• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب سے تقریباً 7برس قبل قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجرا اور بعد میں آئین میں18ویں ترمیم کے بعد سے صوبوں کے مالی وسائل اور اختیارات میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم و صحت بشمول خدمات پر ٹیکس جیسے شعبے بھی صوبوں کے دائرہ اختیار میں آ گئے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ ان 7برسوں میں بھی معیشت کی مجموعی کارکردگی مایوس کن ہی رہی ہے۔ گزشتہ 4برسوں میں بھی بیشتر اہم ترین معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے۔ یہ بات بہرحال حیران کن ہے کہ 7برس کا عرصہ گزر نے کے باوجود اس حقیقت کا عمومی طور پر ادراک نہیں کیا جا رہا کہ معیشت کی زبوں حالی میں وفاق کے ساتھ چاروں صوبوں کا بھی کردار ہے۔ چاروں صوبوں کے مجموعی وسائل اور مجموعی اخراجات کے ضمن میں چند حقائق نذر قارئین ہیں۔
1۔ ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ سے پہلے مالی سال2009-10میں وفاق کے مجموعی محاصل میں سے چاروں صوبوں کو مجموعی طور پر صرف633ارب روپے ملے تھے جبکہ مالی سال2016-17میں وفاق نے چاروں صوبوں کو مجموعی طور پر 1965ارب روپے دیئے۔ یعنی صوبوں کو صرف گزشتہ مالی سال میں1332ارب روپے کی اضافی رقوم ملیں۔
2۔ صوبوں نے عوام پر مزید بوجھ ڈالتے ہوئے عوام پر خدمات کے شعبے میں جنرل سیلز ٹیکس تو ضرور عائد کیا مگر صوبوں کے طاقتور طبقوں کو موثر طور سے ٹیکس کے دائرے میں لانے سے قطعی اجتناب برتا۔ چاروں صوبوں نے بہرحال عوام کو نچوڑکر ہی صحیح اپنے محاصل میں اضافہ کیا جو مالی سال 2010کے123ارب روپے کے مقابلے میںمالی سال 2017میں401ارب روپے تک پہنچ گئے۔
3۔ مندرجہ بالا دونوں اقدامات کے نتیجے میں مالی سال2010کے مقابلے میں2017میں صوبوں کے مجموعی وسائل میں 1610ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
4۔ چاروں صوبوں نے غیر منقولہ جائیدادوں کے ڈی سیٹ ریٹ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے سے اجتناب کیا ہے کیونکہ اس سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ وفاق نے عملاً چاروں صوبوں کے تعاون سے جائیدادوں کی خریداری کے لئے کچھ شرائط پر کالے دھن کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ اس سے ایک سال سے بھی کم مدت میں قومی خزانے کو 130ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ یہ امر یقیناً افسوسناک ہے کہ ایک طرف پاناما لیکس کا ہر وقت چرچا رہتا ہےجبکہ دوسری طرف نہ صرف ’’ملکی پاناماز‘‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے بلکہ ’’نئے ملکی پاناماز‘‘بنانے کے لئے قومی خزانے کو سینکڑوں ارب روپے کے نقصانات پہنچا کر صوبوں کے عملی تعاون سے قانونی گنجائش پیدا کی گئ ہے پھر بھی سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی کاکوئی اعتراض سامنے نہیں آرہا ۔ موجودہ حکومت کے دور میں وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ کے دستخطوں سے19اگست 2013کو آئی ایم ایف کو ایک خط میں یقین دہائی کرائی گئی تھی کہ 3برسوں تک بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جاتا رہے گا جس کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری ایک حالیہ اجلاس میں حاصل کر لی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو بھی معلوم ہے کہ ایسی کوئی منظوری حاصل نہیں کی گئی مگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی گزشتہ 4برسوں سے اس معاملے پر خاموش ہیں کیونکہ اعتراض کی صورت میں انہیں زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر پر موثر طور سے ٹیکس عائد کرنا پڑتا۔ان گزارشات کی روشنی میںہم سمجھتےہیں کہ 2018کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی جماعتیں بھی معیشت میں پائیدار بہتری کے لئے معاشی پالیسیوں میں کوئی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں نہیں لا سکیں گی۔
