• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان،پاکستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے جو ہرزہ رسائی کی ہے وہ ہرگز نئی نہیں ہے۔ اپنے پیش روئوں کی طرح ٹرمپ نے بھی پاکستان پر کم و بیش وہی الزامات عائد کئے ہیں جو اپنا کام نکل جانے کے بعد امریکہ ہمیشہ کرتا آیا ہے لیکن اس بار امریکی صدر کے بیان اور امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن کی وضاحت میں جو وارننگ دی گئی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان کودھمکی دی گئی ہے کہ اگراس نے دہشت گردوں کی مدد جاری رکھی تو اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، امریکی مفادات پر زد پڑنے کی صورت میں پاکستانی حدود میں یک طرفہ کارروائی کرنے سے بھی ڈرایا گیا ہے۔ پاکستان کو اربوں ڈالر دینے کا احسان جتاتے ہوئے امریکی امداد میں کمی لانے اور پاکستان کا نان نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کرنے جیسی گیڈر بھبکیاں بھی دی گئی ہیں۔ بھارت سے شراکت داری کو مضبوط کرنے اور خطے میں اسے بالادست بنانے کی امریکی ترجیحات کا عندیہ بھی دیا گیا ہے، جبکہ پاکستان سے ایک بار پھر مطالبہ کیا گیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے جبکہ حسب معمول آنکھوں میں کھٹکنے والے پاکستان کے جوہری پروگرام پر سیکورٹی کے نام پر تحفظات بھی ظاہر کئےگئے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے دہشت گرد مودی کی زبان بولنا بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کیوں کہ صرف دو ماہ قبل اسی ہندو انتہا پسند سے ملاقات کے بعد واشنگٹن میں جاری کئے جانے والے مشترکہ اعلامیے میں بھی ٹرمپ نے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا تھا،تب بھی افغانستان میں دہشت گردی اورعدم استحکام کا ذمہ دار پاکستان کو قراردیا گیا تھا اس لئے امریکہ سے کسی خیر کی توقع عبث ہے بلکہ یہاں مجھے سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ امریکہ سے دشمنی مول لینا خطرناک ہو سکتا ہے لیکن امریکہ سے دوستی اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ وہی ہنری کسنجر تھا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی قوت کے حصول سے باز رہنے کی تنبیہ کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ مسٹر بھٹو ہم تمہیں عبرت کی مثال بنا دیں گے۔ چار دہائیاں گزر جانے کے بعد اس خطے میں ایک بار پھر امریکی مفادات پرشدید ضرب پڑ رہی ہے، پاکستان کی چین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری،سی پیک کی صورت میں مضبوط پاک چین اقتصادی تعاون،چین کی وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ تک رسائی، پاکستان کے روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات،امریکہ اور بھارت کے مقابلے میں خطے میں نئے بلاک کی تشکیل اور سب سے بڑھ کر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حامل پاکستان کے پائوں پر کھڑا ہونے جیسے عوامل امریکہ بہادر کے لئے ڈرائونا خواب بنتے جا رہے ہیں۔ امریکی پینٹاگان کے عزائم اور ترجیحات کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جو ٹرمپ کل تک افغانستان سے آخری فوجی کوبھی واپس بلانے کے دعوے کر رہا تھا اور جس نے اقتدار میں آ کر ناکام افغان پالیسی پر پینٹا گان اورسی آئی اے کے کرتا دھرتوں کا احتساب کرنے کی کوشش کی آج وہی ٹرمپ اپنے پیش روئوں کی زبان بولنے اور اسی ناکام پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اس وقت امریکہ میں یہ بحث زور پکڑ چکی ہے کہ امریکی انتظامیہ میں ملٹری افسران کا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور امریکہ کی سیکورٹی، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق پالیسیوں پر انہی عسکری حکام کی چھاپ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اعلان کردہ پاک افغان پالیسی کے پس پردہ معماربھی یہی عسکری حکام ہیں جن میں وزیر دفاع جم مٹیز سر فہرست ہیں۔ جم مٹیز کوتو امریکی سینیٹ نے بطور فوراسٹار جنرل ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر دفاع تعینات کرنے کے لئےقواعد میں خصوصی نرمی تک برتی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے حالیہ گیلپ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ میں فوج کو بہتر فیصد امریکیوں کی بھرپور حمایت یا پسندیدگی حاصل ہے جبکہ امریکی صدر کے لئے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے کانگریس اور میڈیا جیسے سول اداروں کی مقبولیت میں دن بدن کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عقابوں (ہاکس) کی طرف سے تیار کی گئی نئی افغان پالیسی میں قربانی کا بکرا ایک بار پھر پاکستان کو بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ افغانستان کی سنگلاخ چٹانوں میں 2400 امریکی فوجیوں کو مروانے اور ایک ہزار ارب ڈالر جھونک دینے کے بعد بھی جب واپسی کا باعزت راستہ موجود نہ ہو تو امریکہ پر ہیجان طاری ہونا فطری امر ہے لیکن یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ امریکہ سے خود کو بچانے کے لئے ہم نے کیا پیش بندی کی ہے۔ میرے خیال میں امریکہ جس ہیجانی کیفیت میں ہے اسے مزید مشتعل کرنا دانشمندی نہیں بلکہ اسے قابو کرنے کےلئے جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا ہوگا۔امریکی صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ ٹیلرسن کی طرف سے پاکستان سے ڈومورکے تقاضے کے جواب میں سیاسی اور عسکری قیادت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی مشاورت کے بعد انتہائی جامع،موثر اور حقائق پر مبنی جوابی بیانیہ جاری کیا ہے۔ چین، روس اور ایران کی طرف سے پاکستان کی حمایت پر مبنی بیانات اور وزیر اعظم کے ہنگامی دورے میں سعودی عرب کی طرف سے تعاون کی یقین دہانی خوش آئند ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کے امریکہ کا دورہ موخر کرنا اوراس سے پہلے چین،روس اور دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کی پالیسی بھی درست سمت کی طرف ایک قدم ہے تاہم قومی اتحاد اور متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے لئے اپوزیشن کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی تجویزصائب ہے۔ یہ پارلیمنٹ ہی تھی جس کی بدولت سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد نہ صرف نیٹو سپلائی بند کی گئی بلکہ اسے کھولنے کے لئے ہر امریکی دبائو کومسترد کر دیا گیااور پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ میں پہلی بارامریکہ کو معافی مانگنا پڑی تھی۔ یہ بھی پارلیمنٹ ہی تھی جس نے حالیہ سعودی یمن تنازعے میں پاکستان کو غیر جانب دار ررہنے کی راہ ہموار کر کے اسے بہت سے مسائل میں الجھنے سے بچا لیا تھا۔ ایبٹ آباد واقعہ کے بعد بھی منعقدہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں امریکی کارروائی اور ڈرون حملوں کو پاکستان کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا۔اسی اجلاس میں حکومت پاکستان کوآزاد خارجہ پالیسی بنانے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی سفارش کی گئی لیکن ’رات گئی بات گئی ‘ والا رویہ اختیار کیا گیا جس کا خمیازہ صرف چھ ماہ بعد ہی سلالہ چیک پوسٹ پرامریکی حملے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔اس بارنو دن تک جاری رہنے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں امریکہ کے ساتھ از سر نو تعلقات قائم کرنے کے لئے رہنمائی پر مبنی چودہ انتہائی اہم تجاویز دی گئیں۔ان میں امریکہ کے ساتھ باہمی احترام اورایک دوسرے کی خودمختاری کے تحفظ پرمبنی تعلقات قائم کرنے، اسلحہ بارود سمیت ہر قسم کی ترسیل کی بندش کے لئے پاکستانی کی زمینی اور فضائی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے،قومی سلامتی سے متعلق کوئی بھی زبانی معاہدہ نہ کرنے،پہلے سے موجود ایسے معاہدوں کو فوری ختم کرنے،فوجی تعاون سمیت کسی بھی معاہدے کی وفاقی کابینہ سے منظوری لینے،پارلیمنٹ میں پیش کرنے، پاکستانی حدود کو غیر ملکی بیسزکے قیام کے لئے فراہم نہ کرنے سمیت آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینے جیسی اہم تجاویز شامل تھیں۔ پاکستان کے دفاع اور سالمیت کی ضامن ان تجاویز کو وقت گزرنے کے بعد ایک بار پھرسرد خانے کی نذر کر دیا گیا جس کا نتیجہ اوباما کے بعد اب ٹرمپ کی طرف سے پاکستانی حدود میں یک طرفہ کارروائی کرنے کی دھمکیوں کی صورت میں نکل رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سفارتی محاذ پر پاکستان کا مقدمہ مضبوطی سے لڑنے کے ساتھ پارلیمنٹ کی طرف سے فراہم کردہ طاقت کو اپنا ہتھیار بنایا جائے تاکہ امریکہ سمیت کسی کو بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہو۔

تازہ ترین