• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی پاکستان پر حالیہ الزام تراشیوں اور دھمکیوں کے ساتھ ہی وطن عزیز میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک تباہ کن سوچ کو پروان چڑھایا جارہا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر ایک نجاتی پیکج کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا چاہئے، حالانکہ کم از کم گزشتہ 29 برسوں کے تجربات یہ بتلاتے ہیں کہ استعماری مفادات کے تحفظ کے لئے معیشت کو سنبھالا دینے کے نام پر قرضے سے متعلق آئی ایم ایف کی شرائط پاکستان کے لئے نقصان دہ ہی ثابت ہوئی ہیں۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ 26 ستمبر 2008ء کو فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ممبر ممالک کے ساتھ کئے گئے سودے کے تحت پاکستان کے اندر لڑی جانے والی جنگ میں عملاً امریکہ کو اپنا پارٹنر بنانے کے صلے میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے 7.6 ارب ڈالر کا قرضہ دلوایا جانا تھا مگر حکومت کی جانب سے یہ دانستہ غلط بیانی تواتر سے کی گئی کہ پاکستان کو قرضہ نہیں بلکہ ممبر ممالک سے نقد رقوم ملیں گی۔ آمر پرویز مشرف کے جاری کردہ این آر او (جس کا اجرا امریکہ کی سر توڑ کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوا تھا) سے مستفید ہو کر اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی کے دور میں آصف زرداری اور ہلیری کلنٹن کی مشترکہ صدارت میں ہونے والے 26 ستمبر 2008 کے اجلاس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا۔ اس اعلامیہ کے تحت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کے تباہ کن نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ آصف زرداری صاحب نے اس اعلامیہ کو پاکستان کے لئے رحمت اور اپنے 30 ستمبر 2008ء کے کالم میں ہم نے اسے جال قرار دیا تھا۔ چند حقائق پیش ہیں:
1۔ جولائی 2008ء سے جون 2011ء کے تین برسوں میں امریکی حکمت علی کے تحت دہشت گردی کی جنگ لڑنے سے پاکستان کی معیشت کو 40.6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ اس سے قبل کے تین برسوں میں اس جنگ سے پاکستان معیشت کو 15.6؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا یعنی 25؍ارب ڈالر کا اضافی نقصان جبکہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرضہ 7.6؍ارب ڈالر کا منظور ہوا تھا۔
2۔ ان تین برسوں میں امریکہ نے پاکستان پر تقریباً 300 ڈرون حملے کئے جبکہ مشرف کے دور میں نائن الیون کے بعد کے چھ برسوں میں پاکستان پر 9 ڈرون حملے ہوئے تھے۔ ان دونوں ادوار میں فرق فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ سودے کا تھا۔
3۔ آئی ایم ایف سے قرضے کی منظوری کے ایک برس کے اندر پاکستان نے امریکی دبائو پر کیری لوگربل کی تباہ کن شرائط تسلیم کرلیں حالانکہ پارلیمنٹ کو اس ضمن میں تحفظات تھے۔ امریکی صدر نے 15؍اکتوبر 2009ء کو کیری لوگربل پر دستخط کر دیئے جس کے 24 گھنٹوں کے اندر جنوبی وزیرستان میں آپریشن شروع کردیا گیا۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کیری لوگر ایکٹ کے تحت ملنے والی امریکی امداد سے پاکستان میں انقلاب آجائے گا۔ ہم نے ان ہی کالموں میں لکھا تھا کہ ’’کیری لوگر بل دراصل پاکستان کے لئے فرینڈز آف پاکستان گروپ کی تشکیل کی طرح ایک جال ہے‘‘۔ (جنگ 13؍اکتوبر 2009ء) کیری لوگر ایکٹ کے بعد امریکہ کے جارحانہ رویوں کو دیکھتے ہوئے ہم نے ان ہی کالموں میں لکھا تھا کہ امریکی افواج پاکستان سرزمین میں داخل ہو سکتی ہیں (جنگ 11مئی 2010ء) اس تنبیہ کے ایک سال کے اندر 2مئی 2011ء کو امریکہ نے ایبٹ آباد میں فوجی آپریشن کردیا۔
