(دوسری قسط)
قدیمی شہر یروشلم کا تعارف
مسجداقصیٰ پرانے شہر (Old Sity)یروشلم کے اندر واقع ہے ۔ہمارا ہوٹل (Victoria Hotel) نئے شہرکے محلہ المسعودی میں جہاں سے اولڈسٹی یروشلم کانزدیکی گیٹ پانچ منٹ کی واک پر ہے ۔اس قدیمی شہرکو بلند فصیل کے ساتھ کور کیا گیا ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ ایک کلومیٹرکے رقبے میں واقع ہے ۔مسجد اقصیٰ حاضری سے پہلے ہم دنیا کے اس قدیم اور مقدس شہرکا کچھ تعارف کروائے دیتے ہیں ۔مسجد اقصی کی تاریخ کا تعلق فلسطین کی تاریخ سے ہے اور فلسطین کی تاریخ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے، جبکہ شہریروشلم کی تاریخ کا استنادحضرت داؤد علیہ السلام سے ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان محتاط روایات کے مطابق2600سال کاوقفہ ہے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے درمیان تقریباً ساڑھے نو سو سال کاوقفہ ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان 2000سال کا وقفہ(Gap)ہے ۔ اور شہریروشلم جس میں مسجداقصی واقع ہےاس کی مستند تاریخ ایک مذہبی کتاب عہدنامہ قدیم Old testamentمیں ولادت عیسوی سے گیارہ سو سال پہلے کی ملتی ہے ، گویایہاں دو تواریخ سانس لے رہی ہیں ۔مسجد اقصی کی بابت تو ہم آگے بیان کریں گے ۔ لیکن آج کی نشست میں شہر یروشلم کاتعارف کراتے ہیں جو عموماً سفرناموں میں موجود نہیں ہوتا ۔اسے ہم نے کافی کتابوں اورمضامین سے چھانٹ کر اپنے حساب سے مرتب کیااورکوشش کی گئی ہے کہ اس مواد کوصحیح طریقے سے فٹ کیا جائے ۔ چونکہ یہ تاریخ ہے اس لیے کمی بیشی کاامکان ہے۔صحیح تاریخ اور واقعات تو اللہ ہی کے علم میں ہیں ۔عہد نامہ قدیم Old testament کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں یہاں یبوسی قوم آباد تھی، یہ مضبوط دیواروں کے ساتھ قلعہ بند شہر تھا۔معرکہ طالوت و جالوت جس کا تذکرہ قرآن کریم سورہ البقرہ کی آیات 249تا251میں ہے ۔یہ شہر حضرت داؤد علیہ السلام ہاتھوں فتح ہوا ۔وہی اس کے بادشاہ بنے اسی لیے اسے شہر داؤدCITY OF DAVID کہا جاتاہے موجودہ شہر، جنوب مشرقی دیوار کی طرف باب مغاربہ سے باہر تھا ۔حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ بنے، تو انہوں نے اس شہر کو وسعت دی شہرکی دوسری دفعہ حد بندی نحمیا کے دور 440قبل مسیح میں ہوئی اور تیسری حد بندی ولادت عیسوی سے40 قبل یہودیہ کے بادشاہ ہیروڈیس اغریپا نے ایک نئی دیوار تعمیر کرکے کی تھی ۔سیدنافاروق اعظمؓ کے دور میں یروشلم کو فتح کیاگیا اسلامی افواج کے محاصرے سے تنگ آ کر عیسائیوں نے شہر مسلمانوں کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کردی لیکن عیسائی پادری(St.Sophronius) سوفرونیئس (560-638)نے شرط رکھی کہ یہ شہر مسلمانوں کے خلیفہ کے حوالے کیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت عمرفاروقؓنے یروشلم کاسفرکیااورسوفرونیئس کے ساتھ شہر کا دورہ کیا ۔ کلیسائے مقبرہ مقدس کے دورہ کے دوران نماز کا وقت آگیا اور سوفرونیئس نے حضرت عمر فاروق ؓ کو کلیسا میں نمازپڑھنے کی دعوت دی ۔