• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اﷲ نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی فائونڈیشن (FGEHF)کی طرف سے سرکاری افسران، ججوں، صحافیوں اور وکلا میں پلاٹ تقسیم کرنے کے لئے F-14 اورF-15 سیکٹرز کا حصول غیر آئینی اورغیر قانونی قرار دے دیا ہے ۔جج صاحب نے واضح کیا کہ ہماری طاقت ور اشرافیہ ایک عقربی پلاٹ مافیا بن چکی ہے ۔ اس اشرافیہ نے ریاست کے وسائل ، جو عام شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کے لئے تھے ، کے بے دریغ استعمال کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے ۔
یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے قانونی مندرجات منفرد اور اچھوتے ہیں، بلکہ اس لئے کہ فاضل عدالت نے طے شدہ قانونی اصولوں، مساوات اور شفافیت کا خیال رکھا، اور ہمارے ہاں اس کی روایت کم کم ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کچھ فیصلوں سے ایسا تاثر ابھرتا ہے جیسے بعض عدالتیں ان اصولوں سے بوجوہ گریزکرجاتی ہیں۔ چاہے اس کی وجہ غفلت اور لاعلمی ہو یا ذاتی مفاد کی کشش اصولوں پر غالب آجاتی ہو۔ اس مفاد کو اپنی جیبوں میں سمیٹنے والے افراد ریاست اور اس کے وسائل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جج حضرات کا شمار استحقاق یافتہ شہریوں میں ہوتا ہے ، وہ بھی اس مفاد سے مستفید ہوتے ہیں۔ لیکن جناب اطہر من اﷲ کے ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کا شمار ایسے افراد میں نہیں ہوتا۔ آج جاہ طلبی کے دور اور ہل من مزید کی گھڑی میں ایسے سچے اور کھرے کردار کا مظاہرہ ایک غیر معمولی بات ہے ۔
آئیے کچھ بنیادی اصولوں کی بات کرلیتے ہیں۔ ہم نے ایک آئین تحریر کیا ہوا ہے ۔ یہ ریاست اس آئین کے مطابق چلائی جانی ہے ۔ جمہوریت میں شہری اپنی حکومت کو منتخب کرتے ہیںجو آئین کے تفویض کردہ اختیارات کو درست طریقے سے استعمال کرتے ہوئے شہریوں کو فائدہ پہنچاتی ہے ۔ ایک شہری ہر وہ کام کرنے کے لئے آزاد ہے جس کی راہ میں قانون مانع نہیں ۔ ایک سرکاری افسر صرف وہی کچھ کرسکتا ہے جس کی قانون اُسے اجازت دیتا ہے(ایک عام شہری اور ایک سرکاری افسر کی آزادی ایک جیسی نہیں ہوتی) ۔ ریاست کے سربراہ سمیت کوئی افسربھی من مانی سے اپنے اختیارات استعمال کرنے کا مجاز نہیں ہے ۔
جسٹس اطہر من اﷲ کا فیصلہ چار اہم معاملات پر روشنی ڈالتا ہے۔ پہلا ، لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت FGEHF کا F-14 اور F-15 سکیٹرز کا حصول غیر قانونی تھا کیونکہ (1)اسلام آباد میں زمین لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1984 کی بجائے سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کے تحت ہی حاصل کی جاسکتی ہے ، (2)وفاقی حکومت نے کبھی عوامی مقصد کے لئے زمین حاصل نہیں کی ہے ، اور (3)FGEHF کے لئے زمین بطور ایک کمپنی حاصل کی جاسکتی ہے نہ کہ عام افراد کے استعمال کے لئے۔
