• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچی بات تو یہ ہے کہ عرصے سے سماجی، تاریخی، سائنسی اور اسی طرح کے دیگر بہت سے موضوعات پر لکھنا چاہتا ہوں لیکن مجبوراً سیاسی موضوع پر لکھنا پڑتا ہے کیونکہ سیاسی موضوعات کا کمبل ہے کہ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اگر تو سیاستدان سیاست کر رہے ہوں اور اچھے بُرے جیسے بھی فیصلے بہتر سمجھیں، کر رہے ہوں تو شاید میں سیاسی موضوع پر کبھی بھی نہ لکھوں کیونکہ ہمارے معاشرے کی تعمیر کا کام ابھی تک ادھورا ہے۔ جہالت اپنا پھن پھیلائے کھڑی ہے۔ سادہ لوح عوام کا معاشی، معاشرتی، مذہبی اور علمی استحصال عروج پر ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ عمومی طور پر ایک ناسور بن چکا ہے جس نے تعلیم کو انسانیت کی خدمت، معاشرتی انصاف کے فروغ، صلح جوئی اور کثیر الجہتی معاشرے کی تعمیر کی بجائے کمزور اور مظلوم عوام کے استحصال کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ لیکن ہماری سیاست کا المیہ یہ بن چکا ہے کہ سیاستدانوں کے علاوہ ہر کسی کو سیاست کرنے کا شوق چراتا رہتا ہے۔ کسی نے سرکاری عہدے اور اسکے ساتھ منسلک بے پناہ اختیارات اور مراعات کو سیاست کرنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے تو کسی نے مذہب کو سیاسی مفادات میں ڈھالنے کا نسخہ ایجاد کیا ہوا ہے۔ کسی نے صحافت کے قلم اور کیمرے کو حکومت بنانے، چلانے اور حصہ وصول کرنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور کسی اپنے منصب کے ذریعے سیاست کا شغل فرمانے اور اپنے سیاسی نظریات تھوپنے کی دھن سوار ہے۔ غرض، سیاستدانوں کے علاوہ ہر کوئی سیاست فرما رہا ہے۔ جسکی وجہ سے پچھلے ستر سالوں سے سیاسی تنازعات طے نہیں ہو پائے ہیں۔ ہر وقت سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا بازار گرم رہتا ہے۔ زیادہ تر یہ تماشہ پسِ پردہ کھیلا جاتا ہے لیکن جب کبھی کوئی جاہ طلب اہم عہدے پر فائز ہو جاتا ہے، یا پھر عوامی مسائل کی لوٹ مار اور بندر بانٹ پر جھگڑا ہو جاتا ہے ، یا پھر مستقبل کے نظامِ حکومت میں اپنے مہرے داخل کرنے کا راستہ کھلتا ہے (جیسا کہ عام انتخابات یا سینیٹ کے انتخابات) تو یہ تماشہ سرِ بازار لگ جاتا ہے۔ اس وقت ہمیں کچھ اسی قسم کے حالات کا سامنا ہے سو سیاسی ہیجان اس قدر شدت سے برپا ہے کہ فی الوقت سیاست کے علاوہ کسی اور موضوع پر لکھنے کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا۔
تو چلیں پھر پچھلے چند روز کی شہہ سرخیوں پر ایک نظر دوڑاتے ہیں:’’متحدہ اور پی ایس پی انتخابی اتحاد‘‘، ’’متحدہ پی ایس پی اتحاد 24گھنٹوں میں ختم‘‘، ’’ پی ایس پی اسٹیبلشمنٹ کی جماعت ہے‘‘، ’’ متحدہ کے کہنے پر اسٹیبلشمنٹ نے ملاقات کرائی‘‘، ’’عدلیہ آمروں کو تحفظ دیتی ہے، بھاگنے والے نہیں‘‘، ’’ججز کا بغض سامنے آ گیا‘‘، ’’مشرف کے زیر قیادت 23جماعتوں کا اتحاد‘‘، ’’اسٹیبلشمنٹ نے متحدہ اور پی ایس پی کو اکٹھا کرایا‘‘، ’’کھیل کھیلا جا رہا ہے، عمران کو کراچی میں لفٹ نہیں ملے گی‘‘، ’’غیرجمہوری جوڑ توڑ نہیں چلے گا‘‘، ’’سیاسی یکجہتی کے بغیر اگلے انتخابات نہیں دیکھ سکیں گے‘‘، ’’نواز شریف کی نااہلی کے باوجود حکومت مفلوج‘‘، ’’عمران سینیٹ کے انتخابات رکوانے کی سازش کر رہے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ان ساری خبروں کا لبِ لباب یہ ہے کہ یہ سوال ابھی تک طے نہیں پا سکا یہ اسے طے نہیں ہونے دیا گیا کہ ریاست پاکستان پر حاکمیت کا منبع عوام ہیں یا ڈنڈا۔ دوسرے لفظوں میں ریاستی امور چلانے، ریاستی پالیسیاں بنانے، اور ریاستی وسائل اور اختیارا ت سے مستفید ہونے کیلئے عوام اور ڈنڈے کے درمیان کشمکش شدید تر ہو چکی ہے۔ سیاسی محاذ پر دو دھڑے واضح طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ ایک دھڑا وہ ہے جسکے مفادات عوامی حکمرانی سے وابستہ ہیں جبکہ دوسرا دھڑا وہ ہے جسکے مفادات ڈنڈے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ دونوں دھڑے برسرِ پیکار ہیں۔ پہلے دھڑے میں عوامی مقبولیت رکھنے والے سیاستدان، جمہوریت پسند، بنیادی انسانی حقوق کو اہمیت دینے والے، آزادی صحافت اور آزادی اظہار پر یقین رکھنے والے، صوبائی اور لسانی اکائیوں کو حقوق دے کر متحد کرنے والے اور پڑوسیوں اور دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے خواہشمند لوگ شامل ہیں جبکہ دوسرے دھڑے میں کٹھ پُتلی سیاستدان، پراکسی اور پیرا شوٹ صحافی و اینکرز، طاقت کے زور پر عوامی امنگوں کا خون کرنے والے، غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر ریاستی وسائل، اختیارات اور مراعات پر قبضہ کرنے کے خواہشمند، ماضی میں ملک کو دولخت کرنے والے اور صوبائی اور لسانی اکائیوں کی شناخت کو بزور طاقت دبانے، انکے وسائل پر قبضہ کرنے اور حقوق کو پامال کرنے والے لوگ شامل ہیں ۔ سہولت کی خاطر ہم پہلے دھڑے کو جمہوریت پسند دھڑا اور دوسرے دھڑے کو غیر جمہوری دھڑا کہہ سکتے ہیں۔
لیکن ایک تیسرا دھڑا بھی ہے جو ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ انکے مفادات پہلے طبقے کے ساتھ اتحاد میں وابسطہ ہیں یا دوسرے دھڑے کے ساتھ۔ اسلئے یہ تیسرا دھڑا قلابازیاں لگاتا رہتا ہے۔ اسے اپنی شناخت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ یہ خود کو عوامی حاکمیت کے علمبردار کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے لیکن عملی طور پر غیر جمہوری دھڑے کے مالِ غنیمت میں سے حصہ بھی وصول کرنا چاہتا ہے۔
کسی ذی شعور انسان سے یہ توقع رکھنا کے وہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچائے گا، عبث ہے۔ اپنے مفادات کے تحفظ کا جذبہ براہ راست انسان کی بقا کی جبلت سے جڑا ہوا ہے۔ اسی جیسا ایک دوسرا آفاقی مظہر بھی ہے کہ انسان کے پاس دو راستے ہیں کہ یا تو وہ اپنے مفادات کو اچھائی سمجھنا شروع کر دے جیسا کہ غیر جمہوری دھڑا کررہا ہے یا پھر وہ اچھائی کے تصورات کے مطابق اپنے مفادات کو ڈھال لے جیسا کہ جمہوریت پسند دھڑا کرتا ہے۔ غیر جمہوری دھڑے کا اس وقت سب سے بڑا شوشہ ٹیکنو کریٹ حکومت یا صدارتی نظام کا ہے۔ ریاست پاکستان پر اپنا ستر سالہ قبضہ برقرار رکھنے کیلئے یہ دھڑا ایسی حکومت چاہتا ہے جو اسکے کنٹرول میں ہو، جو صرف اسے جوابدہ ہو۔ ایسا صرف تین صورتوں میں ہو سکتا ہے: مارشل لا حکومت، ٹیکنوکریٹ حکومت یا پھر صدارتی نظامِ حکومت۔ اس دھڑے کو رتی برابر بھی پرواہ نہیں کہ پاکستان ایک کثیر الجہتی معاشرہ ہے۔ یہاں مختلف شناختوں، ثقافتوں، زبانوں اور سوچوں کی اقوام صدیوں سے آباد ہیں۔ ماضی کی لوٹ مار اور جبر کی وجہ سے چھوٹی اکائیوں میں شدید احساسِ محرومی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ستر سال سے ریاست پر قابض اداروں میں ایک بڑے صوبے اور اس صوبے کے بھی وسطی اور بالائی حصے کے چند ضلعوں کی غالب اکثریت ہے جسکی وجہ سے پورے ملک کے اختیارات، دولت، وسائل ان چند ضلعوں میں مرتکز ہو چکے ہیں۔ ان زیادتیوں کی وجہ سے وفاق پہلے ہی حد درجہ کمزور ہو چکا ہے۔ ایسے میں ایک مضبوط پارلیمان اور اس میں بھی مضبوط اور با اختیار سینیٹ (جسمیں ساری اکائیوں کو برابر کی نمائندگی ہے) ہی واحد ذریعہ حکومت ہے جس پر 1973 میں پہلے ہی قومی اتفاقِ رائے ہو چکا ہے۔ اسلئے غیر جمہوری دھڑا اگر اپنے مفادات کو اچھائی کے ساتھ منسلک کرلے تو بہتر ہے ورنہ جو کچھ وہ کرنا چاہتا ہے اسکا نتیجہ سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔

تازہ ترین