• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سال17اکتوبر کو دنیا بھر میں اکتوبر انقلاب کا صد سالہ جشن منایا جا رہا ہے۔جیسا کہ اٹھارہویں صدی میں انقلاب فرانس نے یورپین تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے اسی طرح اکتوبرانقلاب نے دنیا بھر میں متوسط طبقے کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ریاست اور لوگوں کے درمیان ازسرِ نو رشتوں کی تشکیل ہوئی اور یوں ریاست نے تعلیم ،صحت ،ٹرانسپورٹ اوررہائش جیسی بنیادی ضرورت کی ذمہ داریاں قبول کیں۔مارکس اور لینن کے ادوار میں تیسری دنیا کے ممالک نوآبادیاتی تسلط میں تھے۔
اس دوران مارکس نے 1857ء کی ہندوستان کی جنگ آزادی اور چین کے نوآبادیاتی استحصال پر مضامین لکھے ۔1917ء سے لیکر اپنی موت تک لینن تیسری دنیا کے حالات کے بارے میں مسلسل معلومات حاصل کرتے رہے۔1918ء کے بعد روس میں سنجیدہ کوششیں شروع ہو گئیںکہ تیسری دنیا کے ممالک کو کس طرح سائنسی بنیادوں پر ترقی دی جاسکتی ہے ۔سوویت اکیڈمی آف سائنس کی بنیاد رکھی گئی جس نے تیسری دنیا کے لوگوں کے مسائل اور انکے حل پر توجہ دی،صرف سوویت اسٹڈی آف انڈیا کے تحت دس ہزار کتابیں اور کالمز شائع کیے گئے۔ان کتابوں اور رسالوں میں شائع ہونے والا موادبھی اعلیٰ پیمانے کا تھا اور نو آبادیاتی ممالک کے دانشور ،سیاسی مفکرین ،سخت سنسر شپ ہونے کے باوجود ہر نئی فکر کیلئے روس کے منتظر رہتے تھے۔ 1920ء کی برطانوی انٹیلی جنس رپورٹ کے اس اقتباس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اکتوبر انقلاب کے ہندوستانی سماج پر کتنے گہرے اثرات مرتب ہو رہے تھے ’’اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ پچھلے کچھ مہینوں سے اخبارات اور رسالوں میں ایسے کالمز شائع ہورہے ہیں جس میں Bolshevismکے بارے میں بتایا جاتا ہے اور اب تو حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اگر کوئی پڑھا لکھا آدمی Bolshevismکا مطلب نہ بتا سکے تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے‘‘۔اس انقلاب کا اثر سیاسی کارکنوں اور دانشوروں پر اس قدر ہوا کہ بہت سارے لوگوں میں یہ تجسس ابھرا کہ انہیں خود جا کر روسی انقلابی تبدیلیاں دیکھنا چاہئیں جن میں کچھ نام عبیداللہ سندھی ،شوکت عثمانی اور رفیق احمد وغیرہ شامل تھے۔شوکت عثمانی اور ایس ایم مہدی نے اپنے ان تجربات پر مشتمل یادداشتوں کو کتابی شکل میں بھی قلم بند کیا۔ نہرو ،حسرت موہانی اور رابندر ناتھ ٹیگور پر اکتوبر انقلاب کا بہت اثر ہوا۔خاص طور پر سوشل جسٹس اور برابری کے نعروں نے انہیں انگریزوں سے جنگ کرنے میں کافی تقویت پہنچائی ۔ٹیگور نے1927ء میں روس کا دورہ کیا اور اتنے متاثر ہوئے کہ واپسی پر بنگال میں اپنی یونی ورسٹی Shanti Niketanمیں بہت ساری انتظامی تبدیلیاں کیں۔نہرو برطانوی لبرل ازم سے متاثر تھے لیکن سمجھتے تھے کہ سوشلزم کسی نہ کسی شکل میں ہندوستانیوں کیلئے ضروری ہے ۔
اکتوبر انقلاب سے پہلے تیسری دنیا کے دانشور زیادہ تر یورپ کے لبرل تھنکرز اور فیبئن سوشلسٹ کے خیالات سے مستفید ہواکرتے تھے لیکن اکتوبر انقلاب نے جس طرح سوشلزم ،قوموں کی خودمختاری اور فلاحی ریاست کے تصورات کو آگے بڑھایا اس نے تیسری دنیا کے دانشوروں پر بھی بہت اثرات مرتب کئے۔اس سے تیسری دنیا کے رہنمائوں میں بھی ایسا ہی سماج بنانے کی خواہش نے جنم لیاجس سے نہ صرف انہیں سوویت یونین کے نظام کو سمجھنے میں مدد ملی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ انکے اندر اس نظام کیساتھ ہمدردی بھی بڑھی ۔ روس کے کامیاب انقلاب نے تیسری دنیا کے ممالک میں جاری آزادی کی تحریکوں پر نہ صرف گہرے اثرات مرتب کئے بلکہ انہیں تقویت بھی بخشی۔ روس نے اسٹالن کے مرنے تک تیسری دنیا کو بہت کم امداد دی تھی۔مگر خرو شیف کے اقتدار میں آنے کے بعدروسی امداد اورباہمی تجارت کا سلسلہ کافی حد تک پھیل گیا۔ 1964ء میں خرو شیف کے انتقال تک روس تیسری دنیا کی دو بلین ڈالرکی امداد کرچکا تھا جبکہ فوجی امداد اس سے علاوہ تھی۔