(دوسری قسط)
ورنہ یہود و نصاریٰ کی طرح روایات میں الجھاؤ ہی ہوتا۔مزید فرماتے ہیں سچائی اور کذب کے درمیان ایک ہی حد فاصل ہے وہ ہے روایت کی سند ۔ اس کے سوا باقی سب شیطان کے وساوس ہیں۔حضرت سعید بن قطان ؒکہتے ہیں حدیث کو نہیں سند کو دیکھو اگر وہ صحیح ہے تو حدیث مان لو ورنہ رہنے دو (یہ تفصیلات مقدمہ صحیح مسلم ۔از ۱مام النووی، شرف اصحاب الحدیث از خطیب بغدادی ، منہاج السنۃ ج4۔ازامام ابن تیمیہ اور دیگر کتب اصول حدیث میں موجود ہیں )
(3) مروان نے قبۃ الصخراء کو مسجد کیوں بنایا ؟
صاف پتہ چلتا ہے کہ صخراء ( چٹان) کی کوئی خصوصیت نہ تھی صرف بے سرو پا روایات کے سہارے اسے اتنی عظمت دی گئی ۔جبکہ بنی اسرائیل اتنی زیادہ اہمیت دینے کے باوجود اس پر کوئی یادگار نہ بناسکے تھے ، بلکہ اسے کوڑا کرکٹ کی جگہ بننے سے بھی نہ روک سکے ۔اسلامی دور میں یہ چٹان دریافت کی گئی ۔اور ستر سال بعد اس جگہ کو مسجد بنایاگیا اوراس کی تعمیر کا بڑا اہتمام کیا گیا خالص سونے کا اس میں کام کیا گیا ۔ حالانکہ اگر اس چٹان کی کوئی اہمیت ہوتی تو سیدنا فاروق اعظم ؓ ضرور اس کا اہتمام کرتے ۔ انہوں نے تو یہاں دو نفل بھی نہیں پڑھے۔صرف چٹان کوگندگی سے صاف کرایااور بس ۔ موجودہ شکل بھی حضرت فاروق اعظم کی بنائی ہوئی نہیں ہے ۔بلکہ ستر سال بعد مروان بن عبدالملک کے دور میں اس جگہ کو خصوصی اہتمام کے ساتھ مسجد بنایاگیا …لیکن کیوں…؟اس کی تفصیل جب عربی کتابوں میں پڑھی تو میں حیران و ششدر ہوکر رہ گیا ۔ اور اس چٹان پر اس قبے کے اہتمام کی اصل وجہ سامنے آئی چونکہ کسی بھی سفر نامے میں اس کاذکر موجود نہیں ہے ۔ میں پورا ایک ماہ صرف کرکے اس مضمون کو ترتیب دے سکا ہوں ۔ دل و دماغ کی چپقلش نے مجھے بڑا حیران کیا ۔
مروان بن الحکم الاموی جسے سولہ سال کی عمر میں 26ھ میں شام کاگورنر بنایا گیاتھا ۔اور 86ھ تک اس عہدے پر فائز رہا ۔اس نے73ھ میں یہاں مسجد بنائی۔صخراء (چٹان) کو مسجد کی جگہ بنانے میں اتنی زیادہ دلچسپی کیوں لی ؟ تاریخ یعقوبی میں لکھا ہے کہ اس کی تعمیرپر سات سال تک مصرسے وصول شدہ ٹیکس خرچ کیا گیا اور اس کے علاوہ رومی بادشاہ نے بھی مسجد الصخرۃ بنانے کیلئے بڑا حصہ ڈالا(تاریخ یعقوبی 214) اس اہتمام کی وجہ علامہ ابن کثیر ؒ جیسے ثقہ مورخ نے البدایہ والنہایہ میں البدیہ ص( 3086)میں اور علامہ دمیری نے حیوٰۃ الحیوان (ص 63اور412 )میں ، اور ابن تغری بردی نے النجوم الزاھرۃ فی ملوک مصر والقاہرہ میں لکھا ہے کہ’’ اس دور میں مکہ مکرمہ پر حضرت عبد اللہبن زبیرؓ کی حکومت تھی۔ حج کے موقع پر وہ لوگوں کو بنو امیہ کے مظالم سے آگاہ کیا کرتے تھے ۔مروان نے سوچا کہ ابن زبیرؓ کے پروپیگنڈے سے لوگ متاثر ہوسکتے ہیں تو اس نے اہل شام کو( 64سے 72تک ) کو حج پر جانے سے روک دیا ۔جب لوگوں نے اس پابندی کو چیلنج کرنا شروع کردیا تو اس نے بیت المقدس میں موجود صخراء پرنظر التفات ڈالی اور اس چٹان کو خاص طور پر حج کے متبادل جگہ بنانے کیلئے ٹارگٹ کیا ۔ اور رجا بن حیوۃ اور یزید بن سلام جیسے چوٹی کے فن تعمیر کے ماہر لوگوں کو یروشلم بھیجا ۔ ان کے ساتھ کافی تعمیری مال و متاع حتی کہ کاریگر اور مزدور بھی بھیج دیے ۔ سات سال کی مسلسل محنت سے جب یہ قبہ تعمیر ہوگیا اہل شام کو یہاں حج کرنے اور حجر اسود کا متبادل باور کرانے کا حکم دیا ۔پھر عرض کررہاہوں کہ میں شاید اس روایت کو نظر انداز کردیتا اگر ابن کثیر جیسا ثقہ تاریخ نگار اس روایت کو تفصیل سے ذکر نہ کرتا ۔
The king built the dome on the rock and the al-Aqsa Mosque to occupy them from the Hajj and their hearts, and they stood at the rock and roamed around it as they toured the Kaaba.
