کسی کے لئے کچھ بھی ہو لیکن تحریک انصاف سے پیار کرنے والوں کے لئے خیبرپختونخوا ان کے خوابوں کی تعبیر ہے جنہوں نے اس صوبے میں کبھی قدم نہیں رکھا ان کے لئے تویہ علاقہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں اور انہوں نے یہ سب کچھ تصور میں ہی فرض کرلیا ہے کہ یہاں سب کچھ بدل چکا ہے۔ یقیناً ان کا خیال بھی ٹھیک ہوگا لیکن پارٹی کے جو کارکن اس صوبے میں رہتے ہیں ان کا خیال ان دور رہنے والوں سے ذرا مختلف ہے جو اپنی نجی اور سیاسی محفلوں میں اس پر کھل کر بات کرتے ہیں کہ شاید ان کی صوبائی حکومت اب نہیں تو مستقبل قریب میں صوبے میں ایسے بڑے بڑے کام کرے گی جنہیں وہ مثال کے طور پر پیش کرسکے۔ اسے کرپشن کے بغیر صوبائی حکومت کے معاملات چلانے ہیں، سیاست سے پولیس کو دور کرنا ہے اور ایک کامیاب بلدیاتی نظام نافذ کرنا ہے۔ یوں صوبے میں رہنے والوں اور باہر سے اسے دیکھنے والوں کی سوچ میں ایک واضح فرق ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں تحریک انصاف نے این اے چار کا ضمنی انتخاب جیت لیا ہے یقیناً اس کے لئے ایک بڑی فتح ہے کیونکہ اگر وہ ہار جاتے تو اگلے سال عام انتخابات میں ان کی کارکردگی اور مورال پر منفی اثرات پڑتے۔ اس لئے یہ الیکشن جیتنا ان کے لئے ہرصورت ضروری تھا جس کے لئے انہوں نے مناسب منصوبہ بندی کی۔ نہ صرف نوجوانوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ درج کرائے بلکہ یہ نشست جیتنے کے لئے روایات سے ہٹ کر کام کیا۔ تحریک انصاف نے ان انتخابات سے یہ ثابت کیا کہ اس کا کارکن اب بھی پارٹی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور چھوٹی بڑی شکایتوں کے باوجود وہ پارٹی سے دور نہیں ہوا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کے مخالفین خصوصاً مسلم لیگ ن اور اے این پی تحریک انصاف پردھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں لیکن ماضی کے برعکس انتخابات کے دن کوئی بڑی دھاندلی ہوتے ہوئے نہیں پکڑی گئی۔ ہاں اس الزام میں وزن ہے کہ بعض مقامات پر گنتی سے پہلے سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو نکالا گیا جس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ لیکن یہ انتخابات دھاندلی زدہ کیسے ہوسکتے ہیں جس کی نگرانی الیکشن کمیشن کا پورا عملہ اور فوج براہ راست کر رہے تھے جبکہ پاکستان میں انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والے بہت سے ادارے بھی اس کی مانیٹرنگ کررہے تھے۔ میرا خیال ہے اب الیکشن کمیشن کو اپنے نظام میں شفافیت اور غیرجانبداری ثابت کرنے کے لئے کچھ زیادہ کرنا پڑے گا کیونکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بعد اب مسلم لیگ ن کی زبان پر بھی اس کا نام آگیا ہے۔ تحریک انصاف کے مخالفین کہتے ہیں کہ تحریک انصاف نے سیاست میں وہ سارے کام شروع کردئیے ہیں جن پر وہ دیگر جماعتوں کو مورد الزام ٹھہراتی رہی ہے لیکن جو بھی ہو تحریک انصاف نے این اے چار کا ضمنی انتخاب جیت کر یہ ثابت کیا ہے کہ اب کوئی اس صوبے میں اس کے علاوہ انتخاب جیت ہی نہیں سکتا، دیکھا جائے تو یہ ہے بھی حقیقت کہ مستقبل قریب میں بھی ایسے کوئی آثار نظر نہیں آرہے کہ کوئی اپوزیشن جماعت اکیلے مقابلہ کرتے ہوئے اسے چت کرسکے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کچھ اپوزیشن جماعتیں اگر اتحاد بھی کرلیں تو بھی شاید وہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کو اسکرین سے آوٹ نہ کرسکیں اس کی وجہ ان جماعتوں کے اپنے اندر کی شکست و ریخت اور تحریک انصاف کا اپنی جگہ پر قائم رہنا ہے۔ ان جماعتوں کے بہت سے اہم رہنما آج کل گلے میں تحریک انصاف کا جھنڈا ڈال کر محافل میں آنے کو فخر اور آئندہ الیکشن میں اپنی جیت کی گارنٹی سمجھتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ اب تک جس گھر پر این اے چار میں اے این پی کا جھنڈا لہراتا تھا اب وہاں اسی گھر پر یعنی ارباب عامر ایوب کے گھر تحریک انصاف کا جھنڈا لگا ہوا ہے۔ ارباب عامر تحریک انصاف کا نظریاتی کارکن نہیں ہے بس ان کی ایک ہی کوالیفیکیشن تھی کہ وہ الیکشن جیتنے کے لئے تمام وسائل رکھتے تھے، اگر آج کی مروجہ سیاست میں سیٹ نکال لینا یہی کامیابی ہے تو اس حد تک تو تحریک انصاف سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ پشاور میں قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر تحریک انصاف کے جو امیدوار اگلے انتخابات لڑیں گے ان میں سے کوئی بھی وہ نہیں ہوگا جو پارٹی میں جدوجہد کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہے۔ اس صورتحال نے پارٹی میں ان لوگوں کو تو ضرور پریشان کردیا ہے جوا ٓئندہ انتخابات میں اپنے آپ کو پارٹی کے امیدوار کے طور پر متعارف کراچکے تھے لیکن پارٹی کم ازکم قومی اسمبلی کی نشستیں لینے میں کامیاب ہو ہی جائے گی۔ رہی این اے چار میں مسلم لیگ ن اور اے این پی تو ان پر زیادہ تبصرہ کرنا اس لئے بھی مناسب نہیں کہ وہ الیکشن ہار کر کچھ وقت کے لئے میدان سے آوٹ ہوچکے ہیں لیکن تحریک انصاف نے ان کو جس مارجن سے یہ الیکشن ہرایا ہے اس کے بعد ان کے پاس کوئی اتنا مضبوط جواز نہیں رہا ہے کہ وہ کہہ سکیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ اگر وہ سرکاری وسائل کے استعمال کا الزام لگاتے ہیں کہ تحریک انصاف نے کاشتکاروں کو اس الیکشن کے لئے اس نہر میں پانی چھوڑنے کا منصوبہ دیا جس سے ان کی زیادہ تر زمینیں سیراب ہوتی ہیں یا ٹیوب ویلوں کو اس الیکشن کے لئے شمسی توانائی پر لے گئے اور مذہبی بنیادوں پر ووٹ لینے کے لئے مساجد کی بجلی کو شمسی توانائی پر کردیا تو یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن نے بھی علاقے میں ٹرانسفارمر تقسیم کئے، گیس کے کنکشن لگا کردیئے۔ میرا خیال ہے سرکاری وسائل کے استعمال کی بات اب پرانی ہوگئی ہے اس لئے کہ اب کون سا ایسا حربہ ہے جو ان سب جماعتوں نے نہیں آزمایا۔ بات اختیار کی ہے، جب اختیار ہو تو سب کرتے ہیں۔