوں کا کسی نہ کسی حد تک حصہ نظر آتے ہیں۔
ماضی میں اعلیٰ عدلیہ کے کچھ اہم ترین فیصلے افسوسناک رہے ہیں جن کی ابتدا 18؍مارچ 1955کو مولانا تمیز الدین کیس کے فیصلے سے ہوئی۔ اسی طرح ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو عدالتی قتل قرار دیا گیا جوکہ دبائو میں دیا گیا تھا۔ اگر ایسے تمام فیصلوں کے ضمن میں بعد میں ہی تادیبی کارروائیاں کی جاتیں اور ساتھ ہی جوڈیشل اصلاحات کی جاتیں تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔
پاناما مقدمے میںجی آئی ٹی کی متنازعہ رپورٹ پر سپریم کورٹ نے سرعت کے ساتھ فیصلہ کرکے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کردیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے اپنے ہی ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں 2007 میں لئے گئے ازخود نوٹس کیس میں بینکوں کے قرضوں کی معافی کے ضمن میں ایک کمیشن بنایا تھا جس کی رپورٹ جنوری 2013 میں سپریم کورٹ کو پیش کردی گئی تھی لیکن ساڑھے چار برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس پر کوئی کارروائی ہو ہی نہیں رہی۔ اس سے بہت سے سوالات اورخدشات جنم لے رہے ہیں۔
بینکوں کے قرضوں کی معافی کے معاملے میں ہم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو 14؍دسمبر 2009کو ایک تفصیلی خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ قرضوں کی معافی کا اسٹیٹ بینک کا 2002کا سرکلر 29غیرمنصفانہ اور پارٹنر شپ ایکٹ سے براہ راست متصادم ہے۔ معزز چیف جسٹس نے اس کے 10روز بعد کہا تھا کہ عدالت اس سرکلر کا جائزہ لے گی۔ واضح رہے کہ یہ غیر آئینی سرکلر اسٹیٹ بینک نے آمر حکمراں کے ایما پر جاری کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور فاضل ججوں نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ قرضے معاف کروا کر دولت ملک سے باہر پہنچائی گئی ہے، قومی دولت واپس لانے کے لئےعدالت کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے سرکلر 29سے طاقتور لوگوں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم پر دبائو آئے گا مگر ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ اب اس مقدمے کی سماعت ہی بند ہو چکی ہے حالانکہ گزشتہ 10برسوں میںاس مقدمے پر کروڑوں روپے کے اخراجات آچکے ہیں۔
ہم ان ہی کالموں میں کہتے رہے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے اس مقدمے کا جلد فیصلہ نہ کیا تو کئی سو ارب روپے کا نقصان ہوگا، آنے والے برسوں میں بینک 500ارب روپے کے مزید قرضے معاف کریں گے اور لوٹ مار کلچر کو فروغ ملے گا۔ پاناما کیس کے فیصلے کےبعد ملک میں عدم استحکام اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ خدشہ بھی نظر آرہا ہے کہ آنے والے برسوں میں امریکہ بالواسطہ ہی صحیح چین کو کسی نہ کسی شکل میں فوجی تنارع میں ملوث کرنے کی کوشش کرے گا جس سے پاکستان بھی متاثر ہوگا۔ قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ مندرجہ بالا تمام صورت حال سے ’’نیوگریٹ گیم‘‘ کے تحت امریکی ایجنڈے کے مقاصد کے حصول میں معاونت ہورہی ہے۔ مزید گزارشات ان شاء اللہ آئندہ۔

تازہ ترین