So they opened their own heads, so he opened himself to the fact that the son of al-Zubayr was against him, and he used to curse him in Makkah. He said: "I do not have the right to do that." When King Abdullah wanted to build the house of Jerusalem, he turned to him with money and laborers. He took the work of Raja ibn Haywa and Yazid ibn Salam of his house. He collected the craftsmen from the country and sent them to the Holy City. He sent him with the great wealth of money. He ordered Raja ibn Haywa to increase the money. "(Al-Bidayah walnnihayah 3086
ان کے علاوہ ایک جہان یہی بات کہتا ہے کچھ کے نام میں نے اوپر ذکر کیے اور کچھ مزید ملاحظہ فرمائیں ۔ صبح الاعشی القلقشندی566المختصر فی اخبار البشر۔ ابو الفداء ص22)تاریخ مکہ المشرفہ والمسجد الحرام ابن الضیاء ص140۔الاعلاق الخطیرۃ فی ذکر الشام وا لجزیرۃ ابن شدادص (111) المسالک والممالک ابو عبید البکری125)
قبۃ الصخراء کی تزئین و آرائش کے مختلف مراحل
قبۃ الصخراء کی موجودہ شان و شوکت آپ سے آپ اس مرحلہ تک نہیں پہنچی بلکہ اسے چودہ سو سال کی لگن درکار تھی ۔مروان کے بعد ابوا لمنصورنے اس کی نگرانی کی اورہر آنے والا بادشاہ پہلے کی نسبت اس عمارت کا زیادہ خیال کرتا رہا ۔ درمیان میں ایک موقع ایسابھی آیا جب صلیبی قابضین نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے بہادر جرنیل نے تاریخ کا یہ سیاہ باب بند کرکے نئے سرے سے مسجد اقصی ، محراب اور قبۃ الصخراء کی اصل حیثیت بحال کردی۔ اور اس کیلئے اسے16 طویل جنگیں ان خونخوار قابضین کے خلاف لڑنا پڑیں۔ سارے یورپ کا کفر اس وقت صلیبیوں کے جھنڈے تلے زندگی و موت کی جنگ سمجھ کر لڑنے میں مستعد تھا۔مگرسلطان کی بہادری ، ذہانت ، رحمدلی ، خداخوفی اور انصاف پروری نے پانسا ہی پلٹ ڈالا ۔ کثر اللہ امثالہ ۔ اللہ اسے امت اسلام کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔ یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۔ صلاح الدین ایوبی کی وفات صرف 53سال کی عمر میں ہوگئی ، ان کے کئی کام ادھورے رہ گئے تھے ۔ جن میں اسے ایک کام’’ مسجد و گنبد قبۃ الصخراء ‘‘کی بحالی کا بھی تھا ۔سلطان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے الملک المظفرنے اسے جاری رکھا اور سلطان کے چھوڑے ہوئے منصوبوں کی تکمیل کی ۔پھر تیرہویں صدی میں اس کی تعمیرجدید کی گئی، سولہویں صدی میںسلطان سلیمان المذھل کے دور میں اس پر سات سال تک کام ہوتارہا۔ گنبد کے اندرون میں سورہ یٰسین کندہ کی گئی ، اور سترہویں صدی عیسوی میں اس پر قرآنی آیات تحریر کی گئیں ، سورہ الاسراء جس میں واقعہ معراج کا تذکرہ ہے وہ بھی کندہ کی گئی ، اٹھارہویں اور انیسیوں صدی میں عثمانیوں کے دور میں گنبد صخراء کو چاروں طرف ٹائلوں سے ڈھانک دیا گیا ۔ ترکی سلطان عبدالعزیز کے دور میں اس گنبد کی ہشت پہلوسے توسیع کی گئی ۔ مزید اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کی خاطر نقش نگاری کی گئی اور 1927میں سخت زلزلہ آیا۔ جس نے گنبد صخراء کو شدید نقصان پہنچایا ۔پھراس کی مرمت کی گئی۔1955میں سخت بارشوں سے قبۃ الصخراء پر ایستادہ لکڑی کا گول فریم ناکارہ ہوگیا تھا ۔