لیکن حضرت عمر ؓنے کلیسا میں نمازپڑھنے کی بجائے باہر آکرنمازاداکی جس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ مستقبل میں مسلمان اسے عذر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کلیسا کو مسجد کے لیے استعمال نہ کریں خلیفہ کی دانشمندی اور دور اندیشی کو دیکھتے ہوئے کلیسا کی چابیاں حضرت عمر فاروق ؓ کو پیش کی گئیںاس پیشکش کے انکار نہ کرنے کے باعث چابیاں مدینہ سے تعلق رکھنے والے ایک خاندانی شخص کو دے دی گئیں اور انہیں کلیسا کو کھولنے اور بند کرنے کا حکم دیا جس طرح حرم اقدس بیت اللہ کی چابیاں اسی خاندان عتیبی کے پاس ہیں، جس کو خاتم النبیین ﷺ نے عنایت فرمائی تھیں ، اور آج تک بیت اللہ کے کلید بردار وہی ہیں، اسی طرح آج تک اس کلیسا ( کنیسۃ القیامہ)کی چابیاں بھی اسی مسلمان خاندان کے پاس ہیں ، جن کو حضرت عمرفاروق ؓ نے عطا کی تھیں حضرت عمر ؓ نے کنیسہ سے باہر نکل کرجگہ صاف کرائی اور وہاں نماز ادا کی۔1193ء میں اس واقعہ کی یاد میں صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الافضل بن صلاح الدین نے ایک مسجد تعمیر کروائی جس کا نام مسجد عمر ؒہے جس کی مکمل تزئین عثمانی سلطنت کے سلطان عبدالمجید نے اپنے دور میں کی اب وہ ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد کی شکل میں موجود ہے ۔ 1099میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران یہ شہر عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ جنہوں نے ہزاروں مسلمانوں کوبے دریغ قتل کیا، اوریہودیوں کو بے دخل کر دیا۔ 2اکتوبر 1187کو اسلام کے عظیم جرنیل صلاح الدین ایوبی نے اس شہر کو دوبارہ فتح کیا۔مسلمان جرنیلوں کی رحمدلی روایات کے مطابق اس نے یہودیوں کو طلب کیااور شہر میں دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دی جس کے نقصان کا خمیازہ مسلمان آج تک بھگت رہے ہیں 1291میں ایوبی خاندان کے سلطان دمشق المعظم عیسیٰ شرف الدین نے کسی وجہ سے شہر کی دیواروں کو مسمار کروادیا۔1229میں یروشلم معاہدہ مصر کے تحت فریڈرک دوم کے قبضے میں چلا گیا جس نے 1239 میں دیواریں دوبارہ تعمیر کروادیں مگر امیر کرک نے بعدمیں پھر ان دیواروں کو مسمار کرادیا۔1243میں یروشلم پر عیسائیوں کا پھر قبضہ ہوگیاجنہوں نے دیواریں کی پھر مرمت کرادی 1244میں تاتاریوں نے شہرپر قبضہ کیاتو دیواریں پھر توڑ ڈالیں تاآنکہ سلطنت عثمانیہ کے سلطان سلیمان اول جنہیں سلیمان القانونی بھی کہاجاتاہے یروشلم کی دیواریں تعمیرا کرا دیں اوراب تک وہی دیواریں موجود ہیں ان دیواروں کی لمبائی تقریباً تین میل اور اونچائی 16سے 49فٹ ہے۔ 1980میں اردن نے یروشلم شہر کو عالمی ثقافتی ورثہ بنانے کی تجویز پیش کی۔ 1981میں ان دیواروں کو اس فہرست میں شامل کر لیا گیا یعنی اب ان دیواروں کو توڑنابین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع ہے ہرچہ بادا باد۔(آزاد معارف ویکیپیڈیا)
شہریروشلم کے دروازے
بارہویں صدی کی صلیبی جنگوں تک یروشلم کے چار دروازے تھے جو ہر ایک سمت میں تھے ۔ موجودہ دیوار سلطنت عثمانیہ کے سلطان سلیمان القانونی نے تعمیر کروائی جس کے گیارہ دروازے ہیں جن میں سے سات کھلے ہیں اور چار بند کردیے گئے ہیں ۔1887ء تک ہر دروازہ فجر کے وقت کھولا جاتا تھا اور مغرب کے وقت بند کردیا جاتاتھا ۔