5۔ 7ویں قومی مالیاتی ایوارڈ سے قبل مالی سال2010میں صوبوں نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں 653ارب روپے خرچ کئے تھے جبکہ مالی سال 2017 میں اس مد میں1681ارب روپے خرچ کئے گئے یعنی چاروں صوبوں نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں 2010 کے مقابلے میں2017 میں1028ارب روپے کی اضافی رقوم خرچ کیں۔ اسی طرح سماجی شعبے کی مد میں خرچ کی جانے والی رقوم میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ مالی سال2010میں چاروں صوبوں کے مجموعی اخراجات کا حجم942ارب روپے تھا جبکہ اضافی مالی وسائل کی وجہ سے مالی سال2017میں صوبوں کے مجموعی اخراجات کا حجم بڑھ کر 2591ارب روپے ہو گیا جو کہ 2017میں 1650ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بات بہرحال پریشان کن ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی سمیت مختلف شعبوں میں قابل ذکر بہتری نظر نہیں آ رہی یہ صورت حال وفاق اور صوبوں میں بد انتظامی ،نااہلی اور کرپشن کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔
وفاق اور صوبوں میں تین بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہیں یعنی مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف، تعلیم اور صحت کے شعبے صوبوں کے دائرہ اختیارات میں آتے ہیں۔ ان شعبوں میں چاروں صوبوں نے جو رقوم مختص کی ہیں وہ مایوس کن حد تک کم ہیں۔مثلاً
1۔ پیپلز پارٹی کے دور میں متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009کے مطابق 2015تک تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کے تناسب سے 7 فیصد رقوم مختص کی جانا تھیں جبکہ اسی پارٹی کے دور میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ 2012تک صحت کی مد میں 4فیصد مختص کئے جائیں گے۔ یعنی 2015سے ان دونوں شعبوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے مجموعی طور پر 11فیصد ،یہ صرف اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 20فیصد رکھا جائے جبکہ 2015میں یہ تناسب ہی11فیصد تھا۔
2۔ موجودہ حکومت کے دور میں جاری کردہ پہلے اکنامک سروے میں کہا گیا تھا، کہ صوبوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2015تک تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کا 7فیصد مختص کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں صحت کی مد میں 2فیصد مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا یعنی تعلیم و صحت کے شعبوں میں مجموعی طور سے جی ڈی پی کے تناسب سے 9فیصد جبکہ موجودہ تناسب صرف تقریباً 3فیصد ہے۔
3۔ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں 2018تک تعلیم اور صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.6فیصد مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جسے پورا کرنے کی کوشش نظر ہی نہیں آئی۔
وطن عزیز میں تعلیم کا شعبہ نہ صرف زبوں حالی کا شکار ہے بلکہ دہشت گردوں کے نشانے پر بھی ہے۔ گزشتہ 4برسوں میں چاروں صوبوںنے صرف تعلیم کی مد میں قومی تعلیمی پالیسی 2009کے مطابق تقریباً چار ہزار ارب روپے کم مختص کئے ہیں۔ کچھ اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں بھی مالی و انٹلیکچوئل کرپشن بہت زیادہ ہے۔ اب یہ ازحد ضروری ہے کہ پبلک سیکٹریونیورسٹیوں میں چانسلر صاحبان سربراہ مملکت یا صوبے کے سربراہ کے بجائے صرف ماہرین تعلیم ہوں۔ یہ بھی اب ناگزیر ہو گیا ہے کہ یونیورسٹیوں کی سینڈیکیٹ اور سینیٹ کے ممبران کی نامزدگیاں اور وائس چانسلرز کی تقرریاں میرٹ پر کرنے کے لئے شفاف طریقہ کار وضع کیا جائے اور اس پر لازماً عمل کیا جائے۔ہم نے اپنے 20اکتوبر 2017کے کالم میں معیشت کو سنبھالا دینے، عوام کی حالت بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ جیتنےکے لئے 8نکات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔ گزشتہ چند ماہ سے ملک میں میثاق معیشت کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نکات کے ضمن میں پارلیمنٹ اور چاروں صوبے قانون سازی کریں۔

تازہ ترین