• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسے بات پرانی ہو!....نقش خیال…عرفان صدیقی

برکت اللہ بھی
کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ کون تھا؟ جانتے بھی ہوں تو دنیا کی اس گرم بازاری میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ پل بھر کر رک کر اسے یاد کرے۔ یہاں تو بڑے بڑے نام آور اس طرح رخصت ہوجاتے ہیں جیسے سردیوں کے پچھلے پہر کی دھوپ چپکے سے دامن سکیڑ کر دالان کے کسی گوشے میں جابیٹھتی ہے۔ میں ابھی تک ارشاد احمد حقانی مرحوم کی نماز جنازہ کو نہیں بھولا۔ ان کے انتقال پر لکھے گئے کالم میں، میں نے اشفاق احمد مرحوم کا ذکر کیا تھا۔ اشفاق صاحب نے اپنی خوبصورت کتاب ”سفر در سفر“ میں اپنی موت کا نقشہ کھینچتے ہوئے چشم تصور سے دیکھا تھا کہ ان کے رفقا، ان کے مداحوں اور انہیں چاہنے والوں کو اس المناک خبر سے کتنا صدمہ ہوگا۔ پھر اشفاق صاحب نے خود ہی اندازہ لگالیا تھا کہ ان سب کو اپنی اپنی مصروفیات گھیر لیں گی اور شاید وہ ان کی میت کو کندھا بھی نہ دے سکیں۔ اشفاق صاحب ہی کی ایک ناول نما کہانی کا ایک کردار ہے ”استاد بالی“، مسلمان سے سکھ ہوجانے اور پھر قندوز میں مجاہدین کے ہمراہ روسیوں کے خلاف لڑتے ہوئے جان نچھاور کردینے والے اس کردار کا تکیہ کلام تھا۔ ”سب کھیل تماشا ہے“۔ واقعی سب کھیل تماشا ہے اور برکت اللہ تو خود بھی کھیل تماشے کا آدمی تھا۔
کالج کے زمانہ تدریس کے دوران، ستر کی دہائی کے اوائل میں میرا ریڈیو پاکستان راولپنڈی آنا جانا شروع ہوا۔ یہ آنا جانا اتنابڑا کہ کالج سے فراغت کے بعد سارا دن بیشتر شامیں اور کبھی کبھار رات کے اولیں پہر ریڈیو کی نذر ہونے لگے۔ ریڈیو سے تعلق کا سلسلہ موضوعاتی تقریروں ، کتابوں پر تبصروں ، حالات حاضرہ کے مذاکروں، بچوں کے کوئز، دستاویزی پروگراموں اور چھوٹے موٹے عمومی اسکرپٹس سے شروع ہوا اور پھر ساون کی ہریالی کی طرح پھیلتا ہی چلا گیا۔ ظہیر حسن ان دنوں سینئر پروڈیوسر تھے اور ہفتہ وار ریڈیو ڈرامہ ان کی ذمہ داری تھی۔ تب ڈرامہ، ریڈیو کے ماتھے کا جھومر تھا اور بہت ہی مقبول صنف ، ڈرامے پہ اتنی محنت ہوتی تھی کہ آج اس کا تصور بھی محال ہے۔
ایک دن میں معمول کا کوئی پروگرام کرکے ریڈیو اسٹیشن سے نکل رہا تھا کہ ظہیر صاحب بازو تھامے اپنے کمرے میں لے گئے۔ چائے منگوائی اور اپنے مخصوص شیریں لہجے میں کہنے لگے۔ ”یار تم ڈرامہ کیوں نہیں لکھتے؟“ میں نے کہا۔ ”ظہیر صاحب کبھی کوشش نہیں کی۔ سوچا بھی نہیں۔ شاید میں… ”ظہیر صاحب نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ” میں نے آپ کے اسکرپٹ دیکھے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ ڈرامہ لکھ سکتے ہو۔“ ان دنوں ظہیر صاحب نے نئے ڈرامہ نگاروں کی تلاش کے لئے ”میرا پہلا ڈرامہ“ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ میں نے ہامی بھرلی۔ ایک دو دن بعد ریل کار کے ذریعے راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے میں نے اپنا پہلا ڈرامہ لکھا جس کا نام تھا۔ ”آخری موڑ“ اس کے بعد تو جیسے بند ٹوٹ گئے اور جل تھل ہوگیا۔ میرا قلم ڈراموں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ اتنے ڈرامے لکھے کہ آج ان کی تعداد بھی یاد نہیں۔ دس ڈراموں پر مشتمل کتاب ”بھید بھری آواز“ 1988ء میں شائع ہوئی جس کا فلیپ اشفاق احمد اور دیباچہ میرزا ادیب نے لکھا۔
ظہیر صاحب کے بعد ڈرامہ سیکشن سینئر پروڈیوسر برکت اللہ نے سنبھالا۔ کیا کمال کا شخص تھا۔ وہ خود بھی بلا کا صداکار اور فن کار تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ڈرامہ اس کی گھٹی میں پڑا ہو۔ وہ مجھے ڈرامے کی کاسٹنگ، ریہرسل ، ریکارڈنگ ہر شے میں شریک رکھتا۔ یہ شراکت کار ہماری دوستی میں ڈھل گئی۔ میں ڈرامے لکھتا اور وہ پروڈیوس کرتا گیا۔ برکت ریہرسل پر بہت زیادہ وقت نہیں لگاتا تھا۔ بس فنکار ایک دوبار اپنے اپنے حصے کے مکالمے اچھی طرح پڑھ لیتے تھے۔ پھر ہم سب اسٹوڈیو میں جمع ہوجاتے تھے۔ برکت ریکارڈنگ پینل پہ بیٹھ جاتا اور ریکارڈنگ شروع ہوجاتی۔ یہاں وہ چھوٹ دینے کا قائل نہ تھا۔ جب تک مکالمے میں جان نہ پڑجاتی، وہ فن کار کی جان کو آیا رہتا۔ وہ کہا کرتا تھا۔ ”اوئے دیکھو! یہ ٹی۔وی نہیں کہ لوگ تمہیں دیکھیں گے۔ تمہارے چہرے کے تاثر سے سب کچھ جان جائیں گے۔ یہ ریڈیو ہے۔ یہاں تمہارا بولا ہوا جملہ ہی سب کچھ ہے۔ لوگوں کو تمہارے آنسو، تمہارے چہرے کا کرب، تمہارے جذبات، سب کچھ اس جملے میں نظر آنا چاہئے۔“
ہمارے آرٹسٹوں کی بھی ایک زبردست ٹیم بن گئی تھی۔ سجاد کشور، ہاشم بٹ، نرگس رشید ، نرگس یونس ، غزالہ بٹ، نورین خان ، انجم حبیبی زلفی ، نسیم قریشی، نزہت کاظمی ، عالیہ امام، آغا وحید الرحمٰن، سدرہ ظہیر ، نگہت اقبال، شہناز خان اور فاروق اقدس خود برکت اللہ بھی۔ معروف نیوز کاسٹرز خالد حمید اور شازیہ ظہیر کو میں نے ڈراموں پہ مائل کیا۔ انہوں نے میرے متعدد ڈراموں میں شاندار صداکاری کی۔ مجھے یاد ہے، کسی ڈرامے میں سدرہ کو ایک مخصوص کردار دیا گیا۔ اس نے اس قدر ڈوب کر اپنے مکالمے بولے کہ ریکارڈنگ کے خاتمے پر وہ واقعی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور دیر تک روتی رہی۔ برکت ڈرامے کی پس منظر موسیقی اور صوتی اثرات دینے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ میں اپنے ہی اسکرپٹ کو ، ریکارڈنگ کے سارے مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد جب ریڈیو پہ سنتا تھا تو وہ مجھے ایک بالکل نئی تخلیق محسوس ہوتا۔
