کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے مقبول پروگرام’ کیپٹل ٹاک ‘میں میزبان حامد میر نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ پاکستان میں ایک ڈیڈ لاک کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کیونکہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ امریکا کی پالیسی پہلے بھی ناکام ہوئی ایک دفعہ دوبارہ پھر ناکام ہوجائے گی ، خواجہ آصف کا دورہ امریکا جو پہلے شیڈول تھا اب وہ کچھ دنوں کے لئے ملتوی کردیا گیا ہے ، امریکی وزیر خارجہ نے بھی پاکستان آنا تھا ان کا دورہ بھی ملتوی کردیا گیا ہے او ریوں لگتا ہے کہ اس ڈیڈ لاک سے کوئی تیسرا فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے ۔ پاکستان میں آج کل یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا پاکستان امریکا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے ،کیا پاکستان کی معیشت امریکی امداد کے بغیر چل سکتی ہے ،اگرامریکا او رپاکستان تعلقات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوتا ہے تو اس کا زیادہ نقصان کس کو ہوگا امریکا کو یا پاکستان کو یا پھر کوئی تیسرا اس کا فائدہ اٹھائے گا ۔
اس موضوع پر پروگرام میں سینیٹر حاصل بزنجو ، سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے گفتگو کی ۔ خورشید محمو دقصوری نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کیوں امریکا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے الحمدللہ بالکل زندہ رہ سکتا ہے ۔ زندہ تو رہ سکتا ہے اگر وہ اپنے دفاع اور معیشت کو مضبوط رکھے کیونکہ امریکن اکنامک اور ملٹری ایڈ بہت کم ہوگئی ہے جب میں فارن منسٹر تھا اس وقت افغان بارڈر پر ایک ہزار چوکیاں تھیں امریکا کی ایڈ انتہائی مختصر سی ہے جبکہ ہمارے پاس چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور ہے جس کے مقابلے میں یہ ایڈ کچھ بھی نہیں ہے۔
میں بطور پاکستانی یہ نہیں چاہوں گا کہ کل کو چین یہ سمجھے کہ ہم خدا نخواستہ اس پر انحصار کرنے لگے ہیں ۔ جب پاک، چین دوستی شروع ہوئی تو اس وقت ہم چین کے لئے مددگار ثابت ہوتے تھے اور ساری مغرب اور اسلامی ممالک میں پاکستان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا ۔ اب جو صورتحال ہے اس میں ناں ہی ہم اور ناں ہی چین یہ چاہے گا کہ ہم بالکل ہی کٹ جائیں کیونکہ چائنا یہ بخوبی سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان کے امریکا سے تعلقات اچھے رہے تو یہ چین کے بھی مفاد میں ہے ہمیں بیک وقت چین او رامریکا سے اچھے تعلقات رکھنے ہوں گے ، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بغیر 90 فیصد جنگ امریکا نہیں جیت سکتا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودہ پالیسی اس سے مختلف ہے جو اس نے اپنی ابتدائی تقریر میں کہی تھی کہ وہ افغانستان سے فوجیں واپس بلالیں گے لیکن امریکی جرنیل بخوبی جانتے تھے کہ اگر ایسا ہوا تو ویتنام والی صورتحال ہوگی کہ امریکی فوجیوں کو ہیلی کاپٹر میں لٹک کر وہاں سے نکلنا پڑا تھا اس لئے ان کے مخالفت کے سبب ہی ٹرمپ نے فوجیں واپس نہ بلانے کا بیان دیا ۔ وفاقی وزیر حاصل بزنجو نے پارلیمنٹ میں اپنے بیان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جو باتیں ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہی ہیں ان کا عندیہ ہمیں تو ڈیڑھ سال پہلے ہی مل چکا تھا ہمیں امریکا کو ہر حال میں Avoid کرنا چاہئے یہی ہمارے اور ہماری قوم کے حق میں ہے ۔
