• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کے حلقہ NA-120میں انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ نامزد امیدوار اور سیاسی کارکنان، پارٹی اجلاس، جلسے جلوس اور ریلیوں کے انعقاد میں مصروف ہیں۔ اس وقت حلقے میں چار نمایاں سیاسی جماعتیں نظر آتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پی پی پی اور جماعت اسلامی۔ تاہم اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے مابین ہونا ہے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہیں کہ مقابلہ میاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ہے۔ یہ علاقہ نواز شریف کا آبائی حلقہ کہلاتاہے ۔وہ 1985 سے اس حلقے سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ کسی زمانے میں مسلم لیگ کو اس حلقے میں روایتی حریف پیپلز پارٹی کا سامنا ہوا کرتا تھا۔ تاہم 2013 میں تحریک انصاف بطور مقبول سیاسی جماعت سامنے تھی۔تحریک انصاف نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو ، میاں نواز شریف کے مقابلے میں کھڑا کیا۔ انتخابی نتائج کے مطابق میاں نواز شریف نے 91,666 ووٹ حاصل کئے ۔ یعنی ڈاکٹر یاسمین راشد کو کم و بیش 40 ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی۔ تاہم یہ انتخاب ہارنے کے باوجود تحریک انصاف کی کارکردگی کو ناقص نہیں کہا جا سکتا۔ تحریک انصاف کی کامیابی یہ تھی کہ میاں نواز شریف جیسے منجھے ہوئے سیاستدان کے مقابل ایک گمنام خاتون نے 52,321 ووٹ حاصل کرلئے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی اس کامیابی کے پیچھے عمران خان کی مقبولیت کارفرما تھی۔ اس وقت امیدوار کوئی بھی ہوں، اصل مقابلہ میاںنواز شریف اور عمران خان کے درمیان ہی ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعدسابق وزیر اعظم نواز شریف کی سیٹ خالی ہوئی تو قیاس تھا اس حلقے سے میاں شہباز شریف کو منتخب کروا کر قومی اسمبلی میں لایا جائے گا۔ تاکہ وہ وزارت عظمیٰ سنبھال سکیں۔مسلم لیگ(ن) کیطرف سے اس فیصلے کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا۔ تاہم بعد ازاں حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی۔ سوچا گیاکہ میاں نواز شریف کی سبکدوشی کے بعدوفاقی حکومت کو تو دھچکا لگا ہی ہے۔ شہباز شریف جیسے تجر بہ کار اور انتظامی امور پر گرفت کے حامل وزیر اعلیٰ کو کھونا، کہیں صوبائی حکومت کیلئے بھی دھچکا ثابت نہ ہو۔ یوں بھی صوبہ پنجاب مسلم لیگ(ن) کا سیاسی قلعہ تصور ہوتا ہے۔ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں مسلم لیگ (ن) اس بات کی ہر گز متحمل نہیں کہ اس وقت پنجاب پر اسکی گرفت کمزو ر ہو ۔ لہذا قرعہ فال بیگم کلثوم نواز شریف کے نام نکلا۔ بیگم کلثوم نواز کی نامزدگی اس لحاظ سے ایک اچھا فیصلہ ہے کہ پارٹی اور حلقے کے عوام کیلئے وہ ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔1999 میں جنرل مشرف نے منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تو اس زمانے میں محترمہ کلثوم نواز پارٹی اجلاس میں متحرک رہیں اور سڑکوں پر آمریت کیخلاف احتجاج میں بھی پیش پیش تھیں۔ یعنی سیاسی طور پر بھی وہ ایک تجربہ کار خاتون ہیں۔
تحریک انصاف کی نامزد امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد اپنی انتخابی مہم خود چلارہی ہیں۔ گھر گھر جا کر لوگوں سے ووٹ کی طلبگار ہیں اور جلسے جلوس میں بھی مصروف ہیں۔ وہ ووٹرز کو بتا رہی ہیں کہ عمران خان کی جہد مسلسل کے باعث، عدالت عظمیٰ نے میاں نواز شریف کو منصب سے ہٹایا ۔ تحریک انصاف کے روایتی نعروں اور بیانات کی طرح ڈاکٹر یاسمین راشد کی انتخابی مہم کا مرکز بھی یہی ہے کہ سیاسی حریفوں خاص طو ر پر مسلم لیگ (ن) پر کرپشن کے الزامات عائد کیے جائیں اور انکی ناقص حکومتی کارکردگی کا حوالہ دیا جائے۔ دوسری طرف بیگم کلثوم نواز کی علالت کے باعث مریم نواز شریف اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ وہ اب تک پارٹی اجلاس، ریلی اور خواتین کنونشن جیسی سرگرمیاں کر چکی ہیں۔ مریم نواز اپنی انتخابی مہم میںمسلم لیگ(ن)کی حکومتی کارکردگی کا حوالہ دے رہی ہیں ۔ تاہم انکی مہم کا بنیادی نکتہ عوام کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ انکے والد یعنی میاں نواز شریف کیساتھ بے انصافی ہوئی ہے۔ اور یہ کہ انکے والد پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ وہ عوام کو ترغیب دے رہی ہیں کہ ووٹ کا تقدس بحال کریں اور محترمہ کلثوم نواز کوکامیاب کروا کرعوام ا پنے ووٹ کی بے حرمتی کا انتقام لیں۔
