• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں پولیس طاقتور ادارہ نہیں ہے ۔ طاقت فوج، عدلیہ ، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے پاس ہے ۔ پولیس اہل کاروں کو ریاست میں سب سے زیادہ توہین کا نشانہ بنا یا جاتا ہے ۔ صرف یہی نہیں، وہ آسانی سے قربانی کے بکرے بھی بن جاتے ہیں۔ اس قربانی کی بہت سی مثالیں ہیں۔ تازہ ترین مثال بے نظیر بھٹو قتل کیس میں دو پولیس افسران کو ملنے والی سزا ہے ۔
اپیل پر فیصلے کو التوا میں رکھتے ہوئے ، لاہور ہائی کورٹ نے اُن افسران کی سزا کو معطل کردیا ہے (یہ سزا اُنہیں پی پی سی کے سیکشنز 119 اور 201 کے تحت سرزد ہونے والے جرم کے اصل ارادے کو چھپانے، جسے محفوظ رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے، اورشہادت کو غائب کرنے کی پاداش میں سنائی گئی )۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا عزم کیا ہے ۔ پی پی پی اتنا شور کیوں مچا رہی ہے؟ جب وہ اقتدار میں تھی تو اس نے اس کیس میں کوئی دلچسپی نہ لی ۔اس وقت جب ہم الیکشن کے سال میں داخل ہونے جارہے ہیں، شاید پی پی پی کے لئے مناسب موقع ہے کہ وہ ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے ووٹروں کے جذبات ابھارنے کی کوشش کرے ۔
محترمہ کی افسوس ناک موت کے حوالے سے چند ایک باتیں دہراتے رہنے کی ضرورت ہے ۔ پہلی یہ کہ پولیس کو قتل کے ایک گھنٹہ اور چالیس منٹ بعد جائے وقوعہ کو دھوڈالنے کا حکم دیا گیا۔ دوسری یہ کہ پولیس نے پوسٹ مارٹم کا حکم نہ دیا، چنانچہ بی بی کی موت کی اصل وجہ کا تعین نہ ہوسکا۔تیسری یہ کہ لیاقت باغ میں ڈیوٹی پر معمور پولیس کو اسلام آباد ہائی وے کی طرف بھیج دیا گیا تھا جہاں نواز شریف کے قافلے پر فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا تھا ۔ اگر ان تینوں واقعات کو یکجا کیا جائے تو پولیس افسران ہی قتل کے معاونین اور پردہ پوش ثابت ہوتے ہیں۔ آئیے ان کا الگ الگ تجزیہ کرکے دیکھتے ہیں۔
جائے وقوعہ کو دھوڈالنے( تمام جگہ کو نہیں صرف ان مقامات کو دھویا گیا تھا جہاں مقتولہ اور خودکش بمبار کا خون تھا) کے معاملے کو اجاگر کرتے ہوکہا جاتا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے قاتلوں کی شناخت کا تعین کرنے والی اہم شہادت کو جان بوجھ کر ضائع کردیا گیا ۔ چنانچہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر آپ جگہ کو دھونے کا حکم دینے والے تک پہنچ جائیں تو آپ اس سازش کو بے نقاب کرسکتے ہیں۔ سزا کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا ۔۔۔’’اگر پولیس نے جائے وقوعہ سے 28شہادتیں اکٹھی کرلی تھیںتو دھونے سے کس قسم کی شہادت ضائع ہوئی ؟‘‘ دستیاب ریکارڈ سے ہم جانتے ہیں کہ جائے وقوعہ سے خود کش حملہ آور کے جسم کے اعضا ، چہرے کے نقوش اور گن مل گئی تھی (اس کے علاوہ دیگر ہلاک شدگان کے جسمانی اعضا ، خون اور دیگر اشیابھی ملی تھیں)۔ اکٹھی کی جانے والی شہادت سے خودکش بمبار کے چہرے کے نقوش کو واضح کرنا ممکن تھا۔
خود کش حملہ آور کی گن پر موجود خون کا ڈی این اے اس کے ڈی این اےسے مل گیا تھا، اور چلائی گئی گولیوں کے خول اسی گن سے میچ ہوگئے تھے ۔ خود کش حملہ آور کا ڈی این اے راولپنڈی کے ایک گھر سے ملنے والی اشیا سے بھی میچ ہوگیا۔ اور یہ گھر اس کے سہولت کار کا تھا۔ اس کے سہولت کاروں، معاونین اور شریک جرم افراد نے اعترافی بیانات ریکارڈ کرائے تھے ، اور اس کی کہانی کی فون کالز اور جیوفنسنگ نے بھی تصدیق کی تھی لیکن اُنہیں عدالت نے بری کردیا ۔