تب نئے سرے سے اس قبہ کی تعمیر کروانے کیلئے اٹلی کی ایک کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ۔ اس نے اس کی تیاری میں تانبے ، المونیم اور کئی قسم کی دھاتوں کے علاوہ سیاہ لیڈ کوبھی شامل کیا ۔ان دھاتوں سے بنے ہوئے کئی گنبد یروشلم میں اب بھی موجود ہیں ۔لیکن سیاہ لیڈ کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ بنائے گئے گنبد سیاہ رنگ اختیار کرلیتے ہیں ۔1959تک اس گنبد میں بھی دیگر گنبدوں کی طرح سیاہ لیڈ شامل رہی ۔ اور اس وجہ سے بھی اس کا رنگ کالا ہوگیا تھا۔جو ذوق و احساس پر گراں گزرتا تھا ۔ اس لیے1962میں حکومت اردن نے اس کے ڈھانچے کو دوبارہ بنانے کا بیڑہ اٹھایا ۔1965میں قبہ میں المونیم کا جال باندھا گیا اور اس کے اوپر سونے کا پتر چڑھانے کا منصوبہ اعلان کردیا۔عالم اسلام کے مختلف ممالک نے دل کھول کر اس کام میں حصہ لیا۔ 1993میں اردن کے شاہ حسین مرحوم نے اس پر مزید 80کلو سونے کا پتر چڑھانے کا اعلان کردیا۔ جس پر اندازہ تھا کہ 8.2ملین ڈالر خرچ آئیں گے ۔ شاہ حسین مرحوم نے اپنا لندن والا مکان بھی بیچ کر اس کی ساری رقم گنبد صخراء کی آرائش پر لگا دی ۔ اب کہا جاتاہے کہ اس کے اوپردو سو کلو سونے کا کام ہوچکاہے ۔ جس نے اس عمارت کو نہ صرف یروشلم کی سب سے خوبصورت مذہبی عمارت بنا ڈالا بلکہ دنیا میں بھی بالکل منفرد شان و شوکت عطا کر رکھی ہے ۔ بعد ازاں اس طرز تعمیر کو دنیا میں کئی جگہ نقل بھی کیا گیا ۔ جیسے اٹلی میں St. Giacomo کا چرچ ،استنبول میں سلطان سلیمان عالی شان کا مقبرہ ، بڈاپسٹ میں یہودیوں کا سینی گاگSynagogue in Budapestاور جرمنی میں نئی بنائی جانے والی یہودی عبادتگاہ میں بھی گنبد صخراء کی نقل کی گئی ہے ۔اگر آپ صحن اقصی میں کھڑے ہوکر درختوں کے جھنڈ سے دائیں طرف جھانک کر دیکھیں ۔ تو دور جبل زیتون کے نشیب میں ایک چرچ نظر آئے گاجس کے گنبدوں پر سونا جڑا ہوا ہے ۔لیکن یہ گنبد چھوٹے چھوٹے اوربے کیف سے لگتے ہیں۔ خاص طور پر گنبد صخراء کے سامنے ۔ کہاجاتاہے کہ وٹیکن سے جناب پوپ جان صاحب نے یہاں کا دورہ کرتے ہوئے دنیا کے عظیم الشان گنبد صخراء کو دیکھ کرپوچھا کتنا سونااس کے اوپر جڑا گیا ہے ؟ جب انہیں بتایاگیا کہ 200 کلو …تو انہوںنے اس چرچ پر دوسوایک کلوسونا جڑنے کاحکم دیا ۔نقل نقل ہی ہوتی ہے خاص طورپرجو ضد کی وجہ سے ہو۔ جیسے بادشاہی مسجدکے پہلو میں سکھوں نے مڑھی بنائی …!۔
(4) یہ قبۃ الصخراء مسجد اقصی نہیں ہے
