• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں زبردست کمی اسٹیٹ بینک نے ایک حکمت عملی کے تحت ایک ایسے وقت ہونے دی ہے جب آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں موجود تھا۔ اسٹیٹ بینک نے 8 دسمبر 2017کے پریس ریلیز میں کہا ہے کہ جاری کھاتے کے خسارے کے بڑھنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے روپے کی قدر گری ہے۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ پاکستانی درآمدات تو 2016-17سے بڑھنا شروع ہوئی تھیں مگر برآمدات 2014-15سے تسلسل سے گرتی آرہی تھیں۔ برآمدات گرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ قرضہ لینے کے لئے پاکستان نے 19اگست2013کو آئی ایم ایف کی یہ تباہ کن شرط منظور کی تھی کہ تین برسوں تک بجلی وگیس کے نرخ بڑھائے جاتے رہیں گے۔ اس اضافے سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھنا بھی برآمدات میں کمی کا ایک سبب رہا ہے۔ بجلی وگیس کے نرخ بڑھاتے چلے جانے کو عملاً چاروں صوبوں کی حمایت حاصل تھی کیونکہ وہ بھی ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس عائد کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے یہ قرضہ بنیادی طور پر اس لئے حاصل کیا تھا کہ 26 ستمبر2008کو فرینڈر آف پاکستان گروپ کے ساتھ کئے گئے سودے کے تحت آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے کو واپس کیا جاسکے۔ ہم ان ہی کالموں میں کہتے رہے ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم دھوکہ تھا۔ اب یہ خدشہ نظر آرہا ہے کہ اگلی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد2013کے قرضے کی ناروا شرائط اور ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے نام پر ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے نئے قرضے کے حصول کے لئے دست سوال دراز کرے گی جو تباہ کن معاشی شرائط پر امریکہ کی سفارش سے ملے گا جو ’’مزید اور کرو‘‘ کے نام پر نت نئی سیاسی شرائط عائد کرے گا۔
اسٹیٹ بینک نے اپنے 8دسمبر 2017کی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ روپے کی قدر میں یہ کمی بیرونی کھاتے میں عدم توازن کو روکے گی۔ یہ سوچ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ موجودہ پالیسیوں کے تناظر میں روپے کی قدر میں حالیہ زبردست کمی کے باوجود بیرونی جاری کھاتے کے خسارے کو مزید بڑھنے سے روکا نہیں جاسکے گا البتہ اس کمی سے بیرونی قرضوں کا ملکی کرنسی میں حجم بڑھا ہے درآمدنی اشیا بشمول پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں، مہنگائی اور شرح سود میں اضافہ ہوگا جبکہ بجٹ خسارہ بھی بڑھے گا۔ اسٹیٹ بینک کے پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جولائی سے اکتوبر 2017کے 4ماہ میں برآمدات اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ ہوا مگر درآمدات میں مسلسل بھاری اضافے سے جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر سے رقوم نکلیں اور یہ دبائو برقرار ہیں چنانچہ روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت بحرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اس پریس ریلیز سے صرف تین روز قبل انٹر نیشنل بانڈز کی نیلامی سے اسٹیٹ بینک کو 2.5ارب ڈالر ملے چنانچہ 7دسمبر 2017کو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 5ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے تھے۔
