• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
پاکستان سرزمین تسبیح ہے، یہ جب تک زیادہ سے زیادہ ہری رہی یہاں امن اور برکت بھی عام رہی، کہ ہر ہرا پتہ تسبیح خالق کائنات کرتا ہے، اور جب اس قابل نہیں رہتا، درخت ہو، فصل ہو یا کوئی پودا اپنے بدن پر اسے باقی نہیں رہنے دیتا، یہاں تک کہ قبروں پر اگنے والا سبزہ بھی تسبیح کرتا اور صاحب قبر کو اس کا ثواب پہنچتا ہے، جن ملکوں نے ہریالی کی پروا نہ کی بیماریوں کا گڑھ بن گئے، مشینوں کی آلودگی کا علاج بھی سبزہ ہے، اور سبزے کی بڑی وسیع رینج ہے، ننھے منے پودوں سے بلند قامت درختوں تک ایک نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے فوائد کا آج سب کو علم ہے، یہ امر تشویشناک ہے کہ ہم نے یہ نہ سوچا کہ ہر قصبے کو گائوں کو روزگار تعلیم صنعت و حرفت کے حوالے سے اتنا ہی دلکش بنا دیں جتنے وہ شہر کہ جن کی طرف لوگ اٹھ اٹھ کر نقل مکانی کر رہے ہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ ہر بڑے شہر پر ملک کا گمان گزرتا ہے، ٹائون پلاننگ کا محکمہ ہے پلاننگ نہیں ہم لاہور ہی کو دیکھیں کہ جو بھی ہجرت کرتا ہے اسی کا رخ کرتا ہے، یہی حال تمام بڑے شہروں کا ہے، اور آج یہ حالت ہو گئی کہ درختوں کی جگہ بھی انسانوں نے ان سے چھین لی، شجر سایہ دار شاعری ہی میں رہ گیا، اور ہم پر آفات و بلیات کا سایہ قائم ہو گیا، آکسیجن کے قدرتی کارخانے بند ہو گئے، ہم نے دیکھا ہے دیواروں کی درزوں سے کوئی پودا باہر کو جھانکتا ہے اور دہائی دیتا ہے کہ ہم تسبیح خوانوں کو تم نے دیواروں میں چن دیا، اور اپنی تاریخ میں یہ جھوٹا واقعہ درج کر دیا کہ اکبر نے انار کلی کو دیوار میں چنوا دیا تھا جبکہ معاصر تاریخ نگار ’’ملا بدایونی‘‘ نے ’’منتخب التواریخ‘‘ میں اس واقعے کو سراسر جھوٹ اور من گھڑت قرار دیا، چاہئے تھا کہ ہر چھوٹی بڑی آبادی میںتیسرا حصہ اراضی زراعت اور ایک حصہ رہائش کے لئے مختص کرتے تو آج اس زرعی ملک میں ٹماٹر 300روپے کلو تک نہ پہنچتے، سبزیات و ثمرات کی کمی نہ ہوتی، اناج عام ہوتا اور زرعی پیداوار پر توجہ دی جاتی کسان کو اَن داتا سمجھا جاتا تو پاکستان زرعی برآمدات کا سب سے بڑا ملک ہوتا۔
٭٭٭٭
کیا عشق سکھاتا ہے عادات بہیمانہ؟
عشق میں کامیابی ناکامی نہیں ہوا کرتی، عشق اس نوع کی آلائشوں سے پاک ہوتا ہے،
ہوس نے حسن پرستی کا لبادہ کیا اوڑھا
کہ ایک وڈیرے نے جبین حسن پر گولی داغی
اب یہ ایک چھیل چھبیلا جھلاوا عاشق ناکامیٔ عشق میں قوم کی ہر بیٹی کے بدن سے لہو نکالتا اور ہوا ہو جاتا ہے سندھ پولیس ابھی تک اس کی گرد کو نہ پہنچ سکی، اب تو محرم الحرام کا یوم عاشور امن و امان سے گزر گیا، کراچی کی پولیس فارغ ہے، اس چھلاوے کو بیڑی نہیں پہنا سکتی تو اپنی انگلی میں چھلا پہن لے، تاکہ ہم کہنے والے بنیں کہ؎
بڑی مستانی ہے میرے سندھ کی پولیس
اس کی ناکام ادائوں پر خندہ زن حیرانی ہے
نوٹوں کی دیوانی ہے میرے سندھ کی پولیس
یہ بھی عشق ہے کہ کسی بھی حسین کو ایک نظر دیکھا اور راستہ روک کر اسے اطلاع کر دی؎
اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمین پہ اتارا گیا ہے میرے لئے
اب اگر حسینہ انکار کر دے تو جیب میں پڑا پستول ہاتھ میں اور آسمان سے اتری اپسرا کو زمین میں اتار دیا، یہ عشق نہیں فسق ہے، ایک زمانہ تھا کہ عشق سکھاتا تھا آداب خداگاہی، میرؔ نے ایک پردہ نشین سے پردہ نشیں عشق کیا تھا۔ دولت کی دیوار بیچ میں آ گئی اور وہ چپ ہو گئے مگر غزل گویا ہو گئی؎
دور بیٹھا غبار میرؔ اُس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
ان فساق عشاق کو پولیس اپنے ڈرائنگ روم میں آداب عشق سکھائے ورنہ.... ورنہ کچھ نہیں!