دوسرا ، F-14/15 کا حصول اور پلاٹوں کی تقسیم غیر قانونی ہے ۔ آئین کا آرٹیکل 173(1) کہتا ہے ۔۔۔’’وفاق اور صوبے کی اتھارٹی میں باقاعدہ قانون سازی سے وجود میں آنے والے ایکٹ کے ذریعے وسعت دی جاسکتی ہے جس کے ذریعے وفاقی یا صوبائی حکومت کسی جائیداد کی فروخت، حصول ، نیلامی یا عطا کی مجاز ہوگی ہے ۔۔۔‘‘ آرٹیکل 173(5) کہتا ہے ۔۔۔’’ وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کی طرف سے زمین کا انتقال قانون کے مطابق ہوگا۔‘‘لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے سیکشنز 16 اور 17 کہتے ہیں کہ عوامی استعمال یا کسی کمپنی کے استعمال کے لئے حاصل کردہ تمام زمین حکومت کے اختیارمیں ہوگی۔ زمین کے کسی کمپنی کے نام انتقال کا ایک طریق ِ کار وضع کیا گیا ہے (جو حکومت اور کمپنی کے درمیان ایک معاہدے کی صورت لکھا جاتا ہے)، لیکن قانون کے ذریعے زمین کو افراد کی نجی تحویل میں نہیں دیا جاسکتا ۔ سی ڈی اے آرڈیننس زمین کے حصول کی نگرانی کرتا ہے ۔ لینڈ ڈسپوزل ریگولیشنز 2005 اور سیکشن 49 زمین کی شفاف فروخت اور استعمال پر نظر رکھتے ہیں۔
تیسرا، نہ تو کابینہ اور نہ ہی وزیر ِاعظم کے پاس ریاست کی زمین فروخت کرنے کا اختیار موجود ہے ، کیونکہ یہ زمین پاکستان کے عوام کا مشترکہ اثاثہ ہے ۔ اس طے شدہ اصول کا بہترین مظاہرہ ’’وی پونن تھامس بنام کیرالہ ریاست ‘‘ کیس میں دیکھنے میں آیا ۔’’حکومت عوام جتنے اختیارات نہیں رکھتی کہ اپنی مرضی سے جسے چاہے وسائل سے نواز دے ۔ جو بھی سرگرمی ہو، حکومت ، حکومت ہے اور یہ جمہوری نظام کی حدود میں ہی فعالیت رکھتی ہے ۔ ایک جمہوری حکومت افراد سے ڈیل کرتے ہوئے اپنی مرضی کا معیار طے نہیں کرسکتی ۔‘‘
چوتھا، FGEHFاسکیم (یا کوئی اورا سکیم جو صوبے یا مقتدر ادارے چلارہے ہوں اور ان کے لئے نجی اراضی کو مارکیٹ سے کم نرخوں پر حاصل کیا گیا ہو)عوامی مفاد کا مقصد نہیں رکھتی۔ یہ ایسی اسکیم نہیں جس کا مقصد بے گھر افراد کو گھر فراہم کرنا ہے ۔ یہ ایک طرح کی ڈکیتی ہے جس کے ذریعے طاقتور افراد لاچار خاندانوں سے زمین چھینتے ہیں، پھر ریاست کے وسائل (جو عوام کی ملکیت ہوتے ہیں) استعمال کرتے ہوئے اس زمین کو ڈویلپ کیا جاتا ہے اور پھر نجی جائیداد کے طور پر بااختیار افراد کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ ان میں سے اکثر افراد اس جائیداد کو فروخت کرکے بھاری رقوم کماتے ہیں۔
اپنے تاریخ ساز فیصلے میں جسٹس اطہر من اﷲ لکھتے ہیں۔۔۔’’یہ نجی طور پر مالی فوائد حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے ۔ یہ اسکیم کسی طور بے گھر اور ضرورت مند شہریوں کی فلاح کے لئے نہیں ۔ ایک شخص ہوسکتا ہے کہ اسلام آباد کی حدود میں کئی ایک جائیداد کا مالک ہو، یا بھاری بھرکم تنخواہ وصول کررہا ہو، لیکن پھر بھی وہ عوام سے چھینی گئی اس زمین کا حقدار قرار پاتا ہے ۔ عوام کو نقصان پہنچانے اور چند استحقاق یافتہ افراد کو نوازنے سے یقیناََکوئی عوامی مقصد پور ا نہیں ہوتا۔ ‘‘
