• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ٹرمپ نے جب شمالی کوریا کو کھلی دھمکیاں دینا شروع کیں تو شمالی کوریا کے وزیر خارجہ نے انہیں’ کتے کے بھونکنے کی آوازوں‘ سے تشبیہ دی اور ساتھ ہی ایسی دھمکی دے دی جس نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ ا ن کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا بحر اوقیانوس (pacific ocean) کے اوپر ہائیڈروجن بم کا فضائی تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ سمندر امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان واقع ہے اور ہائیڈروجن بم کا فضائی تجربہ نیوکلئیر ٹیکنالوجی کی انتہائی جدید اور مہلک سطح کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ شمالی کوریا کے اس تجربے سے متعلق دو مزید خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اول، کہ یہ تجربہ اتنا خطرناک ہے کہ اگر شمالی کوریا کے حساب کتاب میں معمولی سی غلطی بھی رہ گئی اور یہ بم فضا میں غلط مقام پر پھٹ گیا تو امریکہ میں لاکھوں جانیں جا سکتی ہیں۔ دوم، اگر یہ تجربہ بغیر کسی غلطی کے درست طور پر بھی کر لیا گیا تو بھی نہ صرف سمندری ٹریفک شدید طریقے سے متاثر ہو سکتی ہے بلکہ اس کے اثرات سے امریکی ریاست ہوائی جو بحراوقیانوس میں واقع ہے، میں ہزاروں ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ یہ وہی ریاست ہے جس کے بحری اڈے پرل ہا ربر پر جاپانی حملے کے بعد امریکہ دوسری جنگ عظیم میں کودا تھا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، امریکہ نے اپنی ساحلی ریاست کیلیفورنیا جو شمالی کوریا کے میزائل حملے کی زد میں آ چکی ہے، میں تمام سرکاری اداروں میں ایٹمی حملے کے بعد کی ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔امریکی صدر اور شمالی کوریا کے وزیر خارجہ کے الفاظ کے چنائو اور دھمکیوں سے پوری دنیا اب ایک خوفناک ایٹمی جنگ کیلئے تیار بیٹھی ہے۔ اگلا سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا اس طرح کی جنگ محدود رہے گی یا چین اور بالآخر روس کی شمولیت سے تیسری عالمی جنگ میں تو نہیں بدل جائے گی؟ چین کی مستقبل کی کسی بھی جنگ میں سی پیک کے اسٹریٹجک سپلائی روٹ کی نمایاں اہمیت ہو گی جو نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کو چین کی جنگ میں دھکیل دے گی۔ پاکستان کیلئے بیرونی خطرات کا یہ پہلا منظر نامہ ہے۔دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت جس طریقے سے قریب آ رہے ہیں اور جس طریقے سے پاکستان کو دھمکا رہے ہیں، ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ پاکستان پر حملہ کر دیں، یا پھر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ تیسرا منظرنامہ یہ ہے کہ امریکہ کی خاموش حمایت سے بھارت اور افغانستان مل کر پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں حالات اسقدر خراب کردیں کہ خدانخواسطہ ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جائے۔
یقینا متعلقہ حلقے ہر طرح کے بیرونی خطرات سے آگاہ ہونگے اور ان سے نمٹنے کیلئے تیاری کر رہے ہونگے لیکن عمومی طور پر ملک میں عدم استحکام کی جو فضا قائم کر دی گئی ہے اس سے نہیں لگتا کہ خطرات کی سنگینی کا اس طرح ادراک موجود ہے جس طرح ہونا چاہئے۔ جنگی منصوبہ بندی کا ایک بنیادی تصور یہ ہے کہ وہ قومیں جو متحد نہ ہوں، جنگیں نہیں جیت سکتیں خواہ ان کی حربی صلاحیت کتنی ہی زیادہ مضبوط کیوں نہ ہو۔ اس وقت جبکہ پاکستان سنگین بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے، ہمیں یہ سوال خود سے پوچھنا چاہئے کہ کیا ہماری قوم اس وقت متحد ہے۔ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔ لسانی اور صوبائی مسائل کی وجہ سے قومی یکجہتی پہلے ہی چکنا چور ہے، اوپر سے ہم نے اپنے اوپر ایک مستقل سیاسی عدم استحکام کی کیفیت مسلط کر رکھی ہے۔
آمریت کا دور ہو تو اس کو عوام تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے، ٹوٹی پھوٹی جمہوریت آجائے تو آمریت کی باقیات سازشوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اس مسلسل اندرونی خلفشارکی حرارت جب آزادی صحافت، آزادی رائے اور عدلیہ کی آزادی تک پہنچنا شروع ہوتی ہے تو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جو کسی صورت ملکی مفاد اور قومی سلامتی کیلئے اچھے نہیں ہوتے۔ نتیجتاً عوام کے اندر ایک بے چینی جنم لیتی ہے اور اس کا اداروں پر اعتماد کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اداروں کی آپس کی کھینچا تانی دفتروں اور حلقہ ہائے اثر سے باہر آ کر عوامی سطح پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا روپ دھار لیتی ہے جس سے نہ صرف ریاست کیلئے عوامی حمایت میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ اس کے عوام کے مورال پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قومی یکجہتی اور اتحاد جب اس نہج پر پہنچتا ہے تو پھر دشمن ممالک کی چاندی ہو جاتی ہے، وہ بیرونی محاذ پر تو ملک و قوم کو کمزور کر ہی رہے ہوتے ہیں اب وہ اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اندرونی طور پر بھی مختلف محاذ کھول دیتے ہیں۔ ہمیں سچے دل کے ساتھ خود سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا ہمارے ساتھ اس وقت یہی نہیں ہو رہا؟
پاکستان جمہوری جدوجہد کے ذریعے وجود میں آیا تھا اور جمہوریت پر متفقہ آئین کی شکل میں قومی اتفاقِ رائے موجود ہے۔ پاکستانی قوم کو صرف جمہوریت ہی متحد کر سکتی ہے۔ صرف جمہوری طور پر منتخب حکومتیں ہی قیادت کا فریضہ درست طریقے سے انجام دے سکتی ہیں۔ کسی کو خواہ کتنا ہی برا لگے لیکن سنگین بیرونی خطرات کی موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ ن کی حکومت اور نواز شریف کی قیادت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔ سو تمام اداروں اور حلقوں کو اگلے انتخابات تک مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی قیادت کو سچے دل سے تسلیم کرتے ہوئے خود کو اپنے آئینی کردار تک محدود رکھنا چاہئے اور اپنی تمام تر توانائیاں اپنے اپنے شعبے کے چیلنجز سے نمٹنے پر صرف کر نی چاہئیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہر کسی کو اگلے انتخابات کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے کوششیں کرنا ہونگی اور عوامی مینڈیٹ والی حکومت کو سچے دل سے تسلیم کرنا ہوگا۔ بیرونی خطرات پر تو شاید ہمارا اتنا کنٹرول نہ ہو لیکن کم از کم اندرونی محاذ پر خود ساختہ خطرات تو کم کئے جا سکتے ہیں۔

تازہ ترین