یہ ریڈیو کی رعنائیوں بھری زندگی کا پربہار دور تھا۔ تین چار اسٹوڈیوز تھے جن کے لئے قطاریں لگی رہتیں۔ پروڈیوسر لڑ رہے ہوتے۔ کمرے ، برآمدے اور لان، آرٹسٹوں ، موسیقاروں اور گلوکاروں سے چھلک رہے ہوتے۔ کینٹین میں بیٹھنے کو جگہ نہ ملتی۔ آواز کی یہ دنیا آوازوں سے گونج رہی ہوتی۔ کتنے ہی نام یاد آرہے ہیں۔ ایس۔ایم۔ رفیق، عبدالحمید اعظمی، منصور تابش، مشکور صدیقی ، ناصر جہاں، زاہد نقوی، ظہیر حسن، صادق حسین، عبدالقیوم، برکت اللہ ، اختر امام رضوی، فخر عالم نعمانی ، سلمان المعظم، شمع خالد، ارنسٹ ٹھاکرداس، سلیم بٹ ، آسیہ بخاری، نشاط انجم ، مجتبیٰ عامر، عابد حسین، ریاض قریشی، ظفر خان نیازی ، احسن واہگہ، فیاض کیانی ، شریف شاد، مسرت شاہ رخ، انیلہ سلیم، مظہر عباس ، نوید چوہان، ہمایوں بشیر ، انیس الرحمٰن ، بشیر زیدی امیر، نسیم الحق شمیم ، عبدالحفیظ، بشیر جیلانی، نباہت شیریں، نیر محمود، خالد محمود چوہان ، ممتاز میلسی، محمد شکیل اور پھر خالد حمید ، حمید اختر ، اظہر لودھی، عبدالرحمٰن فاروقی، کبیر رحمانی اور نہ جانے کون کون جن کے نام اس وقت یاد نہیں آرہے۔
میرے کتنے ہی ڈرامے عبدالحفیظ، ہمایوں بشیر ، عابد حسین، مسرت شاہ رخ اور مشکور صدیقی نے پروڈیوس کئے۔ حفیظ، عابد اور مسرت سمیت سارے نوجوان پروڈیوسر برکت کو اپنا استاد مانتے تھے۔ وہ مرنجاں مرنج شخص تھا۔ بگڑتا تو خود ہی من بھی جاتا۔ ریڈیو کے اندر اور باہر ہماری دوستی برسوں پہ محیط رہی۔ اس کے بیٹے میرے شاگرد رہے۔ پھر وہ ریٹائر ہوکر کراچی جابسا۔ ٹی وی ڈراموں کی اداکاری اپنالی۔ کبھی کبھار اس کے فون آجاتے۔ اسلام آباد آتا تو مل بھی لیتا۔ کچھ دن پہلے کا ذکر ہے۔ میں لاہور تھا کہ اس کے چھوٹے بیٹے کا ٹیکسٹ پیغام آیا۔ ”ابو کا انتقال ہوگیا ہے۔“
دو تین دن قبل میں برکت کو یاد کرنے، کوئی آٹھ دس برس بعد ریڈیو پاکستان راولپنڈی چلا گیا۔ عبدالحفیظ اور مسرت شاہ رخ کے سوا کوئی شناسا چہرہ نہ ملا۔ ہم نے مل کر چائے پی اور برکت کو یاد کیا۔ یہ تپتی دوپہر تھی لیکن میں نے باہر آکر چارسو دیکھا۔ یہ میرے اور برکت والا ریڈیو پاکستان نہیں، ایک ویرانہ تھا۔ آسیب زدہ حویلی۔ میں نے اندر جاکر اسٹوڈیوز پہ نگاہ ڈالی۔ سب پہ تالے پڑے تھے۔ ڈرامے اب بند ہوچکے ہیں۔ کوئی ذی روح دکھائی نہ پڑا۔ آواز کی اس دنیا میں بوڑھے درختوں پہ چہچہاتے پرندوں کے سوا کوئی نغمہ نہ تھا۔ برکت کو اور مجھے ریڈیو ہی کے ایک بڑے نام یوسف ظفر کی ایک غزل بے حد پسند تھی۔ اس کا مطلع تھا۔
پہروں آس نہ پاس کوئی، ایسی بھی کیا ویرانی ہو
کل تک کی وہ گہما گہمی جیسے بات پرانی ہو
ہم نے ناہید اختر کی گائی ہوئی غزل کا یہ مطلع اپنے کئی ڈراموں میں استعمال کیا تھا۔ مجھے بے اختیار یہ غزل یاد آگئی۔ آنکھیں نم ہونے لگیں۔ اللہ اس کی ساری خطائیں معاف فرما کر اسے اپنے کرم سے نوازے۔ ریڈیو کے آسیب نگر سے لوٹتے ہوئے برکت اللہ کے غم میں، ٹوٹی کھڑکیوں ، شکستہ دروازوں، زنگ آلود تالوں ، اکھڑی ہوئی کنڈیوں، سیلن زدہ دیواروں اور ادھڑتی چھتوں والی ویران حویلی کا غم بھی شامل ہوگیا۔
مرگیا!
تازہ ترین