• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 معیشت کی جھلکیاں
بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 12اکتوبر2017کو یہ حقیقت پسندانہ بیان دیاتھا کہ قومی سلامتی اور معیشت ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے ناطے جڑواں حقیقت ہیں۔ انہوں نے بہرحال مزید کہاتھا کہ اب تمام ریاستیں پرانی سوچ پر نظر ثانی کرتے ہوئے معاشی استحکام اور قومی سلامتی کے درمیان توازن رکھنے پر توجہ دے رہی ہیں، آج سے 16برس قبل نائن الیون کے صرف8روز بعد ہی ہم نے ’’ امریکہ میں دہشت گردی، قومی سلامتی کے تقاضے‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں اس جڑواں حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہاتھا کہ نائن الیون کے سانحے کے بعد قومی سلامتی کے لئے چیلنج اور خطرات بڑھیں گے جن سے نمٹنے کے لئے خود انحصاری کے اصولوں پر مبنی ایک انقلابی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی( جنگ19ستمبر 2001) اس کے بعد سے ہم ان ہی کالموں میں بھی تواتر کے ساتھ کہتے رہے ہیںکہ معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ’’ اقتصادی دہشت‘‘ گردی پر قابو پانا ضروری ہے اور اگراس ضمن میں اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پاکستان بیرونی ڈکٹیشن لے کر امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کی جنگ لڑتا رہے گا اور نتیجتاً قومی سلامتی کے لئے خطرات بڑھتے رہیں گے ۔ ہم یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ حکومتوں کی جانب سے ملک کے طاقتور طبقوں بشمول قومی دولت لوٹنے والوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کو نت نئی مراعات دے کر معیشت کو نقصان پہنچانا معاشی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے جس کے مضمرات دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ (جنگ24ستمبر2015) ہم اس بات پربھی زور دیتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لئے طاقت کے استعمال سے زیادہ اقتصادی دہشت گری پر قابو پانا ضروری ہے اور ان اقدامات کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ لازماً بنایا جائے (جنگ 14جنوری2016) یہ ملک وقوم کی بدقسمتی ہے کہ آمر پرویز مشرف کے دور اور اس کے بعد پیپلز پارٹی اور موجودہ حکومت کے دور میں بھی اقتصادی دشت گردی پر قابو پانے کے لئے اقدامات اٹھائے ہی نہیں گئے کیونکہ ان اقدامات سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ گزشتہ 15برسوں میں ہزاروں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ پاکستانی معیشت کو تقریباً 10500ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے جس کے بڑے حصے سے بچنا یقیناً ممکن تھا ۔امریکی صدر ٹرمپ کے نیو گریٹ گیم کے استعماری مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان مخالف بیان کے بعد سے عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستانی معیشت کے ضمن میں تحفظات ظاہر کرنا شروع کردیئے ہیں۔ یہ بات بہرحال حیران کن ہے کہ اب وطن عزیز میں بھی کہاجارہا ہے کہ پاکستان جلد ہی نادہندگی سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف سے نئے قرضے کی درخواست کرے گا چنانچہ ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کی جائے ۔ہم پوری ذمہ داری سے عرض کریں گے کہ:
(1)پاکستانی معیشت کو خاصے عرصے سے سنگین خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے مگر معیشت کو فوری خطرہ نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں بھی حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ تمام بیرونی ادائیگیاں آئی ایم ایف سے قرضہ لئے بغیر کرسکتی ہے۔
(2) معیشت کے شعبے کی بہت سی خرابیوں میں وفاقی حکومت کے ساتھ چاروں صوبائی حکومتوں کابھی کردار ہے کیونکہ آئین میں 18ویں ترمیم اور ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے بعد صوبوں کے اختیارات اور مالی وسائل میں اضافہ ہوگیا ہے۔