لیکن اگر امریکا ایسے حالات پیدا کردے کہ ہم Avoid نہ کرسکیں کے جواب میں حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ مجبوری او ربات ہے کچھ چیزیں ہمیں اپنی تو کچھ ان کی دیکھنی پڑیں گی جب میں نے یہ بات اسمبلی میں کہی او رکیبنٹ اجلاس میں کہی تو مجھے یہی لگا کہ کسی کو میری یہ بات پسند نہیں آئی ہے ۔اس وقت ہم جس جوش سے نکلے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ضرورت ہمیں نہیں ہے ہمیں ایک ذمہ دار قوم کی حیثیت سے اپنا راستہ طے کرنا چاہئے کہ ہمیں کرنا کیا ہے ۔ ہمیں فوری طو رپرا مریکا کے ساتھ بات چیت کا راستہ نکالنا ہوگا ،اس کے لئے ہمیں اپنے او رامریکا کے مشترکہ اتحادیوں کو درمیان میں ڈالنا ہوگا یعنی سعودی عرب اور برطانیہ ۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو وہ سرجیکل اسٹر ائیک بھی کرسکتے ہیں ، معاشی طور پر پابند یا ں بھی لگاسکتے ہیں ۔
اس حوالے سے خورشید قصور ی کا کہناتھا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکا کے صدر نے جس قسم کی زبان استعمال کی ہے اگر پیغام یہی ہوتا اور زبان شائستہ ہوتی تو پاکستان کے عوام اتنے زیادہ مشتعل نہیں ہوتے اور کسی بھی ملک کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے عوامی احساسات کو رد کردے ۔ اگر وہ ہمیں برملا گالیاں دے سکتے ہیں تو پھر امریکا کی عوام کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ ہماری عوام احتجاج میں حق بجانب ہے اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہمیں سعودی عرب اور برطانیہ ، برطانیہ اس لئے کہ امریکا بہت بھروسہ کرتا ہے جنوبی ایشیا کے حوالے سے برطانیہ کے مشوروں پر اس لئے ہمیں برٹش گورنمنٹ اور برٹش پارلیمنٹ کے ذریعے جس میں اچھا اثر و رسوخ رکھنے والے پاکستانی نژادبرطانوی پارلیمنٹرین بھی موجود ہیں جن کا تعلق کشمیرسے ہے ہمیں ان کو کہنا چاہئے کہ ٹرمپ صاحب کو سمجھائیں ۔
سعودی عرب سے ہمارا اب بھی گہرا تعلق ہے جبکہ یمن پاکستان نے اپنی فوجیں نہیں بھیجیں جس کا برا سعودی عرب نے منایا بھی لیکن ہمارا موقف درست تھا کہ حرمین شریفین کی حفاظت کے لئے ہم ہمہ تن گوش ہیں لیکن یمن کے حوالے سے ہماری عوام اجازت نہیں دیتے کہ ہماری فوج کسی مسلمان ملک پر حملہ کرے ۔ نیٹو ٹروپس کے لئے سپلائی لائن کا راستہ پاکستان ہے اگروہ بندہوجائے تو پھر امریکا کیا کرے گا ۔ وفاقی وزیر حاصل بزنجو نے اس حوالے سے کہا کہ یہ تو پہلے بھی ہوچکا ہے اس وقت افغانستان میں 80 ہزار امریکا کی فوج تھی لیکن اس کے باوجود بھی امریکا سروائیو کرگیا اب تو اتنی فوج بھی نہیں ہے ، ہمیں صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے خود ابھی طے نہیں کیا کہ ان کو کیا کیا کرنا ہے اور ہم ہیں کہ گن گن کر فلسفے دے رہے ہیں کہ یہ راستہ بند کردیں گے ، اس طرح کرلیں گے بہتر ہوگا کہ ہم صبر سے کام لیں ہمیں اس وقت جو پیش بندی کرنی ہے وہ امریکا سے بات چیت کا راستہ ہے ۔