کھلے دروازے
شمالی جانب کادروازہ باب جدید(Gate of Hammid) جسے 1187میں تعمیرکیا گیا۔وسط شمال کا دروازہ باب دمشق ، اسے باب العمود(Gate of the Pillar)بھی کہا جاتاہے1537میں تعمیر کیا گیا۔(3) شمال مشرق کی طرف باب الساہرہ ( ہیروڈیس گیٹ، یا فلاور گیٹ اور(Sheep Gate)بھی کہا جاتاہے ۔ اس کی تعمیر کاسن نہیں مل سکا۔(4) شمال مشرق وسط میں باب اسباط (Gate of the Tribes)اس کی تعمیر بھی 1539میں ہوئی ۔ اسباط قبیلوں کو کہاجاتاہے ۔ سورہ بقرہ اورآل عمران میں ویعقوب ولاسباط کا نام آتاہے یعنی مختلف قبیلے تو یہ گیٹ انہی کی طرف منسوب ہے ۔ (5) جنوب مشرق میں باب مغاربہ (Gate of Silwa)جس کی تعمیر1538میں کی گئی تھی ۔(6)وسط جنوب میں باب صیہون یاباب داؤد (Gate of the Jewish)اس کی تعمیر1540میں ہوئی تھی ۔(7) وسط مغرب میں باب الخلیل (Gate of David's Prayer) چار دروازے مستقل طور پر بند ہیں۔ (1) وسط مشرق میںباب رحمتGate of Mercy جو چھٹی صدی میں تعمیر کیاگیاتھا۔(2) قدس الشریف کی مغربی دیوار میں ایک محرابی دروازہ جسے ہیروڈیس کے دور میں تعمیر کیا گیاتھا ۔یہ دروازہ مصلی مروانی کی جانب سے زیر زمین علاقے کی طرف جاتاہے ، اسے مستقل طور پر بند کردیاگیا ہے اور اسرائیلی اسی جانب سے مسجد اقصی کے نیچے سرنگ کھود رہے ہیں مسجد قبلی کے پہلو میں مسجد عمر کے اندر سے کھڑکی کھول کر دیکھیں تو یہ دروازہ اور اسرائیلیوں کی کھدائی نظر آتی ہے ۔(3) دو محرابی دروازہ یہ بھی قدس الشریف کی مغربی دیوار میں ہے اور دور ہیروڈیس میں اسے تعمیر کیا گیاتھا ۔یہ بھی مستقل بند ہے ۔(4) یہ بھی مغربی دیوار میں تھا ابواب خولدیاTrilpe Gateتین تکونوں یاچوہے ودیگر حشرات الارض کی بہتات کی وجہ سے اس کایہ نام رکھاگیا یہ بھی ہیروڈیس کے دور میں بنایاگیاتھا ۔مسجد اقصی میں داخل ہونے سے پہلے ہم آپ کو یروشلم کے محلّوں کی سیر کراتے ہیں۔
یروشلم کے محلے
یروشلم میں پانچ محلے ہیں مسلم محلہ (حارۃ المسلمین) قدیم شہر کے شمال مشرق میں واقع چار محلوں میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والامحلہ ہے ۔یہ مشرق میں باب اسباط سے شمالی دیوار کے ساتھ بیت المقدس اور مغربی جانب مغربی دیوار کے ساتھ باب دمشق تک پھیلا ہوا ہے اس کی آبادی2005میں 22,000نفوس پر مشتمل تھی قدیم شہر کے دیگر تین محلوں کی طرح1929کے فسادات سے پہلے یہاں بھی مسلم یہودی اور عیسائیوں کی مخلوط آبادی تھی اسی محلہ میں مسلمانوں کے متبرک مقامات ہیں، اورکئی مساجد ہیں، مثلاً مسجد عثمان ،مسجد اقصیٰ ،قبہ معراج ، قبۃ الصخراء ، مسجد عمر، مصلی مروانی وغیرہ ۔(2)مسیحی محلہ حارۃ النصاریٰ قدیم شہر کے شمال مغربی کونے میں واقع ہے یہ شمال میں مغربی دیوار کے ساتھ باب جدید سے باب الخلیل تک پھیلا ہوا ہے اس محلے میں کلیسائے مقبرہ مقدس بھی موجود ہے جسے زیادہ تر مسیحی مقدس ترین مقام سمجھتے ہیں مسیحی محلے میں تقریباً چالیس مسیحی مقدس مقامات ہیں حالانکہ آرمینیائی بھی مسیحی ہیں لیکن ان کا محلہ عیسائی محلہ سے الگ ہے مسیحی محلہ زیادہ تر مذہبی سیاحتی اور تعلیمی عمارتوں پر مشتمل ہے جیسے سینٹ جیمس کتھیڈرل، کلیسائے مقبرہ مقدس، نجات دہندہ کا لوتھری گرجاگھر ، سینٹ توروس گرجاگھروغیرہ۔