4۔ کیری لوگر ایکٹ کے اجراکے 6 ہفتوں کے اندر 25 نومبر 2009ء کو امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں عملی تعاون کریں گے۔
5۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے سے چند ماہ قبل حیران کن طور پر آئی ایم ایف نے پاکستان کو ترغیب دی کہ وہ نئے قرضے کے حصول کے لئے رجوع کرے جبکہ نگراں حکومت نے حیرت انگیز تیز رفتاری سے نئے قرضے کی شرائط پر آئی ایم ایف سے معاملات اصولی طور پر طے کر لئے حالانکہ یہ ان کا منصب نہیں تھا۔
6۔ مسلم لیگ (ن) نے اقتدار میں آنے کے چند ہفتوں کے اندر پرانے قرضے کی ادائیگی کے نام پر تباہ کن شرائط پر آئی ایم ایف سے نیا قرضہ حاصل کیا۔ قرضے کا یہ پروگرام بھی ناکام ثابت ہوا۔
7۔ 2015-16 ء میں اس بات کے شواہد نظر آرہے تھے کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ 2019-20ء میں دبائو کا شکار ہوگا مگر پست سیاسی مفادات کے حصول کے لئے پاناما لیکس کے معاملے پر ہنگامہ آرائی ، احتجاجی سیاست اور کچھ اہم ریاستی اداروں کا اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنے وغیرہ کی وجہ سے وطن عزیز میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اکتوبر 2016ء کے مقابلے میں نومبر 2017ء میںاسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 6200ملین ڈالر کی زبردست کمی ہوئی۔ اس طرح ایک مربوط حکمت عملی کے تحت شعوری اور غیر شعوری طور پر عملاً خطے میں امریکی مفادات کو ہی تقویت پہنچائی گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار کی مدت ختم ہونے سے پہلے ملک میں ایک مرتبہ پھر ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی حکومت جولائی سے ستمبر 2018ء کی سہ ماہی میں آئی ایم ایف سے قرضہ لے گی۔
یہ یقیناًایک قومی المیہ ہے کہ 7؍اکتوبر 2001ء کو آمر پرویز مشرف کے بھرپور تعاون سے افغانستان پر حملوں سے شروع ہونے والی امریکی جنگ کو چند برسوں میں ڈالر اور اقتدار کے حصو ل کے لئے پاکستان کی اپنی جنگ بنا دیا گیا ۔ پچھلے چند برسوں سے پاکستان کی جانب سے تواتر سے کہا جارہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر نہ ڈالے۔ ہم گزشتہ 16 برسوں سے کہتے رہے ہیں کہ امریکی جنگ کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ نہیں اور وہ افغانستان میں اپنی افواج مستقل طور پر رکھنا چاہتا ہے (جنگ 16؍اکتوبر 2001ء اور 30اکتوبر 2001ء) ہم یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ان مقاصد کے حصول، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے امریکہ اس جنگ کو جیتنے کے بجائے اسے طول دینا چاہتا ہے۔ اب سے ساڑھے سات برس قبل ہم نے کہا تھا کہ پاکستان کو ’’دل و دماغ جیتنے کے بھولے ہوئے سبق کو پھر سے یاد کر کے اسے اپنی پالیسی کا حصہ بنانا ہوگا (جنگ 27؍اپریل 2010ء)۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اس وقت ریاست، ریاستی اداروں اور قوم کی اولین ترجیحات میں اول، ایسی حکمت عملی مرتب کرنا جسکے تحت پاکستان کے لئے یہ ممکن ہو سکے کہ وہ دہشت گردی کی جنگ امریکی ایجنڈے کے بجائے صرف اپنی حکمت عملی کے تحت لڑے جس کا بنیادی نکتہ طاقت کے استعمال کے بجائے قبائلی بھائیوں کا دل و دماغ جیتا ہو اور دوم، ایسی حکمت عملی وضع کرنا جس کے تحت 2018ء کی تیسری سہ ماہی اور اسکے بعد آئی ایم ایف سے قرضہ لئے بغیر معیشت کی تیز رفتار شرح نمو حاصل کرنا ممکن ہو سکے۔ اس ضمن میں ہماری دردمندانہ درخواست ہے کہ 20؍اکتوبر 2017ء کے کالم میں پیش کردہ ہماری تجاویز پر فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس میں غور کیا جائے اور منظوری کے بعد ان تجاویز کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔

تازہ ترین