1965ء میں روس کا تیسری دنیا کیساتھ ٹریڈ کاحجم 11 اعشاریہ8 فیصد جو کہ1970ء میں بڑھ کر 13 فیصد ہوگیا۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ روس کی تیسری دنیا کو دی جانیوالی امداد کو صرف ناپ تول کے پیمانے میں نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ ہی اس کا موازنہ یورپ اور امریکی امداد سے کیا جاسکتا ہے جو کہ خالصتاً منافع خوری اور اپنی اقتصادی اجارہ داری کے فروغ کیلئے دی جاتی ہیں۔مثلا 1964ء میں جب خرو شیف کی حکومت کا خاتمہ ہواتو اس پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ اس نے تیسری دنیا کے ممالک کی جو مدد کی ہے وہ روس کی اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ ہے۔خرو شیف پر یہ الزام بھی تھا کہ اس نے عراق میں ایک سال کے اندر چھ سو کلومیٹر کی ریلوے لائن بچھائی جبکہ اسکے اپنے ملک میںاتنی بڑی ریلوے لائن بچھانے کا بندوبست نہیں تھا۔
روس کی امداد کا ایک خاص پہلو تیسری دنیا کے ممالک کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی تھی تاکہ وہ بڑے پیمانے پر انڈسٹریلائزیشن کر سکیں جس میں خاص طور پر اسٹیل کی صنعت کی ترویج تھی ۔انڈیا کی 35% اسٹیل کی صنعت روس نے تیار کی اسی طرح ایران 70%اور مصر کی 95% اسٹیل کی صنعت بھی روس ہی کی مدد سے تیار ہوئی۔عراق کو بجلی پیدا کرنے کے55%پلانٹ جبکہ افغانستان کو 60%اورشام کو 70%پلانٹ لگا کردیئے۔اگر اس امدا د کو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مشرقِ وسطی اور سائوتھ ایشیا کے ممالک میں بنیادی انفراسٹرکچر لگانے میں روس کا بہت اہم رول تھا۔1982ء تک روس نے جو تیسری دنیا کی مدد کی اسکے 70%پروجیکٹ افغانستان ، الجیریا، مصر، مراکو،ایران ،عراق مصر اور شام میں تھے۔ روس نے 1970ء تک تیسری دنیا کے چالیس ممالک کے ساتھ اقتصادی اور ٹیکنیکل امداد کے معاہدے کر رکھے تھے اور ان ممالک کی تعداد 1981ء میںبڑھ کر 65ہو گئی۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ روس نے جو امداد تیسری دنیا کو دی وہ یا تو گرانٹ کی شکل میں تھی یا کریڈٹ کی شکل میں ۔ کریڈٹ کی خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ وہ طویل مدتی قابل واپسی ہونے کیساتھ ساتھ کم ترین انٹرسٹ پر ہوتی تھی۔ ۔مثلا 12سال پرمحیط رقم صرف3%انٹرسٹ پر دی جاتی تھی۔یہاںیہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تیسری دنیا کے بہت سارے ممالک نے یہ قرض ان مصنوعات کی شکل میں واپس کیا جوکہ روس کے اپنے ہی بنائے ہوئے کارخانوں کی پیداوار تھیں۔اس کے علاوہ خام مال کی شکل میں بھی ان قرضوں کی واپسی کی گئی ۔مثال کے طور پر لیبیا نے روس کو تیل کی شکل میں اپنا قرض واپس کیا۔ یہاں ایک بات اور کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ روس نے تیسری دنیا میں جتنے پروجیکٹ بنائے وہ لارج اسکیل پروجیکٹ تھے۔مثلا مصر میں اسما ڈیم،انڈیا میں بھیلائی سٹیل،اور انڈونیشیا میںنیشنل اسٹیڈئم کمپلیکس بنایا۔روس نے انڈیا میں چالیس بڑے پروجیکٹ بنائے جو کہ ہیوی انڈسٹری ،آئل انڈسٹری،میٹالرجی اور پاور انڈسٹری میں تھے۔1977ء میں 300پاکستانی انجینئرز نے روس میں ٹریننگ حاصل کی جس سے پاکستان نے 1.19ملین ٹن اسٹیل پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی اور اتنی ہی پاکستان کی ضرورت بھی تھی۔اس پروجیکٹ پر 470ملین روبلز کا خرچ آیا اور اس کی واپسی کاٹن ،کارپٹ ،کپڑے اور جوتے کی مصنوعات کی شکل میںکی گئی۔1983ء تک روس نے تیسری دنیا کے 50ملکوں کیساتھ تعلیمی ،سائنسی اورثقافتی تعاون کے معاہدے کئے۔اس بات سے قطع نظر کہ روس کے سماج پر دورائے ہوسکتی ہیں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اکتوبر انقلاب تیسری دنیا کے ممالک اور خاص طور پر متوسط اور غریب طبقے کی زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کا موجب بنا۔

تازہ ترین