یقینی طور پرعید الاضحی کے بعد دونوں جماعتوں کی انتخابی مہم اپنے عروج پر ہو گی۔ یوں بھی یہ الیکشن بے حد اہم ہے۔ یہ محض قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کا معاملہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کیلئے یہ انتخاب جیتنا اسلئے ضروری ہے کہ وہ عوام میں اپنے موقف کی قبولیت اور مقبولیت کو ثابت کر سکیں۔ تحریک انصاف کی جیت کا مطلب یہ ہو گا کہ عوام نے عمران خان کی طرف سے شریف خاندان پر عائد کیے گئے الزامات کو پذیرائی بخشی ہے۔ جبکہ شکست کا مفہوم یہ ہو گا کہ عوام نے عمران خان کے موقف اور الزامات کو رد کر دیا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کا موقف ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ قانون و انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ اسکا دعویٰ ہے کہ عوام نے میاں نواز شریف کیخلاف عدالتی فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ NA-120 کے نتائج مسلم لیگ (ن) کے اس دعوے کو درست یا غلط ثابت کرنے کا سنہری موقع ثابت ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی جیت ظاہر کرے گی کہ عوام اس جماعت کی طرز حکمرانی سے مطمئن ہیں ۔ اس جیت کا مفہوم یہ بھی ہے کہ عوام نے عدالتی فیصلہ قبول نہیں کیا۔یہ انتخاب مریم نواز شریف کی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہے۔ اگرچہ وہ انتخابات 2013 کی میڈیا کمپین کے تناظر میں متحرک رہیں ۔ اسکے علاوہ حکومتی میڈیا کمپین کے معاملات بھی دیکھتی رہیں۔ مگر پارٹی کارکنان کی سطح پر آکر معاملات دیکھنا اورعوام میں جا کر ووٹ طلب کرناا نکے لئے ایک مختلف تجربہ ہو گا۔ فی الحال تو وہ کامیابی سے مختلف سرگرمیاں کر رہی ہیں۔ تاہم اصل کامیابی اپنی والدہ کو کامیاب کروانا ہو گا۔ انکے لئے اصل چیلنج یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)2013 کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کر ے۔
پیپلز پارٹی نے بھی اپنے امیدوار فیصل میر کو نہ صرف نامزد کیا ہے بلکہ انہیں بلاول بھٹو کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کس بنیاد پر عوام سے ووٹ طلب کرے گی۔ اسکا سیاسی اور حکومتی نامہ اعمال کسی بھی کارنامے سے خالی نظر آتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی اس حلقے سے صرف دو ہزار ووٹ حاصل کر پائی تھی۔ اس صورتحال میں کہیں بہتر تھا کہ اپوزیشن جماعتیں ، اپنا مشترکہ امیدوار لاتیں اور مل کر مسلم لیگ(ن) کا مقابلہ کرتیں ۔ تاہم اپوزیشن اس حوالے سے اتفاق رائے قائم کرنے میں ناکام رہی۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی جو خیبر پختونخوامیں تحریک انصاف کی اتحادی ہے،اس نے بھی ڈاکٹر یاسمین راشد کی حمایت کے بجائے اپنا امیدوار نامزد کرنے کو ترجیح دی۔حلقے کی انتخابی تاریخ کے تناظر میں،مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔تاہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انتخابی نتائج بھی کرکٹ میچ کی طرح ہوتے ہیں جہاں آخری وقت تک پانسہ پلٹنے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ لہذا کسی بھی پارٹی کی جیت کی حتمی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس حلقے کے انتخابی نتائج سیاسی منظرنامے پر اثرانداز ہونگے۔ یہ نتائج کسی حد تک انتخابات 2018 کے انتخابی نتائج کے بھی عکاس ہوں گے۔

 

.

تازہ ترین