• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیو بندی بریلوی ”تنازع“؟...روزن دیوار سے … عطاء الحق قاسمی

والد ِ ماجد مولانا بہاء الحق قاسمی  دار العلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ میرے لڑکپن میں ایک دن انہوں نے میری انگلی تھامی اور داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری کے لئے مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے پہلے خود وضو کیا اور پھر مجھے وضو کرنے کیلئے کہا۔ اس کے بعد مجھے کہا کہ دو نفل ادا کرو اور اس کا ثواب حضرت داتا صاحب کی نذر کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا، اسکے بعد وہ مجھے مزار کی جالی کے پاس لے گئے اور ہدایت کی کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں کہ وہ اس ولی اللہ کے طفیل میری خطائیں معاف کرے اور پھر یہ بھی بتایا کہ تمہارے دل میں اگر کوئی نیک خواہش ہے جسکی تم تکمیل چاہتے ہو تو وہ بھی زبان پر لے آؤ۔ اور پھر جب میں نے ایک دن مولانا شاہ احمد نورانی  کی ایک تقریر کی ریکارڈنگ اور برمنگھم کی ایک تقریب میں پیر سید نصیر الدین شاہ گولڑہ شریف کی تقریر سنی تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ اولیاء اللہ کے مزاروں پر حاضری کے حوالے سے انہوں نے ہوبہو وہی کچھ کہا جو میرے والد نے مجھے بتایا تھا۔ بریلوی مکتب ِ فکر کی حامل ان دونوں جید شخصیات نے بزرگوں کے مزار پر حاضری کے وقت سجدئہ تعظیمی کو بھی شرک قرار دیا اور ان تمام رسومات کی واضح ترین الفاظ میں مذمت کی جو مزاروں پر دیکھنے میں آتی ہیں۔ تب میں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے ان دو مکاتب ِ فکر میں بے شمار باتیں متفق علیہ ہیں۔ جن نکات پر اختلاف ہے ان پر بھی کبھی تلوار یں اس طرح نیام سے نہیں نکلیں جس طرح بعض مفسد لوگوں کی بھڑکائی ہوئی آگ کے دوران ان دنوں نکل آتی ہیں۔ والد ِ ماجد نے مجھے ایک واقعہ اپنے بچپن کے حوالے سے سنایا، ان کے والد یعنی میرے دادا مفتی غلام مصطفی قاسمی  سیرت النبی کے ایک جلسے میں شامل تھے، جلسے کے اختتام پر حاضرین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درود و سلام بھیجنے کیلئے کھڑے ہوئے تو میرے دادا بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ تقریب کے اختتام پر گھر واپس جاتے ہوئے والد نے میرے دادا سے پوچھا ”آپ کا عقیدہ تو اس محفل کے حاضرین سے مختلف ہے ، پھر آپ ان کے ساتھ کیوں کھڑے ہو گئے؟“ مفتی صاحب نے فرمایا ”اس کی دو وجوہ تھیں، پہلی وجہ یہ کہ اگر حاضرین حضور کو محفل میں موجود سمجھ کر ان کے احترام میں کھڑے ہوئے تو میں ان کے ذکر کے احترام میں کھڑا ہو گیا اور دوسری اور بڑی وجہ یہ کہ میں اس بھری محفل میں اگر بیٹھا رہتا تو اس سے مسلک کی شدت کا اظہار ہوتا تھا اور میں اسے اچھا نہیں سمجھتا“ واضح رہے میرے دادا مفتی غلام مصطفی قاسمی  کے شاگردوں میں دیوبندی مکتب ِ فکر کے بے شمار جید علماء کے علاوہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مفتی محمد حسن بھی شامل تھے۔
