دلیلیں اور تاویلیں اپنی جگہ، حقیقت اولیٰ یہی ہے کہ سید زادہ ملتان کے صاحبزادہ ذی شان، سید عبدالقادر گیلانی انتخاب جیت گئے ہیں۔ جس طرح کسی اہم کرکٹ میچ میں فتح کے بعد بھلا دیا جاتا ہے کہ حریف ٹیم کی کارکردگی کتنی شاندار رہی یا خود فاتح ٹیم نے کتنے کیچ ڈراپ کئے یا کامیابی محض ایک دو رنز سے ہوئی۔ اسی طرح کسی انتخابی معرکے میں فتح، ساری کہانیوں کو پس منظر میں دھکیل دیتی اور خود دلہن کی طرح بن سنور کر آراستہ پیراستہ اسٹیج پر آبیٹھتی ہے۔ سو رسم دنیا، موقع اور دستور کے عین مطابق چھوٹے اور بڑے، دونوں سید زادگان کو خلوص دل سے مبارک باد پیش کی جانی چاہیے، اور پیپلزپارٹی کو بھی۔
لیکن جس طرح ٹیم کی جیت یا ہار، دونوں صورتوں میں غور و فکر کے کئی دریچے کھل جاتے ہیں اور تبصروں اور تجزیوں کا ایک جہان تازہ آباد ہوجاتا ہے، اسی طرح ملتان کا انتخابی معرکہ بھی کم از کم کچھ عرصے کے لئے ضرور موضوع بحث بنا رہے گا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اگلے عام انتخابات دہلیز سے لگے کھڑے ہیں اور نئے سیاسی موسموں کے زائچے بنانے والوں کے لئے یہ معرکہ خاصا سامان فکر فراہم کرتا ہے۔
روایتی طور پر ملتان کا یہ حلقہ گیلانیوں کا مضبوط قلعہ رہا ہے۔ گاہے گاہے بوسن اس قلعے میں شگاف بھی ڈالتے رہے ہیں۔ انتخابی حریفوں کی یہ کشمکش طویل تاریخ رکھتی ہے۔ 1988ء، 1990ء اور 1993ء کے انتخابات میں یوسف رضاگیلانی فاتح قرار پائے۔ سکندر حیات بوسن کو یوسف رضاگیلانی سے براہ راست مقابلے میں واحد فتح 1997ء میں ملی۔ تب سکندر بوسن مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ اور شیر کے نشان پر انتخاب لڑے تھے۔ اس یادگار معرکے میں سکندر بوسن نے یوسف رضا گیلانی کو 23 ہزار ووٹوں کی برتری سے ہرادیا تھا۔2002ء میں یوسف رضاگیلانی جیل میں تھے۔ سکندر بوسن مسلم لیگ(ن) کے خیمہٴ بے رنگ سے ہجرت کرکے مسلم لیگ (ق) کی بارگاہ ناز میں جاچکے تھے۔ جنرل مشرف کی قیادت میں ساری ریاستی مشینری اُن کی پُشت پر تھی۔ یوسف رضا گیلانی کے بھائی سید احمد مجتبیٰ گیلانی تقریباً ساڑھے تین ہزار ووٹوں کے فرق کے ساتھ سکندر حیات بوسن سے ہار گئے۔ 2008ء میں مشرف کا سورج گہنا چکا تھا اور مسلم لیگ (ق) بیوگی کے آشوب سے دوچار تھی۔ اس بارسکندر حیات بوسن کے 45765 کے مقابلے میں یوسف رضا گیلانی 77664 ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے۔ مسلم لیگ(ن) صرف 18413 ووٹ لے پائی۔
تازہ معرکہ ملتان پر نگاہ ڈالی جائے تو گیلانی صاحب کا ووٹ بینک زوال پذیر ہے۔ وہ چار سال سے زائد عرصے تک وزیر اعظم رہے۔ انہوں نے دستور کو نظر انداز کرتے اور قومی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سرائیکی صوبے کا نعرہ لگایا۔ پورے جنوبی پنجاب کے لئے مختص فنڈز کا رُخ ملتان میں اپنے حلقے کی طرف موڑ دیا۔ کاغذی طور پر اس رقم کا حجم پچاس ارب روپے بنتا ہے۔ انہوں نے ہزاروں افراد کے لئے نوکریوں کے دروازے کھولے۔ اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے صرف ساڑھے چار برس پہلے جس حریف کو 33 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی، ان کا صاحبزادہ، اس حریف کے غیر معروف بھائی پر صرف پونے چار ہزار ووٹوں کی سبقت لے سکا جس کے پاس کسی جماعت کا باضابطہ ٹکٹ بھی نہ تھا۔ بظاہر مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف، شوکت بوسن کی ہم نوائی کررہی تھیں لیکن عملاً کسی سیاسی جماعت کے کسی قائد نے حلقے کا دورہ کیا نہ کھل کر انتخابی مہم چلائی۔ شوکت بوسن نے فی الحقیقت ایک آزاد امیداور کی حیثیت سے الیکشن لڑا۔ مسلم لیگ(ن) نے ووٹوں کی تقسیم سے بچنے کے لئے اپنا امیدوار ضرور قربان کردیا او رشوکت بوسن کی کھلی حمایت کا اعلان بھی کیا لیکن اس کی دوسری یا تیسری صف کا کوئی رہنما بھی حلقے میں جاکر انتخابی مہم کا حصہ نہ بنا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماؤں سے اس طرح کی توقع نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ ویسے بھی وہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف احتجاج میں مصروف تھے۔
یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر سکندر بوسن نہ سہی، شوکت بوسن ہی کے پاس تحریک انصاف کا ٹکٹ ہوتا اور مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی کے زعما ایک ساتھ انتخابی جلسوں میں رونق افروز ہوتے تو منظرنامہ مختلف ہوتا۔ اگر سکندر بوسن، مسلم لیگ (ن) کی پیش کش قبول کرتے ہوئے اپنے بھائی کو شیر کے نشان پر انتخاب لڑنے دیتے تو بھی چھوٹے گیلانی کے لئے یہ معرکہ سر کرنا ممکن نہ رہتا۔ جب ایسی ہر کوشش، تحریک انصاف کی قیادت نے رد کردی تو مسلم لیگ(ن) شاید ہی کچھ کرسکتی تھی جو اُس نے کیا۔ بیگانی شادی میں خود پر دیوانگی طاری کرلینا، اہل سیاست کا شیوہ کم ہی رہا ہے۔
مضحکہ خیزی کی حد تک دلچسپ کردار ”سونامی بدست“ اور ”انقلاب بہ داماں“ تحریک انصاف کا رہا جس نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ تمام تر دعوؤں کے برعکس، وہ بھی متعفن ”اسٹیٹ کو“ کی آلائشوں میں لت پت ایک پارٹی ہے جس کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور۔ اُس نے اپنی پالیسی کے تحت ملتان کے ضمنی انتخابات کا بھی بائیکاٹ کردیا۔ ساتھ ہی ”اسٹیٹس کو“ برادری اور اقربا پروری کی فرسودہ سیاسی حکمت عملی کے تحت سکندر بوسن کو اجازت دے دی کہ وہ اپنی بھائی شوکت بوسن کو انتخابی اکھاڑے میں اتار دیں۔ یہ حکم بھی صادر ہوا کہ وہ کسی طور مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ نہ لے۔ تحریک انصاف کا سرکردہ رکن ہوتے ہوئے سکندر بوسن نے (پارٹی کی اعلان کردہ پالیسی کے برعکس) ایک بھر پور انتخابی مہم کی قیادت کی،جلسوں سے خطاب کیا لیکن انقلابی قیادت نے منہ دوسری طرف پھیرلیا۔ خان صاحب یا پارٹی کے کسی لیڈر نے ملتان جاکر عوام سے اپیل کیوں نہ کی کہ وہ تحریک انصاف کا ساتھ دیتے ہوئے الیکشن کا بائیکات کردیں اور کسی طور پولنگ اسٹیشنوں کا رُخ نہ کریں۔ اس سارے عرصے میں ”بائیکاٹ“ کی تلقین کا کوئی ایک رسمی اخباری بیان تک کیوں جاری نہ کیا؟ کیوں نہیں بتایاجارہا کہ پارٹی پالیسی کی کھلی خلاف ورزی کرنے والے سکندر بوسن کے خلاف کیا انضباطی کارروائی ہورہی ہے؟ ”اسٹیٹس کو“ اس کے سوا کیا ہے کہ سیاسی کلچر‘ منافقت اور دوغلے پن کی زنجیروں میں جکڑا رہے۔ اسی طرح کے امتحان جماعتوں اور قیادتوں کے کھرے پن کی کسوٹی ہوتے ہیں۔ محض دوسروں کو الزام و دشنام دینے سے کوئی سونامی ابھرتا نہ کوئی انقلاب انگڑائی لیتاہے۔
میں نے کچھ ہی دن پہلے اپنے کالم میں کہا تھا کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ سیاسی مخالفین کے ووٹوں کی تقسیم سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ معرکہ ملتان نے اس تصور پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ تین سیاسی جماعتوں نے نیم دلی کے ساتھ ووٹوں کی تقسیم کا دروازہ تو بند کردیا لیکن وہ نہ تو بھر پور یکجہتی کا مظاہرہ کرپائیں نہ فتح کے عزم کے ساتھ اپنے ووٹروں کے دلوں میں جوش وخروش پیدا کیا۔ تصور کیجئے کہ جب اگلے انتخابات میں تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور ایک دو دوسری جماعتوں کے امیدوار پیپلزپارٹی کے کسی ”گیلانی“ کے مدمقابل ہوں گے تو صورت حاصل کیا ہوگی؟ کیا معاملہ یہ نشست طشتری میں سجا کر پی پی پی کو پیش کردینے والا نہیں ہوگا؟ یہی صورت حال متعدد دوسرے حلقوں میں بھی ہوگی۔ زمینی حقائق کو جذباتیت کی آنکھ سے دیکھنے والے خواب فروشوں کو چاہئے کہ وہ معرکہ ملتان کی روشنی میں آئندہ انتخابی نتائج کا زائچہ مرتب کریں اور عشق ومستی کی سرشاری سے نکل کر دلیل کی زبان میں سمجھائیں کہ کیا تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی وغیرہ کی تنہا پروازی، پیپلزپارٹی کیلئے نعمت ثابت نہیں ہوگی؟
پچھلے دنوں آئی آر آئی کے ایک سروے کا بڑا چرچا رہا۔ (اس کی پوری کہانی کسی دن سناؤں گا) اس سروے کی مطابق پیپلزپارٹی کی مقبولیت قومی سطح پر صرف 16 فی صد رہ گئی ہے۔ میں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں بھی کہا تھا اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ یہ محض فریب نظر ہے زرداری صاحب سے نالاں اور حکومتی کارکردگی سے بیزار ہونے کے باوجود پی پی پی کا سخت جاں ووٹ ابھی تحلیل نہیں ہوا۔ سو پی پی پی کو ایک جوئے کم آب اور سونامی کو بحربے کراں سمجھ لینے والے خواب فروش، خوابوں کے برق رفتار گھوڑوں کی باگیں اتنی بھی ڈھیلی نہ چھوڑیں۔ تحریک انصاف، تھوڑے سے عرصے میں ہی، فرسودہ سیاسی اسٹیٹس کو کے روایتی حمام کا حصہ بن چکی ہے۔ وہ ایسی بھی پاکباز و پاک داماں نہیں رہی کہ کسی دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کے دامان عصمت پہ داغ آتا ہو۔ معرکہٴ ملتان کا پیغام واضح ہے بشرطیکہ آنکھوں پہ پردے نہ پڑگئے ہوں اور کان بہرے نہ ہوگئے ہوں۔