چنانچہ جب ریاست لوٹ مار شروع کردے تو شہری کیا کریں؟ جسٹس من اﷲ نے مفادات کے ٹکرائو کو واضح کردیا ہے جو اس حکومت کی ساکھ مجروح کررہے ہیں۔ افسران اسکیمیں بناتے ہیں ، اور خود ہی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جن جج حضرات نے اس لوٹ مار پر نظر رکھنی ہوتی ہے، اُن میں سے بھی بعض اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جن صحافیوں نے ایسے معاملات کو منظرعام پر لانا تھا، وہ بھی اسی قطار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں، او ر اسی طرح وکلا بھی ، جن کے بارے میں فرض کیا جاتا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کے لئے لڑتے ہیں۔
اس پر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ یہ بزنس بہت دیر سے چل رہا ہے ، اور اس کا تسلسل اسے جواز فراہم کرتا ہے ۔ اس پر جسٹس من اﷲ لکھتے ہیں۔۔۔’’دلیل یہ دی گئی ہے کہ گزشتہ 70 برسوں سے ایسی رہائشی اسکیموں کا سلسلہ چل رہا ہے ، اور کبھی کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا ۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک غیر قانونی حرکت، جو پاکستان کے عوام کے بنیادی مفاد کو نقصان پہنچا رہی تھی ، سے نہ اغماض برتاجاسکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ ‘‘اس کے بعد وہ ایک فرانسیسی اکنانو مسٹ، Fredric Bastiat کا حوالہ دیتے ہیں ۔۔۔’’ جب لوٹ مار کسی معاشرے کے افراد کی زندگی کاایک حصہ بن جائے تو وہ کچھ عرصے بعد ایسی قانون سازی کرلیتے ہیں جس میں چوری کو جائزقرار دے دیا جاتا ہے اور اس کے لئے اخلاقی جواز بھی نکل آتا ہے ۔ ‘‘
ایک مرتبہ سابق چیف جسٹس، جواد خواجہ نے ایک گفتگو کے دوران ذکر کیا کہ جب وہ چیف جسٹس کے عہدے پر فائر ہوئے تو رجسٹرار نے اُنہیں اپنے لئے ایک پلاٹ الاٹ کرانے کی درخواست دی ۔ جسٹس خواجہ نے دریافت کیا کہ کیا صدارتی آرڈر ججوں کو پلاٹ کا حقدار قرار دیتا ہے تو اُنہیں بتایا گیا کہ ایسا نہیں ہے ۔ اس پر خواجہ صاحب نے پوچھا کہ پھر اُن کے سامنے یہ درخواست کیوں لائی گئی ہے جب اُنھوں نے پلاٹ حاصل کرنے کا کہا بھی نہیں ۔ اس پر اُنہیں بتایا گیا کہ یہ ایک ’’معمول ‘‘ کی بات ہے کہ جج حضرات پلاٹ لیتے ہیں۔ اس پر جسٹس خواجہ نے درخواست اٹھا کر ایک طرف پھینک دی ۔
یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ سرکاری ملازمین اور افسران کی ملازمت میں پلاٹ کی فراہمی کی شرط موجود نہیں ہوتی۔ اسی طرح ریاست پر وکلا اور صحافیوں کو مارکیٹ کی قیمت سے نصف پر پلاٹ فراہم کرنے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ لیکن مجال ہے اگر پلاٹ وصول کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والوں کی پیشانی عرق آلود ہو۔ اس پس ِ منظر میں جسٹس اطہر من اﷲ کا فیصلہ امید کی ایک کرن ہے۔

تازہ ترین