• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غربت، جہالت یا قیادت؟؟....صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود

میں مسجد نبوی کی دیوار کے ساتھ بنائے گئے ایک صاف ستھرے باغیچے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ تین چار پاکستانی میرے پڑوس میں آ کربیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے۔ ہم ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی تھے چنانچہ انہیں یہ احساس ہی نہیں تھاکہ کوئی ان کی باتیں سن رہا ہے۔ ان کی گفتگو سے مجھے فوراًاندازہ ہو گیا کہ وہ پاکستانی کارکن ہیں جو کئی برسوں سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں۔ ان میں سے دو کا تعلق پنجاب سے تھا جبکہ ایک کارکن صوبہ سرحد سے تھا۔ وہ ہاتھوں میں چائے کے گلاس پکڑے گپ شپ کر رہے تھے کہ اچانک ایک کارکن نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ” یارو دوسرے ملک میں جانے سے بہتر ہے کہ انسان پراپنے ملک میں دفعہ 302 لگ جائے۔ “میں اس کا یہ فقرہ سن کر چائے کی چسکی لیتے ہوئے مسکرایا کیونکہ دفعہ 302 کا مطلب ہوتا ہے قتل کا مقدمہ اوراس شخص کا کہنا تھا کہ دوسرے ملک میں جا کر رہنے سے اپنے ملک میں قتل کا مقدمہ اور جیل بہتر ہے۔ اس کی بات سن کر دوسرا بولا ”ہمیں ہر سال بارہ ماہ کام کرنے کے بعد دو ماہ کی چھٹی ملتی ہے۔ حنیف دو سال کام کے بعد چار ماہ کی چھٹی اکٹھی کرکے بڑے جوش اورشوق سے پاکستان گیا تھا لیکن لوڈشیڈنگ اور دوسرے مسائل سے گھبرا کر ڈیڑھ ماہ بعد ہی واپس آ گیا ہے۔ میں بھی چار ماہ کی چھٹی پر جارہا ہوں لیکن سنا ہے کے لاہور میں 40درجہ حرارت ہے اور بجلی بارہ گھنٹے غائب رہتی ہے اورپانی بھی نہیں ملتا ۔اس لئے ہوسکتا ہے کہ ایک ماہ کی چھٹی گزار کر ہی میرا جی بھر جائے اور میں واپس لوٹ آؤں۔“ ان کی باتیں سن کر تیسرا کارکن بولا ”بھائی یہ غربت بہت بڑی لعنت ہے۔ پاکستان کے پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جہالت ہے لیکن میں محسوس کرتاہوں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔ ہم سب غربت کے سبب یہاں مزدوری کرنے آئے ہیں چنانچہ سعودی عرب اور یو اے ای کے لوگ ہمیں نہ صرف کمتر سمجھتے اور ہم پر ترس کھاتے ہیں بلکہ عام طور پر پاکستانیوں کی جانب ان کا رویہ بھی قدرے توہین آمیز ہوتا ہے۔ بلاشبہ سعودیوں میں احساس تفاخر اور خوداعتمادی کی فراوانی ہے لیکن یہاں بھی جہالت اورغربت کی کمی نہیں اس کے باوجود ان کے لوگ باہر ممالک میں مزدوری کرنے نہیں جاتے کیونکہ ریاست امیر ہے اور ناداروں کے وظیفے لگے ہوئے ہیں۔ یہاں ہر سال کروڑوں لوگ حج اور عمرے کے لئے آتے ہیں جس کے سبب بے شمار لوگوں کو چھوٹے موٹے ذرائع آمدنی مل جاتے ہیں۔ کوئی بیکار شخص فٹ پاتھ پر بھی سینکڑوں ریال کا سامان رکھ کربیٹھ جائے تو شام تک دو تین سو ریال کمالیتا ہے۔ ہمیں دعویٰ ہے کہ ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہ ہم غریب ہیں او رپاکستان کشکول پکڑے دنیا بھر سے ڈالر مانگتا پھرتا ہے۔ ہمارے حکمران کبھی امریکہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں توکبھی امیر مسلمان ممالک سے امداد کی بھیک مانگتے ہیں۔ اس لئے ہماری عزت کون کرے گا؟ عزت ان قوموں کی ہوتی ہے جو اپنی عزت کماتی ہیں۔ جب سے من موہن سنگھ سعودی عرب کادورہ کرکے گیا ہے یہاں ہندوستانیوں کا مرتبہ اوراحترام بڑھ گیا۔ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا سارا زور ذاتی تعلقات قائم کرنے پر ہوتا ہے۔ وہ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اس سے ملک کے احترام میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔“ ابھی یہ شخص اپنے دل کے پھپھولے ”پھول“ ہی رہا تھا کہ دوسرے نے اس کی بات کاٹ دی۔ وہ بولا ”سارے اسلامی ممالک میں پسماندگی اور خواندگی کے باوجود جتنے ماہر سائنس دان، ماہرین تعلیم، ڈاکٹرز اور انجینئرز پاکستان کے پاس ہیں اتنے کسی مسلمان ملک کے پاس نہیں لیکن یہ سب کچھ غربت کا کیا دھرا ہے کہ ہر قابل سائنس دان، انجینئر، ڈاکٹر اور ماہر پاکستان کو چھوڑ کر امریکہ، یورپ، یو اے ای یا سعودی عرب چلا جاتا ہے۔ ہمارے باصلاحیت نوجوان دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد روشن اور خوشحال مستقبل کی خاطر دوسرے ممالک میں آباد ہو جاتے ہیں اور جو امریکہ یایورپ میں جاتے ہیں ان میں سے بہت کم واپس آتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں ان کے لئے ملازمت اور خوشحالی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسری طرف امیر ممالک سے اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر جانے والوں کی اکثریت واپس لوٹ آتی ہے کیونکہ انہیں اپنے ملک میں بے پناہ مراعات دستیاب ہوتی ہیں۔ اس طرح ہمارا ملک غریب سے غریب تر ہو رہاہے جبکہ دوسرے ممالک ہمارے ماہرین کی خدمات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔“ گفتگو کا سلسلہ کاٹتے ہوئے تیسرا بولا ”میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں صرف میٹرک ہوں۔ مجھے آپ کی باتوں سے مکمل اتفاق نہیں۔ مان لیا کہ سعودی عرب کو تیل کی دولت نے خوشحال بنا دیا ہے اور یہاں آنے والے کروڑوں حاجی حضرات بھی ایک بڑا ذریعہ آمدنی ہیں لیکن یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ سعودی حکومت نے بہترین منصوبہ بندی کرکے تھوڑے عرصے میں بے پناہ ترقی کی ہے اور اپنی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرے مضبوط معاشی ڈھانچہ قائم کر دیا ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل اور بہترین انسانی وسائل کے انعامات عطا کئے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف غربت بلکہ دوسرے مسائل پر بھی قابو پایا جاسکتا تھا۔ منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لایا جاسکتا تھا لیکن ہماری اصل بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اہل قیادت نہیں ملی۔ اپنے بڑے سیاسی خانوادوں اور سیاسی خاندانوں پر نظر ڈالو ۔ سب نے ملک سے باہر اربوں ڈالر کے اثاثے بنائے ہیں لیکن ملک کو کچھ نہیں دیا۔ ان کے آمدنی کے گوشوارے بھکاری پن کی چغلی کھاتے ہیں کیونکہ روزانہ لاکھوں روپے خرچ کرنے والوں کے نہ بینک بیلنس ہیں اور نہ ہی وہ انکم ٹیکس دیتے ہیں جبکہ دوسرے ممالک میں وہ لاکھوں ڈالر کے ٹیکس اداکر رہے ہیں۔ ان حضرات نے حکومت میں رہ کر بھی ایسی منصوبہ بندی نہ کی کہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہوسکتا ۔ ان میں نہ ہی صرف اہلیت کی کمی تھی بلکہ خلوص نیت بھی واجبی ہی تھا۔ اور یارومجھے ایک بات بتاؤ۔ پاکستان توماشا اللہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جن سے صرف فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔سنگاپور کے پاس کون سے قدرتی وسائل یا تیل ہے کہ آج وہ خوشحال ممالک کی صف میں باعزت مقام پر کھڑا ہے جبکہ پاکستان اس سے ہرلحاظ سے بہتر اور قدرت کا زیادہ انعام یافتہ ملک ہے لیکن پسماندگی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔سنگاپور کو صرف اس کے قائد مسٹر لی نے منصوبہ بندی کرکے چند برسوں میں ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنا دیا جبکہ ہماری قیادت کی نا اہلی نے ہمیں آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ امن وامان، بم دھماکوں، دہشت گردی کامسئلہ ہو یا بجلی کے بحران، غربت اور جہالت کا مسئلہ… یہ سارے مسائل ہماری قیادت کے وژن اور بصیرت کے فقدان کا منہ بولتا ثبوت ہے ورنہ صحیح وقت پرمنصوبہ بندی کرکے ان پرقابو پایا جاسکتا تھا۔“ … ان کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا اور میں ان کی بحث سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اتنے میں حرم شریف سے اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز بلند ہوئی اور فضا میں پھیل گئی۔ اس روز نماز کے بعد میں نے بڑے خشوع و خضوع، غمناک آنکھوں اورلرزتے ہاتھوں کے ساتھ خدا سے یہ التجا کی کہ یا رب پاکستان رضائے الٰہی کاانعام تھا، اس کامعرض وجود میںآ نا بھی ایک طرح سے معجزہ ہی تھا۔ میرے رحیم وکریم رب ہماری فریاد سن لے اور پاکستان کو ایسی اہل قیادت عطا فرما جو اسے ان بحرانوں سے نکال کر دنیا کی باعزت اور خوشحال قوموں کی صف میں کھڑا کردے۔ یا رب ہم پر رحم فرما، ہم پر اپنا کرم فرما۔“ مجھے یقین ہے کہ حرم شریف میں مانگی گئی دعائیں بے اثر ہوتی ہیں نہ ضائع جاتی ہیں …اور میں اسی امید پر زندہ اور مطمئن ہوں۔





تازہ ترین