• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع صحرائی علاقے تھر کا نام سنتے ہی ذہن میں شدید غربت، خشک سالی، غذا اور مناسب کپڑوں سے بھی محروم غریب عوام کے تصورات ذہن میں آتے ہیں۔ واقعی۔ تھر ایسا تھا اور شاید ایسا ہی رہتا لیکن پچھلے دو تین برسوں سے تھر میں بہت خاموشی سے مثبت تبدیلیوں کی ایک بڑی لہر آرہی ہے۔ ایک خاص اور بے مثال بات یہ ہے کہ تھر کے غریب عوام کو بھی حالات بدلنے کے عمل میں شریک کیا جارہا ہے۔
تھر پاکستان کا خزانہ ہے۔ یہاں کوئلے کے ذخائر کی مقدار 185 ارب ٹن سے زائد ہے۔ اس کوئلے کی توانائی قدر(Heating Value) تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب اور ایران کے تیل کی مجموعی ہیٹنگ ویلیو سے زیادہ ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ صرف تھر کے کوئلے سے درست استفادہ کرلیا جائے تو پاکستان کی معیشت سعودی معیشت کے ہم پلہ ہوسکتی ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر ریال کے برابر ہوسکتی ہے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے بعد پاکستان کو تیل امپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس طرح سالانہ دس ارب ڈالر سے زائد کا امپورٹ بل کم ہوگا۔ پاکستان کو قدرت نے کئی بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ ہمارے کئی پالیسی ساز اور فیصلہ ساز محض اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے ان نعمتوں کی ناقدری کے مرتکب ہوئے۔ آبی، شمسی اور ہوائی ذرائع کے ساتھ ساتھ کوئلے سے لاکھوں میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کی استعداد کے باوجود پاکستان میں انتہائی مہنگی تھرمل بجلی کے پلانٹس لگائے گئے۔
خدا کا شکر ہے کہ اب تھر کے صحرا میں واقع کوئلے کے وسیع ذخائر سے بجلی کی پیداوار کے بہت بڑے منصوبے پر کام شروع ہوگیا ہے۔ اس منصوبے میں حکومت سندھ کی دلچسپی اور تعاون لائق تحسین ہے۔ سندھ حکومت سے لوگوں کو کئی طرح کی شکایات ہیں۔ سندھ میں کرپشن کی کہانیاں اور بیڈ گورننس کی باتیں عام ہیں لیکن تھر میں معاملات مختلف نظر آرہے ہیں۔ یہاں پاکستان اور چین کے اشتراک سے سی پیک کے تحت اور سندھ اینگرو کول مائیننگ کمپنی ( SECMC) کے زیراہتمام پاکستان کا سب سے بڑا کول فائر پاور پلانٹ تعمیر ہورہا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ اور حکومت سندھ کے مختلف محکمے تھر میں کوئلے کے حصول اور پاور پلانٹ کی تنصیب کے لئے قابل ستائش معاونت فراہم کررہے ہیں۔ اس منصوبے کے افتتاح کے موقع پر بھی اتحاد و یکجہتی کے مناظر دیکھنے میں آئے، منصوبے کا افتتاح جنوری 2014ء میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر کیاتھا۔
معاشی ترقی لوگوں کو محض روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اس ترقی کا مقصد متعلقہ علاقے، صوبے اور ملک میں وسیع تر بنیادوں پر سماجی بہتری ہونا چاہیے۔ سماجی بہتری کا مطلب ہے کہ روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم، صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ صحت مندانہ سرگرمیوں مثلاً اسپورٹس کا فروغ ہو اور ثقافتی خصوصیات کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ پاکستان میں 60ء کی دہائی میں تیز رفتاری سے صنعتی ترقی ہوئی۔ اس سے لاکھوں کروڑوں افراد کو روزگار ملا لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس معاشی ترقی کو سماجی بہتری کا ذریعہ بنانے پر توجہ نہ دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں آبادی کا دباؤ بڑھتا گیا۔ مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے سے روزگار اور رہائش کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے یا صنعتی علاقوں کے قریب کچی آبادیاں بننے لگیں۔ بیماریوں کے موثر علاج یا روک تھام پر خاطر خواہ توجہ نہ دینے سے صنعت سے وابستہ بے شمار کارکنوں، ان کے اہل خانہ اور دیگر شہریوں میں کئی بیماریاں پھیلیں۔ اسکول، کالج نہ بننے سے غریب اور متوسط طبقے کے بے شمار بچے تعلیم سے محروم رہے۔ اسپورٹس، فن و ثقافت کے معاملات پر تو کبھی سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی گئی۔ نتیجہ میں کئی سنگین مسائل سامنے آتے رہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تھر میں ترقیاتی کاموں کو، روزگار کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت اور علاقائی ترقی سے منسلک کیا جارہا ہے۔ مختلف شعبوں میں تھر کے عوام کی خدمت کا بیڑا سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ اور ان کی پُرعزم، متحرک، جفاکش ٹیم نے اٹھایا ہے۔ ایک طرف تھر کول ریجن کے بلاک IIمیں ایک مربع کلومیٹر کے علاقے میں 180میٹر کھدائی (Open Pit Minning) کے ذریعے کوئلے تک پہنچنے کی سعی ہورہی ہے، بجلی کی پیداوار کے لئے پاور پلانٹ پر کام جاری ہے۔ دوسری طرف عوام کی بہتری کے لئے SECMCکی جانب سے تعلیم، صحت اور دوسرے کئی شعبوں میں کام ہورہا ہے۔ ملک کے معروف تعلیمی ٹرسٹ TCFکے تعاون سے ایک ایک ہزار بچوں کے لئے چھ اسکول اور انڈس اسپتال کے تعاون سے کلینکس اور اسپتال قائم کئے جارہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے اشتراک سے شور زدہ پانی استعمال کرتے ہوئے جانوروں کے لئے غلہ اگانے کے پروجیکٹ پر تحقیقی کام جاری ہے۔ یہ تحقیق کامیاب ہوجانے پر تھر میں شور زدہ پانی سے وسیع پیمانے پر غلہ کاشت کیا جاسکے گا۔ اس طرح تھر میں مویشیوں کی افزائش میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوگا۔ تھر کے بلاک IIمیں مائننگ اور پاور پلانٹ کی وجہ سے وہاں بسنے والے کئی خاندانوں کی نقل مکانی لازمی تھی۔ ان سب خاندانوں کو ان سے حاصل کردہ زمین کے معاوضے دینے کے ساتھ ساتھ انہیں تقریباً 1200مربع گز پر ان کی طرز رہائش کے مطابق مکانات بناکر دئیے جائیں گے۔ مائننگ اور پاور پلانٹ پر مقامی افراد کو بھی ملازمتیں دی گئی ہیں۔ اس وقت پروجیکٹ پر براہ راست اور بالواسطہ کام کرنے والوں کی تعداد تقریباً چار ہزار ہے۔ ان میں تھر کی خواتین بھی شامل ہیں۔ پروجیکٹ کی تکمیل پر یہ تعداد بیس ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے چند روز پہلے اس پروجیکٹ کی وجہ سے نقل مقانی کرنے والے تقریباٍ 700خاندانوںکو شیئر ہولڈر بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پاکستا ن میں اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومتِ سندھ نے اپنے شیئر میں کمی کی ہے۔ اس طرح پروجیکٹ کے متاثرین درحقیقت منفعت پانے والے (Project Beneficiaries) بن جائیں گے۔
تھر کے علاقے اسلام کوٹ میں واقع کول فیلڈ کے قریب ائیرپورٹ تعمیر ہوچکا ہے۔ تھر میں خوش حالی آنے کے بعد یہاں نہ صرف یہ کہ صنعت کاروں اور تاجروں کی آمدورفت بڑھے گی بلکہ صحرا کی سیاحت کے لئے آنے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھے گی۔ نیک نیتی اور دیانت داری سے کام ہوتا رہا تو اسلام کوٹ میں ائیر پورٹ محض چند برس بعد ایک جدید اور مصروف بین الاقوامی ائیر پورٹ کا درجہ حاصل کرلے گا۔
پاکستان کو توانائی کی کمی کا کبھی سامنا ہی نہ کرنا پڑتا اگر ہماری حکومتیں پاکستان میں قدرتی ذرائع سے بجلی کے حصول کے منصوبے بروقت بنالیتیں۔ چلئے دیر سے ہی پاکستان اس معاملے میں اب درست سمت میں چل پڑا ہے۔ حکومت سندھ اور اینگرو پاکستان کی مشترکہ کمپنی کے اس پروجیکٹ کی تعمیر بروقت مکمل ہوجانے پر مجھے یقین ہے کہ تھرکا حوالہ غربت، بیماریوں اور ناخواندگی کے بجائے ایک خوشحال صحت مند اور تعلیم یافتہ خطہ کا حوالہ بن جائے گا۔ سندھ کول اتھارٹی کے ایک ڈی جی بشیر احمد انصاری نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا سارا مال و جائیداد تھر میں کوئلے کی دریافت کے لئےلئے خرچ کرڈالا تھا۔ اس وقت تو ان کی کوششیں رنگ نہ لاسکیں لیکن اب این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے تعلیم یافتہ انجینئرز شمس الدین شیخ اور ان کے ساتھی انصاری صاحب اور بے شمار دیگر خیر خواہوں کے خوابوں کو سچ کردکھانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ہمتِ مرداں مددِ خدا

تازہ ترین