(3)آرمینیائی محلہ حارۃ الارمن. قدیم شہر کے چار محلوں میں سب سے چھوٹا محلہ ہے ۔1948عرب اسرائیل جنگ کے بعد چاروں محلے اردن کے زیر انتظام آگئے ۔1967کی 6روزہ جنگ کے نتیجے میں یروشلم اسرائیل کے زیر تسلط آگیا1967کی جنگ کے دوران آرمینیائی خانقاہ کے اندر پائے جانے والے دو بم پھٹ نہ سکے ،جنہیں ایک معجزہ تصور کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں 3000سے زیادہ آرمینیائی یروشلم میں مقیم ہیں۔ جن میں سے 500سے زائد آرمینیائی محلے میں رہتے ہیں ۔ (4)یہودی محلہ Jewish Quarter(حارۃ الیہود) شہر کے جنوب مشرقی علاقے میںواقع ہے۔ یہ جنوب میں باب صیہون سے مغرب میں آرمینیائی محلہ تک اور مشرق میں مغربی دیوار اور کوہ ہیکل تک پھیلا ہواہے ۔ یہودی محلہ بھی تاریخی مقامات سے اٹا پڑا ہے ۔ 1967کی جنگ کے بعد یہ یہ علاقہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا اس کے چند ہی دنوں بعد اسرائیلی حکام نے مراکشی محلہ کے انہدام کا حکم دے دیا اور وہاں مقیم لوگوں کو زبردستی نکال باہر کیا تاکہ یہودیوں کو دیوار گریہ تک رسائی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔ کنیسہ خرابہ (برباد کنیسہ ) اسی محلے میں واقع ہے 2010 میں اسے از سر نو تعمیر کیا گیا۔ یہاںچار سفاردی کنیسہ جات بھی ہے ۔ یہ چار کنیساؤں کا ایک مجموعہ ہے جو مختلف ادوار میں تعمیر کئے گئے ۔(5) مراکشی محلہ ، مراکون کوارٹر مغربی محلہ یا حارۃ المغاربہ ۔ قدیم یروشلم جنوب مشرق میں مغربی دیوار جو اصل میں تو دیوار براق ہے لیکن یہودی اسے دیوار گریہ کہتے ہیں۔ اس کے جنوب میں باب مغاربہ اور مغرب میں یہودی محلہ واقع تھا۔ یہ مسلم محلہ کی توسیع تھی جسے صلاح الدین ایوبی کے بیٹے نے بارہویں صدی میں بنوایاتھا 1967کی جنگ کے بعد یہودی قبضے میں آتے ہی اسرائیلی حکومت نے مراکشی محلہ کو منہدم کردیااورزبردستی یہودکولابسایا ۔
حضرت عیسیٰ کی صلیب سے منسوب گلی
قدیم یروشلم میں دوحصوں میں منقسم ایک گلی ہے جسے راہ غم ، راہ درد (way of Sorrows)یاطریق الآلام کہا جاتاہے…یعنی وہ راستہ جس پر عیسائی روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیدخانے سے اپنی صلیب اٹھا کر چلتے ہوئے مقام مصلوبیت پر آئے تھے اس راستے کی لمبائی تقریباً 2000فٹ یا 600میٹر ہے۔ عیسائی روایت کے مطابق صلیب اٹھا کرجہاں حضرت عیسی علیہ السلام چلتے ہوئے رکے یاگرے تھے۔ پندرہویں صدی کے اواخرسے ان مقامات کی تعداد چودہ ہے۔موجودہ راستے ’’راہ غم‘‘پر نو مقامات پر صلیب زدہ نشانات ہیں۔،جبکہ پانچ کلیسائے مقبرہ مقدس کے اندر ہیں۔ مقام مصلوبیت پر اب مقبرہ مقدس قائم ہے۔
(Jerosalam Murph O'Connor The Holy Land 2008 pages 37)
قدیم شہر کے گرد و نواح کی شاہراہیں
شہر قدیم میں چار سڑکیں چہار سمت کی ہیں ،شارع یافا ، شارع اریحا، شارع صلاح الدین، شارع سلطان سلیمان یافا…باب یافا اور شارع یافا … دونوں قدیم بندرگاہ ’’یافا‘‘ کے نام پر ہیں ۔ یافا …وہ بندرگاہ ہے جہاں یونس علیہ السلام اپنے بحری سفرپر روانہ ہوئے تھے ۔اور زائرین مقدس شہر کے لیے اسی بندرگاہ پراترتے تھے ۔(جاری ہے)