• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احمد نورانی کیساتھ پہلا تعارف بیجنگ میں ہوا۔ اور یہ تعارف حسیب بن عزیز کے ذریعے ہوا جو ایک خوبصورت انسان، سلجھا ہوا سفارتکار، اور شفیق سینئر تھا۔ ویسے تو حسیب کو سیاست اورصحافت سے واجبی سے واسطہ تھا، لیکن انگریزی اخبار باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ ایک روز گپ شپ میں جانے کہاں سے احمد نورانی نامی ایک نوجوان صحافی کا ذکر چھڑ گیا جس نے ایک سینئر صحافی کو سرکاری پلاٹ الاٹ کروانے کے بارے میں کال کی اور جواب میں ایسی صلواتیں سننا پڑیں جو بازاری پنجابی محاوروں سے اچھی خاصی واقفیت رکھنے والے میرے جیسے جٹ بوٹ کو بڑی مزیدار لگیں۔ خود ایک صحافی ہوتے ہوئے صحافیوں کو سرکاری پلاٹوں کی الاٹمنٹ پر تنقیدی اسٹوری کا آئیڈیا کچھ غیر معمولی سا لگا، سواحمد نورانی کا نام ذہن میں رہ گیا۔ پھر روزنامہ جنگ میں اسکی اسٹوریز باقاعدگی سے پڑھتا رہا جس میں مجھے پروفیشنلزم کے ساتھ ساتھ جذبہ حب الوطنی، اشرافیہ کی غلط کاریوں کو بے نقاب کرنے کی جرات، معاشرے اور ملکی سیاست میں بہتری کی کوشش اور سب سے بڑھ کر آئین، جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی جستجو نظر آتی۔
بیجنگ سے واپسی اور سفارتکاری سے علیحدگی قریب قریب ایک ساتھ ہوئی تو لکھنے کا شوق چرانے لگا۔ شوق تو تھا لیکن لکھنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ خدا کا شکر کہ ابتدائی کوششیں ہی کامیاب ہوئیں اور کالم مختلف اخباروں میں چھپنا شروع ہو گیا۔ لیکن قومی سطح پر جگہ بنانا آسان نہیں تھا۔ اسی حوالےسے تگ و دو کے دوران ایک دفعہ دی نیوز کے انوسٹیگیشن سیل میں جانا ہوا تو وہاں پہلی دفعہ احمد نورانی سے اتفاقی ملاقات ہوئی۔ تو یہ ہے احمد نورانی! اسے دیکھ کر مجھے خیال آیا۔ اتنا بڑا تحقیقاتی رپورٹر لیکن اتنا سادہ لباس اور سادہ طبیعت، اس سے مل کر اپنائیت کا احساس ہوا۔ میں سات سالہ بیوروکریسی سے وابستگی کے دور میں دیکھ چکا تھا کہ کتنے بڑے بڑے عہدوں پر کتنے چھوٹے چھوٹے لوگ براجمان ہیں۔ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے یہ چھوٹے لوگ اپنے اندر کی کمزوریوں اور کردار کی خامیوں کو چھپانے کیلئےظاہری شان و شوکت، ٹھاٹھ باٹھ، سرکاری وسائل کی لوٹ مار، اختیارات کا ناجائز استعمال اور جانے کون کونسی خرافات میں مبتلا رہتے ہیں۔ میرا ایسے لوگوں کی صحبت میں دم گھٹتا تھا۔ ایسے میں اتنی بڑی خبریں دینے والا، اشرافیہ کو بے نقاب کرنے والا اتنا بڑا نام اور یہ سادگی ۔یہ اسکے کردار کی مضبوطی کی عکاسی کر رہی تھی۔ جب سے سوشل میڈیا جوائن کیا تو اسکو فالو کرنا شروع کیا۔ سوشل میڈیا پر اسکے ایکٹوزم کو اگر ایک فقرے میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف اشرافیہ خواہ کوئی بھی ہوں، کو بے نقاب کرنے پر بضد رہتا ہے بلکہ وہ ان سے خوفزدہ ہونے سے انکاری ہے۔ وہ ایسی بات کہنے کی جرات رکھتا ہے جو لاکھوں پاکستانی کہنا تو چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے۔ اسی وجہ سے اس کی آواز خاموش کرانے کا خدشہ ہمیشہ سے ہی موجود تھا لیکن چند روز پہلے جس طریقے سے اسکو نشانہ بنایا گیا اور اسکے بعد جس طرح اسکی کردار کشی کی کوشش کی گئی اس سے دلی دکھ ہوا ہے۔ لیکن جس بہادری سے اس نے اس ساری صورتحال کا سامنا کیا ہے اور جس طرح ہر وہ اہم پاکستانی جسکی کوئی ساکھ ہے اسکی سپورٹ میں سامنے آیا ہے، دل کو ایک اطمینان ہو چلا ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