٭٭٭٭
پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل
انسان تو خود مٹی کا تیل ہے، جو خود پٹرول ڈیزل بھی درحقیقت مٹی کا تیل ہے پھر یہ آئے دن تیل کے نرخ کی گرانی کیا انسانی تیل ہے، کہ حکمران کشید کرتے کرتے کشیدہ قامت ہو گئے مگر تیل کے نرخ پست نہیں ہوتے، یہ جانتے ہوئے کہ تیل مہنگا ہو گا تو تمام بازار کے نرخوں کو آگ لگ جائے گی پھر کیوں یہ مفلس کا چراغ بار بار بجھایا جاتا ہے، اب تو اس کے پاس ماچس کیا قفس کی تیلیاں بھی باقی نہیں رہیں، اس بات پر تو امراء کا اشرافیہ کا نہیں مساکین قوم کا اجماع ہے کہ جتنی مہنگائی موجودہ دور حکومت میں ہوئی وہ پہلے کبھی خود اس پارٹی کی اپنی حکومتوں میں بھی نظر نہیں آئی، جب بھی رخسار مفلس پر بہار آئی؎
آواز دی خزاں نے کہ تو بھی نظر میں ہے
نام خدا! اب تو رفت رفت ہے سخت سخت سے تائب ہوں اور کچھ نرمی کچھ ملائمت لائیں عام آدمی کے بنجر چہرے پر، اب تو مزید تہہ نہ چڑھائیں دہرے تہرے پر ، مہنگائی تنگ دستی تو عبادات میں خضوع خشوع نہیں آنے دیتی، اب پٹرولیم مصنوعات کی مزید در مزید گرانی سے پھر سے ہر چیز کے نرخ بڑھیں گے، دکاندار تو تیل کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اپنے نرخ بڑھا دیں گے مزدور، ملازم اپنے معاوضے کیونکر بڑھا پائے گا؟ اب جاتے جاتے گھروں کے خالی برتن تو نہ توڑیں، عوام کو کس عیب کی سزا مل رہی ہے؟ عوام نے تو اندھا دھند ووٹ دیئے، اپنی بہتری کے لئے، اگر گھر کا چولہا ہی ٹھنڈا پڑ جائے تو میٹرو سروس چلائیں یا ایئر سروس اس سے روٹی تو پوری نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭
ہم پیشہ و ہم مشرب
....Oدوروں میں شاہانہ اخراجات پر امریکی وزیر صحت مستعفی، معافی مانگ لی۔
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز نہیں میرا
ٹرمپ کو بُرا کیوں کہو اچھا مرے آگے
....Oفرحت اللہ بابر:کالعدم تنظیموں کو خفیہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے، توجہ دلائو نوٹس جمع۔
اب تو رات بھی خفیہ نہیں دن کیسے خفیہ ہو گیا؟
....Oمصدق ملک:ڈار استعفیٰ کیوں دیں؟
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی!

تازہ ترین