پی پی پی کے وزیر ِ داخلہ، رحمان ملک ، جو اُس وقت محترمہ کی سیکورٹی پر معمور تھے ، نے عدالتی فیصلے کے بعد ایک مضمون لکھا جو’ ’دی نیوز ‘‘ میں سات ستمبر کو شائع ہوا۔ مسٹر ملک لکھتے ہیں۔۔۔’’ بیت اﷲ محسود نے اپنے آدمیوں اور مقامی طور پرپی پی پی مخالف عناصر کے تعاون سے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا ۔ بیت اﷲ محسود نے بی بی کو مارنےکا دعویٰ کیا تھا ۔ پولیس نے ملزم حسین گل اور محمد رفاقت کو پانچ جنوری 2008 ء کو گرفتار کیا تھا ۔ اُنھوںنے سیکشن 164CrPCکے تحت ایک مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیانات ریکارڈ کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اُنھوں نے ملزم نصراﷲ اور دو خود کش حملہ آوروں ، بلال اور اکرام اﷲ کوچھبیس دسمبر 2007 ء کو راولپنڈی کے بس ٹرمینل سے لیا اور اُنہیں ملزم رفاقت کے گھر پناہ دی۔ محترمہ کو جان سےمارنے کے لئے اُس نے دونوں خود کش حملہ آوروں کو ستائیس دسمبر 2007 ء کو لیاقت باغ پہنچا دیا۔ موبائل فون گرافک فورنسک نے ان تمام واقعات کی تصدیق کردی۔ فون کالز کے ریکارڈ کا تجزیہ اس اعترافی بیان سے مطابقت رکھتا تھا۔‘‘
اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم بھی فروری 2008 ء کی تحقیقات سے یہی نتیجہ نکالتی ہے ۔ اس کی رپورٹ کے مطابق۔۔۔’’تمام دستیاب شہادتیں اس شخص کی طرف اشارہ کرتی ہیں جس نے ہلاک شدہ فرد کی طرف فائرنگ کی ، اور یہ وہی شخص تھا جس نے بعد میں خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ صرف ایک شخص کے جسمانی اعضا کی شناخت ہوپائی ۔ میڈیا فوٹیج کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ گن مین بے نظیر کی گاڑی کے عقب میں موجود تھا ۔ وہ دھماکے سے فوراً پہلے نیچے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ فوٹیج سے کسی اور ممکنہ خود کش بمبار کا پتہ نہیں چلتا ۔ اس کا مطلب ہے کہ مس بھٹو کی گاڑی کے قریب کوئی اور خود کش بمبار موجود نہیں تھا۔‘‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے شہادت اکٹھی کرنے کے طریق کار پر تنقید ضرور کی تھی لیکن یہ بھی تصدیق کی کہ ’’دستیاب شہادت نتیجہ نکالنے کے لئے کافی ہے۔‘‘ قاتل، اُس کے معاونین اور سہولت کاروں کی شناخت میں کوئی ابہام باقی نہ تھا۔تو پھر جائے وقوعہ سے مزید کیا برآمد کرنا تھا؟
اچھالا جانے والا دوسرا ایشو پوسٹ مارٹم نہ کرنا ہے ۔ استغاثہ کا کیس یہ تھا کہ مس بھٹو کی موت کی وجہ سر پر آنے والی چوٹ تھی ، جو شاید گاڑی کی چھت کا ہینڈل تھا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے اپنی رپورٹ میں برطانیہ کے ہوم آف کے پتھالوجسٹ، ڈاکٹر نتھنل کیرے کی تحقیقات کو شامل کیا، جو کہتے ہیں۔۔۔’’ سر پر لگنے والی چوٹ کے نتیجے میں موت اُسی صورت میں ہوسکتی ہے جب یہ چوٹ بم دھماکے کے نتیجے میں لگی ہو۔ میری رائے میں محترمہ بے نظیر بھٹو سر پر لگنے والی شدید چوٹ کی وجہ سے جاں بحق ہوئیں، اور ایسی چوٹ بم بلاسٹ کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ گاڑی کے ہینڈل سے ایسی چوٹ نہیں لگ سکتی ۔ ‘‘