کچھ اسی طرح کا احساس ایک دوسری خبر سے بھی ہوا اور وہ خبر یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس اطہر من اللہ کے قلم سے لکھا ہوا ایک بہت بڑا فیصلہ سامنے آیا جس میں شہریوں کی آبائی زمینوں کو زبردستی لے کر ہائوسنگ فائونڈیشن کے ذریعے سرکاری افسران میں پلاٹ بانٹنے کے سارے عمل کا آئینی اور قانونی بنیادوں پر جائزہ لیکر اسکو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کی قانونی بنیاد کافی مضبوط ہے اور اسکے قانونی پہلوئوں پرپہلے ہی میرے ایک پسندیدہ کالم نگار بہترین قانونی تجزیہ پیش کر چکے ہیں۔ اس سارے عمل کا اخلاقی جواز قانونی جواز سے بھی بودہ ہے۔ آج کی بات نہیں ہے، انسانوں کی ہزاروں سال کی تاریخ انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال سے بھری پڑی ہے۔ حضرت انسان کی عجیب خصلت ہے کہ اسکے پاس اختیار اور اقتدار آ جائے تو یہ اسکا غلط استعمال کرنے پر آمادہ ہو ہی جاتا ہے۔ ہر دور اور ہر ملک کی اشرافیہ کا یہی چلن رہا ہے۔ اگر اشرافیہ کے اختیار اور اقتدار کے غلط استعمال کے سامنے معزز جج جسٹس اطہر من اللہ کے حالیہ فیصلے اور احمد نورانی کی اسٹوریز اور سوشل میڈیا ایکٹوزم جیسی رکاوٹیں کھڑی نہ ہوں تو نجانے یہ کروڑوں کمزور اور بے سہارا شہریوں کا کیا حال کر دے۔
بات احمد نورانی کی صحافیوں کو ملنے والی سرکاری پلاٹوں کی اسٹوری سے شروع ہوکر اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے مختلف بالا دست طبقات کو سرکاری پلاٹوں کی الاٹمنٹ کو مسترد کرنے کے فیصلے تک پہنچ گئی۔ اس ساری کہانی میں حوصلہ افزا بات خود احتسابی کی جھلک ہے جو ایک بہت بڑی اخلاقی خوبی ہے۔جب ایک صحافی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے برعکس ایک ایسی خبر دے رہا ہے جس میں وہ اپنی ہی صحافی برادری کو ملنے والی غیر اخلاقی مراعات کو چیلنج کر رہا ہے اور ایک منصف خود پلاٹ لینے کی بجائے ایک ایسا فیصلہ دے رہا ہے جس میں نہ صرف بیوروکریسی کو ملنے والی غیر اخلاقی مراعات کو چیلنج کیا جا رہا ہے بلکہ خود منصفوں کو ملنے والے پلاٹ بھی اسکی زد میں آ رہے ہیں۔ ایک تو ایسے بھی صاحب کا نام سامنے آرہا ہے جنہوں نے نہ صرف ڈی بارہ میں پلاٹ لیا، فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ میں پلاٹ لیا اور پھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سوسائٹی میں بھی ہاتھ صاف کیا۔ کیوں؟ آخر کیوں ریاست بڑے بڑے افسروں، ججوں، جرنیلوں، وکیلوں اور صحافیوں کو غریب شہریوں کی زمینوں پر زبردستی قبضے کر کے پلاٹ لے کر دے؟ پلاٹ دینے ہی ہیں تو ریاست کو معاشرے کے سب سے پسے ہوئے طبقات کو پلاٹ دینے چاہئیں نہ کہ سب سے بالا دست طبقات کو۔
جب ہر طرف سے اسکینڈل سامنے آ رہے ہیں، جب ہر طرف ایک آگ لگی ہے، جمہوریت پر پے در پے حملے ہو رہے ہیں۔ شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ طاقتور کا ہاتھ روکنے کا کوئی وسیلہ میسر نہیں ہے اور بے کسوں اور بے سہاروں پر ہونے والے ظلم و ستم کو روکنے کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، تو احمد نورانی کی اسٹوریز اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے سے پھر امید کی کرن روشن ہو جاتی ہے کہ شاید ہم ابھی تک مکمل طور پر مرے نہیں، ہم ابھی بھی ایک زندہ قوم ہیں۔

تازہ ترین