مالی سال2015-16میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 22.6ارب ڈالر تھا جو2016-17میںبڑھ کر 32.5 ارب ڈالر ہوگیا۔ اسی مدت میں جاری کھاتے کا خسارہ 3.3ارب ڈالر سے بڑھ کر 12.1ارب ڈالر ہوگیا اکتوبر 2016سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی ہوناشروع ہوگئی تھی لیکن حکومت اور اسٹیٹ بینک نے صورت حال کی سنگینی کو عملاً نظر انداز ہی کیا۔ یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ اکتوبر2016سے نومبر 2017تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں6.2ارب ڈالر کی کمی ہوئی تھی مگر مئی2017سے نومبر2017کے6ماہ میں بینکوں کے بیرونی کرنسی کے ڈپازٹس بڑھنے سے بینکوں کے زرمبادلہ کے ذخائر میں1.3ارب ڈالر کا زبردست اضافہ ہوا جوکہ روپے کی قدر میں کمی کی توقعات کے پیش نظر سٹے بازی کے رحجان کا عکاس ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اب سے7ماہ قبل 5جولائی 2017کو انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ104.90سے بڑھ کر108.25روپے ہوگئی تھی۔ اسٹیٹ بینک نے اسی روز اپنے پالیسی بیان میں اس کمی کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ یہ نئی شرح مبادلہ معیشت کے معاشی اشاریوں سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اس کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے مصنوعی قرار دیا تھا۔ اس اعلان کے بعد اسٹیٹ بینک نے اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ کر کے روپے کی قدر میں جزوی بہتری کرادی۔ ’’روپے کی قدر میں کمی، پر اسراریت اور اعتماد کا فقدان‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ ’’اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ کے متضاد بیانات اور وزیر خزانہ کے سخت بیان کے فوراً بعد روپے کی قدر میں جزوی بہتری سے اس معاملے کی پر اسراریت میں اضافہ ہوگیا ہے، اسٹیٹ بینک کی ساکھ مجروح ہوئی ہے‘‘۔ ہم نے اس کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ ’’روپے کی قدر میں اچانک کمی کروا کر کچھ اداروں اور اشخاص نے خوب ناجائز فائدہ اٹھایا ہے (جنگ 13جولائی2017) یہ سلسلہ اب پھر شروع ہوگیا ہے۔
یہ بات حیرت سے پڑھی جائے گی کہ 8دسمبر 2017کو روپے کی قدر میں کمی کروانے سے صرف دوہفتے پہلے اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے 24 نومبر 2017کے پالیسی بیان میں کہا گیا تھا کہ برآمدات میں اضافے کی شرح میں بہتری آنے اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں واضح اضافے وغیرہ کی وجہ سے توازن ادائیگی کے خسارے کے دبائو کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی مگر صرف دو ہفتے کے اندر روپے کی قدر گرانے کے لئے اسٹیٹ بینک نے اپنا موقف تبدیل کرلیا۔ اس صورت حال کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک اور اس کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی ساکھ بھی مجروح ہوئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اکتوبر2016کے بعد جو اقدامات اٹھانا ضروری تھے ان میں چند یہ ہیں:
1۔ مانیٹری پالیسی کو زمینی حقائق اور حکومت کی مالیاتی پالیسی سے ہم آہنگ کرنا۔
2۔ اسٹیٹ بینک کا درآمدات کنٹرول کرنے اور شعبہ بینکاری میں بہتری کے لئے اصلاحات کرنا اور3۔ وفاق اور صوبوں کا معیشت کو بہتر بنانے، درآمدات کو کنٹرول کرنے (حکومتی شعبے میں) اور برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرنے کے لئے اسٹرکچرل اصلاحات کرنا۔
بدقسمتی سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کےتحفظ کے لئے یہ اقدامات نہ پہلے اٹھائے گئے اور نہ اب اٹھائے جارہے ہیں۔ یہی نہیں، پست سیاسی مفادات کے حصول کے لئے خصوصی طور پر گزشتہ چند ہفتوں میں سیاسی افراتفری اور احتجاجی کلچر کو فروغ دیا گیا ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ تمام متعلقہ فریق ملک کو خطرات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرتے ۔ اس صورت حال میں سٹے بازی سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھاپ کی طرح اڑ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے20 اکتوبر 2017کے کالم میں کہا تھا کہ اقتصادی دہشت گردی پر مبنی معاشی پالیسیوں کو خیرباد کہہ کر ہماری سفارشات کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔ اب ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اس سے قبل آل پارٹیز کا نفرنس بلاکر ان تجاویز کی منظوری حاصل کی جائے۔

تازہ ترین