اسکاٹ لینڈ یارڈ نے نتیجہ نکالا۔۔۔’’مس بھٹو کے سر کے زخم کی شدید نوعیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دروازے کے ہینڈل سے نہیں لگ سکتا۔ میڈیا فوٹیج کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ مس بھٹو کاسر دھماکے سے 0.6 سیکنڈپہلے تک گاڑی سے باہر تھا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ اُن کا سر دائیں جانب جھک گیا جب وہ گاڑی میں نیچے ہوئیں۔ تاہم ٹھیک دھماکے کے وقت اُن کے سر کی پوزیشن کا تعین ممکن نہیں۔ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ وہ دھماکے کے وقت اپنے سر کو نیچے کرنے میں کامیاب نہ ہوئیں۔ ‘‘
آصف زرداری کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ اُنھوں نے پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں دی تھی ۔ چنانچہ محترمہ کی موت کی اصل وجہ کاحتمی تعین نہ ہوسکا۔ آر جی ایچ میں اُن کے سر کے لئے گئے ایکس رے سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کے سر میں گولی کا کوئی نشان نہ تھا ۔ تاہم جب اس بات میں کوئی ابہام باقی نہیں کہ بی بی پر کس نے حملہ کیا ، تو پھر جائے وقوعہ پر خون کے نشانات دھونے یا نہ دھونے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ چنانچہ خون کو دھونا( جو کہ قانون کی رو سے ممنوع نہیں) اور پوسٹ مارٹم کی اجازت نہ دینا غیر اہم ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک تیسری وجہ کا تعلق ہے کہ بی بی کی حفاظت پر معمور پولیس دستے کو اسلام آباد ہائی وے پر پیش آنے والے فائرنگ کے واقعہ کی طرف کیوں بھیجا گیا تو ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ حملے کے وقت اُن کی گاڑی کے قریب باکس سیکورٹی موجود تھی ۔ جن ایس پی صاحب کو عدالت نے سزا سنائی ہے ، وہ حملے کے مقام سے چند میٹر کے فاصلے پر تھے ۔ یہ حملہ لیاقت باغ کے باہر ہوا جب محترمہ کی جیپ سڑک پر تھی اورجو پولیس موبائل اس حملے میں تباہ ہونے سے بچ گئی تھی وہ اُن کی گاڑی ، جب اسے اسپتال کی طرف لے جایا گیا، کے ساتھ ساتھ رہی ۔ اس صورت میں ایک اور اے ایس پی اور ان کی ٹیم ہوتے تو وہ کیا کرلیتے ؟
محترمہ کے قتل کے واقعات کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے والوں میں ایک وسیع تر اتقاق ِ رائے پایا جاتا ہے کہ یہ حملہ القاعدہ یا تحریک طالبان پاکستان کے کارکنوں نے بیت اﷲمحسود کی ہدایت پر کیا تھا ۔ رحمان ملک کا آرٹیکل بھی یہی موقف پیش کرتا ہے۔ حملے کے محرکات البتہ متنازع ہیں: کیا بیت اﷲ محسود نے کسی ذاتی دشمنی، یا ایک لبرل رہنما، یا خاتون سیاست دان کو اس لئے قتل کیا تھا کہ وہ انتہا پسندوں کے خلاف بولتی تھیں؟ یا پھر اُس نے کسی اور کے کہنے پر ایسا کیا تھا؟ چونکہ بیت اﷲ اور اس کے معاونین ڈرون حملوں میں مارے جاچکے ہیں، اس لئے ہمیں یہ بات کبھی معلوم نہیں ہوسکے گی۔
پولیس افسران کو صرف اس صورت میں مورد ِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے جب ہم یہ نتیجہ نکال لیںاُس وقت تک کوئی خود کش حملہ نہیں ہوسکتا جب تک سیکورٹی اُس کے ساتھ ملی ہوئی نہ ہو۔پاکستان بھر میں درجنوں خود کش حملوں میں ہزاروں شہری جاں بحق ہوئے ہیں لیکن اس منطق کا اطلاق ہم نے صرف اسی کیس میں کیا ہے، اور وہ بھی بہت کمزور بنیادوں پر۔

تازہ ترین