• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے ٹماٹر! پہلے تو مجھے اعترافِ جرم کرنا ہے کہ مجھے پہلے آپکی اہمیت کا قطعاََ اندازہ نہیں تھا تاوقتیکہ ایک روز جوڈیشل کمپلیکس کے باہر رینجرز نے وزیر داخلہ کو روک لیا۔ میرے جیسے کتابی، مثالیت پسند اور سنکی طبعیت رکھنے والے آرام دہ کرسی کیٹیگری کے خود ساختہ تجزیہ نگاروں اور ڈرائنگ روم قسم کے فقرے دانشوروں کو گویا موقع ہاتھ آ گیا۔ کبھی آئین کی کتاب لے کر بیٹھ جاتے اور کبھی قانون کا منجن بیچنا شروع کر دیتے۔ کبھی فورسز کےلئے ڈسپلن کی اہمیت پر سقراطی جمانا شروع کر دیتے اور کبھی ریاست کے اندر ریاست والا راگ الاپنا شروع کر دیتے۔ سویلین بالا دستی، آزادی صحافت، فیئر ٹرائل کا بنیادی انسانی حق، آزاد عدلیہ جس کی دیوی کی آنکھوں کے اوپر بچوں کے "مجھے ڈھونڈ لو" والی کالی پٹی بندھی ہوتی ہے اور جس نے ہاتھ میں شیدے پنسار والے کی تکڑی جیسا ایک ترازو اٹھایا ہوتا ہے۔ یا پھر۔ دور حاضر کے سب سے بڑے فتنے یعنی آزادی رائے اور آزادی اظہار۔ سچی بات ہے سارا دن اسی طرح کی اناپ شناپ سے عوام پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ سر درد کی گولی بھی آئوٹ آف اسٹاک ہو گئی۔ سچی بات ہے کہ میں بھی اسی رو میں بہہ گیا ہوتا لیکن کسی نامعلوم، سچے اور محب وطن دانشور کا احسان مند ہوں کہ اسکی بدولت مجھے اچانک احساس ہوا کہ زمانے میں اور بھی بہت سے غم ہونگے لیکن انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ٹماٹر ہے۔ میں اپنے آپ کو کتنا بڑا طرم خان کیوں نہ سمجھتا رہوں لیکن کبھی کبھی کوئی نازک لمحہ ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہو جاتا ہے، اپنی کج روی انسان پر آشکار ہو جاتی ہے، اپنی کج فہمی کے ادراک کی کھڑکی ٹھاہ کر کے وا ہو جاتی ہے۔ وہ ایسا ہی ایک لمحہ تھا جب ایک محسن نے تڑاخ کر کے میرے شعور کو جھنجھوڑا اور کائنات کے گہرے رازوں سے پردہ اٹھانے جیسی دریافت سے مجھے روشناس کرایا کہ ٹماٹر۔۔ ٹماٹر۔۔ جی ہاں، ٹماٹر ہے اصل مسئلہ جس پرکوئی سوڈو انٹیلکچول بات کرنے کو تیار نہیں۔
ٹماٹر پائین! مجھے اس روز ایک زناٹے دار قلبی واردات کے سبب اگر انسانی خوشی کے حصول کے اہم وسیلے کے طور پر آپ سے نیا اور فریش تعارف نہ ہوا ہوتا تو کہاں میں آج آپ کو یہ قلمی گلدستہ بھیج رہا ہوتا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ دل ہی دل میں سوچ رہے ہونگے کہ میں کوئی "یہ میرے اللہ کا فضل ہے" جیسی تختی پیشانی پر سجائے، سبزے میں ڈوبے خوبصورت بنگلے کا بہت بڑی توند والا کوئی بابو، جنٹل مین یا سیٹھ ہونگا جسے دین دنیا کی کوئی خبر ہی نہیں ہو گی، جسے پتہ ہی نہیں ہو گا کہ ٹماٹر کس بھائو بکتے ہیں۔ لیکن بڑے ادب کے ساتھ، اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو بالکل غلط سوچ رہے ہیں کیونکہ میں تو اسی عوام سے متعلق ہوں (جسکا آپ سب سے بڑا مسئلہ بتائے گئے ہیں) جو اس وقت بھی ہفتہ بھر کیلئے آپکے پورے ایک کلو لے کر آتے ہیں جب آپ بیس روپے فی کلو میں بکتے ہیں۔ اگرچہ آپکو میرے معاشی پس منظر کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہے لیکن پھر بھی میری اس فاش غلطی کو معاف فرما دیجئے گا جو مجھ سے اس روز سر زد ہوئی جب بیگم نے کئی روز کی ٹماٹر بندی کے بعد فرمائش کی کہ آج تو ٹماٹر لے ہی آئیں۔ جی ہاں! میرے دماغ میں تھوڑی سی بھی عقل ہوتی تو کم از کم اس روز مجھے آپکی اہمیت کا اندازہ ہو جانا چاہئے تھا۔ ہوا یوں کہ دو تین سبزی والی دکانوں پر گیا لیکن آپ نہیں ملے۔ آخری امید پرانے ٹال کے ساتھ والی فیکے کی سبزی کی دکان پر جا کر دم توڑ گئی جس نے ٹماٹر کا پوچھنے پر تقریباََ طنز کرتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ ڈھائی سو روپے کلو ٹماٹر لے تو آئوں لیکن خریدے گا کون؟ میں نے بھی ٹھان لی کہ جو مرضی ہو جائے آج ٹماٹر لے کر ہی گھر لوٹوں گا، سبزی منڈی کونسا دور تھی، دو لیٹر پٹرول گاڑی میں موجود تھا۔ سو جا دھمکا۔ آپ منڈی میں موجود تو تھے لیکن اتنے کم کہ آپکے پاس جانے کیلئے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ دکاندار سے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا کہ بھائی کیا ریٹ ہے تو وہ بولا آپ کیلئے دو سو بیس روپے۔ میں نے جھٹ پوچھا، دھڑی کے؟ کہنے لگا یا جنگ کر لو یا ٹماٹر کھا لو۔ مجھے پریشان دیکھ کر بولا، نہ انڈیا کا ٹماٹر آ رہا ہے نہ افغانستان کا فروٹ۔ ٹماٹر، کیلا، پیاز، انار۔ بھئی اگر کسی کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں رکھ سکتے تو پھر سبزی، فروٹ تو بلیک میں لے ہی سکتے ہو ناں۔ میں نے معصوم شکل بنا کر کہا بھائی ایک ہفتے سے ٹماٹر نہیں کھائے کوئی درمیانی راستہ نکالو پلیز۔ دکان والے کو رحم آ گیا۔ پوچھنے لگا کہ کیا کرتے ہو بھائی، میں بولا اخبار میں لکھتا ہوں۔ اچھا تو یہ بتائو کہ نواز شریف کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ انصاف ہے؟ میں خاموش رہا۔ تھوڑی دیر بعد بُڑبڑایا کہ اسطرح تو سبزی کا پھٹہ نہیں چلتا یہ ملک چلا رہے ہیں!! دو مہینے ہو گئے، کاروبار تباہ ہو گیا ہے، قرضے سر چڑھ گئے ہیں۔ خیر بھائی آپکے لئے درمیانی راستہ یہ ہے کہ منڈی کے گیٹ کے ساتھ نکڑ پر دودھ دہی والی ریڑھی ہے۔ ٹماٹر اور دہی کے ذائقے میں وہم برابر ہی فرق ہوتا ہے۔ جائو موج کرو!
سر ٹماٹر! آپ کی جگہ میرے ہاتھ میں دہی دیکھ کر بیگم نے جو درگت بنائی تھی، اس دن کم از کم مجھے سمجھ جانا چاہئے تھا کہ عوام کا اصل مسئلہ ٹماٹر ہیں۔ لیکن میں اس روز بھی نہ سمجھا۔ سمجھ آئی تو اس رات اپنے محسن کا تبصرہ سن کرجب جوڈیشل کمپلیکس کے باہر رینجرز نے اپنے سب سے سینئرباس یعنی وزیر داخلہ کو گیٹ پر روک لیا تھا۔ اب تک تو اور بھی بہت کچھ ہو چکاہے۔ اخبار کھولو تو فارورڈ بلاک بنانے، شہباز شریف کی قیادت سنبھالنے اور چوہدری نثار کے اداروں سے ٹکرائو سے گریز جیسی خبریں ملتی ہیں۔ ٹی وی دیکھو تو ٹیکنوکریٹ حکومت کی بانگیں، مارشل لا کی دھمکیاں اور کہیں کہیں تو قیامت کی پیشن گویاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں۔ اور جب اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کرلیپ ٹاپ کھول کر سوشل میڈیا پر نظر دوڑا لیں تو آزادی اظہار پر حملے، بلاگرز کے لاپتہ ہونے، صحافیوں کی زبان بندی جیسے ہیش ٹیگ ہٹ جا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب دیکھ اور پڑھ کر میں زیر لب مسکرا دیتا ہوں۔ کیونکہ اب مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ پاکستان کے اصل مسائل وہ نہیں ہیں بلکہ پوری کائنات کا ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ آپ ہیں۔ جی ہاں! ٹماٹر پائین، آپ!

تازہ ترین