• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس شفاف تحقیقات کرے تو عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ نہ ہو، سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قتل کے دو مقدمات میں بارہ سال قید رکھے جانے والے دوملزمان کو اپنی سربراہی میں سماعت کرنے والی تین رکنی بنچ کی جانب سے شک کی بنیاد پر بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے ان ریمارکس کے ذریعے ہمارے نظام انصاف کی اس بنیادی خرابی کی بالکل درست نشان دہی کی ہے جو ملک کی ہر سطح کی عدالتوں کے بیشتر مسائل کا اصل سبب ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ اگر پولیس شفاف تحقیقات کرے تو عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ باقی نہ رہے۔فاضل جج نے مسئلے کی وضاحت ان الفاظ میں کی کہ ٹرائل کورٹ ملزم کو عمر قید کی سزا دے تو وہ بریت کا کیس ہوتا ہے مگرکورٹ میں ملزم کو بری کرنے کی ہمت نہیں ہوتی جبکہ کئی مقدمات میں جھوٹے گواہوں کی وجہ سے اصل ملزم بری ہوجاتے ہیں اور الزام عدالتوں پر آتا ہے۔ ملک کے قیام کو سات دہائیاں گزرجانے کے باوجود ہمارے نظام تفتیش کا اس قدر ناقص ہونا جس کی وجہ سے عدالتیں حقیقی انصاف سے قاصر رہتی ہیں ،مجرم جھوٹے گواہوں کے باعث چھوٹ جاتے ہیں اور بے گناہ برسوں جیلوں میں سڑتے رہتے بلکہ بعض اوقات پھانسی کے پھندے تک پہنچ جاتے ہیں،یقیناًانتہائی تشویشناک اور توجہ طلب معاملہ ہے۔ ہمارے تفتیشی ادارے عموماً جرائم کے ٹھوس شواہد حاصل کرنے کے بجائے ملزمان کو ڈرا دھمکا اور مارپیٹ کر اقبال جرم پر مجبور کرتے ہیں اور عدالتوں میں جھوٹے گواہ پیش کرتے ہیں۔ یہ طریقے جب تک بدلے نہیں جاتے کسی بھی مظلوم کے لیے انصاف کا حصول مشکل رہے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جھوٹے گواہ پیش کرنے اور جھوٹی گواہی دینے کو ناقابل معافی جرم قرار دیا جائے ، نظام انصاف کو بے اعتبار بنانے والے اس جرم کے لیے سخت ترین سزا مقرر کی جائے اور نظام تفتیش کو سائنٹفک بنیادوں پر استوار کیا جائے تاکہ ملک میں عدل کا قیام یقینی بنایا جاسکے جس کے بغیر معاشرے قائم نہیں رہ سکتے۔

تازہ ترین