(3)پاک افغان سرحد پر باڑ لگائے بغیر فوجی آپریشنز کرنے، دہشت گردی کے خلاف صرف طاقت استعمال کرنے اور اقتصادی دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی نہ اپنانے سے قومی سلامتی ومعیشت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔
(4)آمر پرویز مشرف کے دور میں جب اقتصادی معجزہ دکھانے کے دعوے کئے جارہے تھے جی ڈی پی کے تناسب سے جاری حسابات کا خسارہ مالی سال2007میں 4.8فیصد اور مالی سال2009میں 8.2فیصد رہاتھا جبکہ مالی سال 2017میں یہ خسارہ 4فیصد ہے۔ اسی طرح مالی سال2008میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کی درآمدات اور مالی سال2013میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کے آخری سال میں دوماہ کی درآمدات کے لئے کافی تھے جبکہ اس وقت یہ ذخائر تین ماہ کی درآمدت کے لئے کافی ہیں۔
پاکستان کی معیشت اور سلامتی کو حقیقی خطرہ جاری حسابات کے خسارے سے نہیں بلکہ تجارتی خسارے سے ہے۔ ہم 2011سے خصوصی طور پر کہتے رہے ہیں کہ بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات کوتجارتی خسارہ پورا کرنے کے لئے استعمال کرناتباہی کا نسخہ ہے۔ اپنے17دسمبر2015کے کالم میں ہم نے اس پالیسی کو آگ سے کھیلنے کے مترادف قرار دیاتھا۔ گزشتہ 4برسوں میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور برطانیہ سے تقریباً54ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آئیں۔ اپنے8ستمبر2017کے کالم میں اس کے سنگین مضمرات کا احاطہ کرتے ہوئے ہم نے عملی تجاویز بھی پیش کی تھیں۔ اس کے بعد ہم نے پھر خبردار کیاتھا کہ’’ اینٹی منی لانڈرنگ کی آڑ میں امریکہ ان ترسیلات میں تیزی سے کمی کرواسکتا ہے جوہماری معیشت سنبھال نہیں پائے گی ۔(جنگ21ستمبر2017) ہم برس ہابرس سے یہ بھی لکھتے رہے ہیں کہ ترسیلات کا ایک حصہ انکم ٹیکس آرڈنینس کی شق111(4) سے مستفید ہوکر کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جس سے قومی خزانے کو کئی سو ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔ ہم یہ بھی لکھتے رہے ہیں کہ مالیاتی وانٹلیکچوئل کرپشن پر قابو پانا ملکی پاناماز پر ہاتھ ڈالنااور احتساب کا موثر وشفاف نظام قائم کرنا کسی بھی حکومت کی کبھی بھی ترجیح نہیں رہی۔
ہم نے اب سے 21ماہ قبل لکھا تھا کہ غربت بے روزگاری اور عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے جو اقدامات ضروری ہیں ان سے طاقتور طبقوں کے ناجائزمفادات پر ضرب پڑتی ہے مگر پھر بھی نیشنل ایکشن پلان جو سول وملٹری لیڈر شپ نے مل کر بنایا تھا میں بھی ان اصلاحی اقدامات کو نظر انداز کردیا گیا ۔ (جنگ 7اپریل2016) ہم نے اب سے 8ماہ قبل لکھا تھا کہ مسئلہ صرف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمدکانہیں بلکہ ان میں کچھ نکات کو شامل کرنے کا ہے مثلاً(1) معیشت کو دستاویزی بنانا، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا اور انکم ٹیکس آرڈنینس کی شق111(4)کو لازماً منسوخ کرنا (2) کرپشن اور ٹیکس کی چوری کی رقوم کو قانونی طریقے سے ملک سے باہر منتقلی روکنے کےلئے قوانین میں ترامیم کرنا)(3) اسمگلنگ، انڈر انوائسنگ اور اوور انوائسنگ کو کنڑول (4)وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہرقسم کی آمدنی پر موثر طورپر ٹیکس نافذ اور وصول کرنا(5) دہشت گردوں کی فنانسنگ روکنا ( جنگ23فروری2017) ہم ماضی میں یہ تجویز بھی دیتے رہے ہیں کہ متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009کے مطابق تعلیم کی مد میں چاروں صوبے کاجی ڈی پی کے تناسب سے7 فیصد مختص کرنا، موجودہ مالی سال ہی میں ’’ ملکی پاناماز‘‘ پر ہاتھ ڈالنا اور پراپرٹی کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانا اب ناگریز ہوگیا ہے۔
اگر قومی سلامتی کمیٹی کے ممبران اس بات کو یقینی بنائیں کہ کم ازکم مندرجہ بالا 8نکات نیشنل ایکشن پلان میں لازماً شامل کئے جائیں اور ہر ماہ ان پر عمل درآمد کی مانیٹرنگ کی جائے تو معیشت میں زبردست بہتری آئے گی اور دہشت گردی کی جنگ جیتنا بھی ممکن ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو ان کا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا وگرنہ سب کچھ پہلے جیسا ہوتا رہے گا۔

تازہ ترین