جس طرح کہ ہم نے تفصیل سے اوپر لکھا ہے کہ مسجد اقصی وہ ہے جہاں حضرت عمر فاروق ؓ نے نماز ادا فرمائی تھی اورآجکل اس جگہ کو مسجدقبلی کہا جاتاہے ۔اس چٹان سے نبی ﷺ کا آسمانوں کی طرف سفر شروع ہوا تھا ۔ظاہر ہے حضرت عمرکی تجویز صائب تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد اقصیٰ میں دو نفل پڑھے یا پڑھائے ۔صخرہ یعنی اس چٹان پر نہیں اور اس چٹان کو مسجد حضور انور ﷺنے قرار دیا، نہ حضرت عمر فاروق ؓ نے بلکہ 73ھ میں مروان نے اس پتھرکو مسجد کے طور پر بنایا اور اس کے اوپر قبہ تعمیر کیاتاکہ حج کی جگہ باورکی جائے ۔آج بے علمی کی وجہ سے قبۃ الصخراء کو مسجد اقصی کے نمونہ کے طور پر پیش کیا جاتاہے ، جس سے یہی سمجھا جاسکتاہے کہ صرف یہی مسجد اقصیٰ ہے ۔ جس کا بدیہی مفہوم یہ نکلتا ہے کہ خدانخواستہ اس جگہ کو اگر اہل یہود کسی سازش کے تحت نقصان پہنچا دیں ، تو مسجد اقصی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا یا اس کے علاوہ باقی مسجد اقصیٰ کو منہدم کردیں اور گنبد کو کچھ نہ کہیں تو اس کایہ مطلب ہوگا کہ مسجد اقصی محفوظ سمجھی جائیگی؟ ۔ ہرگز نہیں مسجد اقصیٰ پورے144…ایکڑ اراضی کا نام ہے جس میں ہر قسم کی بلڈنگ تہہ خانہ یا خالی ایریا شامل ہے ( امام اہل سنہ حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ) اور موجودہ مسجد قصی جسے جانب قبلہ ہونے کی وجہ سے مسجد قبلی بھی کہا جاتاہے ۔ یہ پورا ایریا مسجد اقصیٰ ہے اور مسلمانوں کا قبلہ اول ، جہاں کم و بیش دو ہزار اور بیرونی احاطوں میں تقریباً سات ہزار افراداور مصلی مروانی کو اگر شامل کرلیا جائے تو چودہ ہزار مسلمان سجدہ ریز ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے صرف گنبد صخراء کو ہی مسجد اقصیٰ سمجھنا یا قرار دینا درست نہیں ہے ۔ اگر کبھی یہود نے سازش کرکے اس پورے ایریے کو نقصان پہنچایا تو مسلمان مسجد اقصیٰ کی اہانت کو کبھی قبول کر نہیں سکتے ۔بعض حضرات قبۃ الصخراء کو مسجد اقصیٰ باور کرانے کویہودی پروپیگنڈے یا سازش کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں ۔
مسلم فاتحین کی عظمت
تاریخ گواہ ہے کہ …مسلمان …اہل ایمان… مالک حقیقی کے نام لیوا…رحمۃ اللعالمین کے جانثار…انسانیت کے علمبردار…امن عالم کے نمائندہ…مسلمان جہاں بھی گئے ۔اپنی اعلی ظرفی ، انسانیت کی قابل قدر خدمات کے ساتھ ساتھ … وہ عظمت ، شان و شوکت اور جاہ وجلال کے باوقاراور پرہیبت آثاربھی بناتے رہے …ان کے برعکس دیگر مذاہب کے علمبردارجہاں بھی قابض ہوئے ، بغض و عنادسے بھرے ہوئے ، ظلم وستم اورغیظ و غضب سے لتھڑے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کے خون آشام جبڑوں نے انسانیت کاوہ خون کیا کہ تاریخ عالم ان کی درندگی اور سنگدلی سے خونچکاں ہے ۔ان کا سارا زور اسلام کو مٹانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بنائی یادگاروں اور عمارتوں کو داغدار کرنے پر رہا ۔ سپین و اندلس اور ہندوستان کی مساجد و قلعے اور محلات کے ساتھ ساتھ بیت المقدس اور فلسطین کی حالیہ تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے …ارض مقدسہ فلسطین… جہاں اب یہود کا قبضہ ہے ، جن کی سنگدلی اور خوفناکی کی وجہ سے یہ ارض مقدسہ بھی تن داغدار اور گولہ و بارود کا ڈھیر بن کر رہ گئی ہے ۔ اور فلسطینی مسلمانوں ہی کیلئے نہیں وہاں کے تمام باشندوں کیلئے امن کاایک بھولا بسرا خوفناک خواب بن چکی ہے ۔(جاری ہے)