ان واقعات کے بیان کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ دونوں مکاتب ِ فکر کے عقائد کی بنیادیں ایک ہیں، کہیں کہیں توجیہہ کا اختلاف ہے۔ دیوبندی اور بریلوی دونوں امام اعظم ابوحنیفہ کے پیروکار ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں مختلف مسائل کے حوالے سے متعدد بار یکساں موقف کے ساتھ سامنے آتے رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خاں اور فیصل آباد میں عید میلاد النبی کے مبارک موقع پر جن مفسدوں نے شرارت کی اور مسلمانوں کے ان دو مکاتب ِ فکر کو لڑانے کیلئے جو شوشے چھوڑے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے تاہم خدا کا شکر ہے کہ دونوں طرف کے علماء نے اس نازک موقع پر جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فسادیوں کی تاریں کہیں اور سے ہلتی ہیں اور اس گروہ کا تعلق اسی طبقے سے ہے جو کبھی امام بارگاہوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور کبھی مسجدوں کو آگ لگاتا ہے۔ ان کے ساتھ اسی طرح نمٹنے کی ضرورت ہے جس طرح ملک دشمنوں کے ساتھ نپٹا جانا چاہئے۔
لیکن میں جانتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کے فسادات ہو چکے ہیں لیکن کبھی کسی مفسد کو سزا نہیں ملی، ایسے مواقع پر اپنے اپنے فسادیوں کو بے گناہ قرار دے کر چھڑا لیا جاتا ہے جس کے بعد وہ مستقبل میں فساد کی آگ بھڑکانے کی پلاننگ میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ تمام ضلعوں کے حکام جانتے ہیں کہ ان کے ضلع میں کون کون سے مولوی اشتعال انگیز تقریریں کرتے ہیں لیکن وہ کبھی ان کی گرفت نہیں کرتے بلکہ بوقت ِ ضرورت انہیں معزز و محترم قرار دے کر حکومت کی بارگاہ میں پیش کر دیتے ہیں۔ اس قماش کے مولویوں نے ایک محدود طبقے ہی میں سہی لیکن ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر اس بری طرح بھر دیا ہے کہ موقع ملتے ہی وہ باہر آ جاتا ہے بلکہ کئی دفعہ تو موقع کا انتظار بھی نہیں کیا جاتا۔ گزشتہ ہفتے اس کی ایک بدترین مثال دیکھنے کو ملی۔ لاہور میں محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام سیرت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام مکاتب ِفکر کے جید علماء نے حضور کی سیرتِ مبارکہ کے حوالے سے رواداری اور اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر بہت خوبصورت باتیں کیں۔ تقریب کی صدارت چیف منسٹر پنجاب کر رہے تھے۔ انہوں نے بھی اسی موضوع پر اظہار خیال کیا، ان کی تقریر کے دوران اظہارِ تحسین کے لئے ایک کونے سے ایک نعرہ بلند ہوا۔ فرقوں کی شناخت سے بچنے کے لئے میں اسے نعرئہ الف کا نام دیتا ہوں اس نعرہ الف کا جواب ایک دوسرے کونے سے نعرئہ ب سے دیا گیا۔ پھر نعرہ ب کے جواب میں ایک تیسرے کونے سے نعرہ ج بلند کیا گیا۔ ان لوگوں کی تعداد اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر تھی لیکن اسی طرح کے مٹھی بھر لوگ ملک کی مذہبی فضا کو متعفن کئے ہوئے ہیں۔ علماء کو سوچنا چاہئے کہ یہ لوگ کس کی شعلہ بیانیوں کی پیداوار ہیں؟ سو حکومت اگر فرقہ پرستی کا انسداد چاہتی ہے تو ایسا فساد کے بعد رسمی کارروائیوں اور بیانات سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ فساد سے پہلے فسادیوں کی فہرستیں بنائیں اور پھر انہیں معاشرے میں عملی طور پر اچھوت بنا دیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا، اقتدار پرست حکومتیں اپنا اقتدار بچانے میں انٹرسٹڈ ہوتی ہیں، ملک بچانے میں نہیں!




تازہ ترین