• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانون کی حکمرانی اور افراد کی حکمرانی میں فرق ہوتا ہے ۔ قانون کی حکمرانی کی کی من مانی کی بجائے طے شدہ خطوط پر ہوتی ہے ۔ لوگ جانتے ہیں کہ قوانین کیا ہیں، چنانچہ وہ ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیتے ہیں۔ اگر وہ قوانین کی خلاف ورزی کریں تو پہلے سے طے شدہ نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سبز روشنی پر آپ گاڑی چلاسکتے ہیں، زرد ہونے پر رفتار آہستہ کرلیتے ہیں جبکہ سرخ ہونے پر گاڑی روک لیتے ہیں۔ اگر سبز لائٹ ہونے پر اشارے سے گزرے کی صورت میں آپ کو جرمانہ کردیا جائے ، یا سرخ لائٹ ہونے کی صورت میں گزرنے کی اجازت دے دی جائے ، یا ٹریفک سارجنٹ اپنی مرضی سے ٹریفک کے بہائو کو کنٹرول کرے تو کیا یہ قانون کی حکمرانی ہوگی یا سارجنٹ کی مرضی کا راج کہلائے گا؟
ہر روز اعلیٰ عدلیہ سرکاری افسران کی سرزنش کرتی ہے اور اُنہیں قوانین سے انحراف اور من مانی کرنے یا غیر معقول رویہ اپنانے پر نوٹس دیئےجاتے ہیں۔ ہمارے آئینی نظام میں طے شدہ حدود اور توازن اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہم قانون کی پاسداری کرنے والا ایک معاشرہ ہیں۔ اس توازن کے دائرے میں پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے ، ایگزیکٹو ان قوانین کو نافذ کرتا ہے اور عدلیہ اس نفاذ کے عمل کی نگرانی کرتی ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ کا قانون کی تشریح کا کام صرف قانون میں کسی ابہام کو دورکرنا ہے مبادا شہریوں کے حقوق وفرائض پرکوئی مغالطہ ہوجائے۔ اسکے علاوہ سرکاری افسران کی پیروی اور اُن کی فعالیت کی جانچ کیلئے مثال قائم کی جاتی ہے ۔
نواز شریف ، عمران خان اور جہانگیر ترین کے مقدمات نے بدقسمتی سے مزید ابہام پیداکیا کہ کسی منتخب نمائندے کو نااہل قرار دئیے جانے کیلئے عدالت جانچ کا کیا معیارلاگو کرے گی۔ یہ معاملات ان مقدمات میں ہمیشہ کیلئے طے ہوسکتے تھے۔ لیکن قانون اور عدالتی فیصلوں کے یقینی پن میں اضافہ کرنے کی بجائے ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ نے محض ریت پر لکیر کھینچ دی ہے ۔اس لکیر کو آئندہ بھی ذاتی ترجیحات کی انگلی تبدیل کرتی رہے گی ۔ اس نے عدلیہ کی بنیادی فعالیت کو کمزور کرنے کا تاثر دیا ، جو کہ غیر جذباتی ہوکر، ذاتی ترجیحات سے بلند ہو کر قانون کی تشریح کرنا ہے ۔ قانون کی تشریح یہ ہے کہ فیصلہ شہریوںکو باور کراد ے کہ اس قانونی کارروائی کا یہ نتیجہ ہوگا۔ یہ بات طے شدہ اور دوٹوک اور کسی ابہام سے پاک ہو۔ جہانگیر خان ترین نااہلی کیس تشریح کرتا ہے کہ سپریم کورٹ (i) آرٹیکلز 62/63 کے تحت نااہلی کے کیسز کو عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976 ءکے سیکشن 99 سے الگ کرکے دیکھتی ہے ، (ii) عدالت نے ہائی کورٹس کے 184(3) کے تحت اختیار استعمال کیا ہے ، اور (iii) احتساب عدالت کا کردار ادا کرتے ہوئے قانون سازوں کی ایمانداری پر رائے قائم کرتے ہوئے اُنہیں کسی ٹرائل کے بغیر نااہل قرار دیدیا ہے ۔ جہانگیر خان ترین کیس کے فیصلے نے ظاہر کیا ہے کہ عدالت کی رائے اور تحریری فیصلے میں فرق ہوسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر سپریم کورٹ کہتی ہے …’’ہم اس بات میں بالکل واضح ہیں کہ عدالت غیر معمولی مقدمات میں ہی ارکان ِ پارلیمنٹ کے خلاف کیس فیصلہ دے سکتی ہے ۔‘‘ لیکن پھر یہ جہانگیر ترین کو برطانیہ میں کسی جائیداد کو ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دے دیتی ہے ۔ اس کیلئے پیش کردہ جواز اسی پٹیشن میں نااہلی کی تین وجوہ سے لگا نہیں کھاتا، بلکہ جب اسے عمران خان کیس کے سامنے رکھ کر دیکھا جاتا ہے تو یہ فرق انسان کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ آئیے سپریم کورٹ کے تجویز کردہ سہ پہلو اصولوں کا جائزہ لیتے ہیںتاکہ آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت دائر کی گئی پٹیشنز کی آرٹیکل 184(3) کے تحت سماعت کا تعین کیا جاسکے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ نااہل قرار دینے کیلئے ضروری ہے کی کیس براہ راست بدعنوانی کا ہو، دوسری یہ کہ پٹیشنز میں بیان کردہ وجوہ بظاہر سنگین نوعیت کی دکھائی دیں، اور تیسری یہ کہ پٹیشن دائر کرنے کا بلواسطہ طور پر کوئی اور محرک نہ ہو، اور نہ ہی اُسے دائر کرنے والا ایسا شخص ہو جو اس سے متاثر نہ ہو۔ لیکن عدالت ’’بدعنوانی سے براہ راست تعلق ‘‘ کی وضاحت نہیں کرتی ہے ۔ جہانگیر ترین کے خلاف کیس یہ تھا کہ (i) اُنھوں نے انسائیڈر ٹریڈنگ کے ذریعے کمایا گیا منافع ادا کرکے SECP کے ساتھ معاملات طے کرلئے ، (ii) اُنھوںنے اپنی درست زرعی آمدنی ظاہر نہیں کی تھی، (iii) اُنھوںنے اس جائیداد کو ظاہر نہیں کیا تھا جو ایک سمندر پار کمپنی کی ملکیت تھی اور وہ اس کمپنی سے فائدہ اٹھانے والے تھے ۔ پہلا الزام اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا کیونکہ جہانگیر ترین نے انسائیڈر ٹریڈنگ کا جرمانہ ادا کردیا تھا، اور اُنہیں اُس وقت متعلقہ قانون کے تحت سزا نہیں دی گئی ، چنانچہ یہ معاملہ اب’’ماضی کا حصہ ‘‘بن چکا ہے ۔ سپریم کورٹ کہتی ہے…’’جب کسی شخص پر الزام لگایا جائے (جو ابھی ثابت نہ ہوا ہو) کہ اُس نے ماضی میں کوئی قانون شکنی کی تھی اور وہ بعد میں پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا ہو تو اُسے 62(1)(f) کے تحت نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ لیکن اگر عہدے کے دوران کسی رکن پارلیمنٹ کوکوئی مستند فورم نااہل قرار دے تو اُسے صرف اعلیٰ عدلیہ ہی اسکے عہدے سے ہٹا سکتی ہے (جہانگیر خان ترین کو سپریم کورٹ نے ہی نااہل قرار دیا )۔ دوسرا الزام اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا کہ اس بات کا تعین کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں کہ کیا کسی شخص نے اپنی زرعی آمدنی درست بتائی ہے یا نہیں، یا کیا ماضی میں اُس نے درست ٹیکس ادا کیا ہے یا نہیں، کیونکہ قانون الزام کی زد میں آنیوالے شخص کو ٹرائل کا پورا نظام فراہم کرتا ہے ۔ اسلئے سپریم کورٹ احتساب عدالت بن کر اُنہیں نااہل قرار نہیں دے سکتی ۔ یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ اعلیٰ عدالتیں اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے آئینی ضرورتوں کو غیر ضروری نہیں بنا تیں۔
تیسرے الزام ، جس پر نااہل قرار دیا گیا ، کا جواز ناقابل ِ یقین ہے ۔ ہائیڈ ہائوس، بر طانیہ کو ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں نااہل قرار دینے سے پہلے سپریم کورٹ کہتی ہے کہ اس مکان کی خریداری اور تعمیر کیلئے مدعاعلیہ، جہانگیر ترین نے تمام رقم قانونی ذرائع سے بھیجی تھی ، لیکن پھر عدالت کہتی ہے کہ سمندر پار کمپنی ، جس کی ملکیت میں وہ مکان تھا، کے قیام کا مقصد قابل ِ ٹیکس رقم چھپانا تھا ۔ عدالت اس بات کی وضاحت نہیں کرتی کہ جب کوئی شخص ٹیکس ادا کرنے بعد قانونی ذرائع سے کوئی جائیداد خریدتا ہے تو پھر اسے چھپانے کے پیچھے کون سی گھناونی حرکت ہوسکتی ہے ؟یہ جائیداد ٹیکس ادا کرنے کے بعد ایسے ملک میں خریدی گئی تھی جہاں آمدنی پر ٹیکس لگتا ہے نہ کہ دولت پر ۔ اب اگر عدالت کے بیان کر دہ سہ پہلو اصول کی طرف آجائیں تو عقل حیران ہے کہ کس طرح یہ فعل ’’براہ راست بدعنوانی ‘‘ کے زمرے میں آتاہے ؟سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کہتی ہے کہ اثاثوں کو ظاہر نہ کرنا عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 12(2) کی خلاف ورزی ہے ، لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کرتی کہ اس نے اس خلاف ورزی کی آرٹیکل 184(3) کے تحت کیوں جانچ کیوں کی ؟عوامی نمائندگی ایکٹ میں خلاف ورزی کی صورت میں احتساب کا نظام موجود ہے سپریم کورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ سمندر پار اثاثوں کو ظاہر نہ کرنا انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت قابل ِ مواخذہ ہے ، اور یہی کچھ زرعی آمدنی کے تعین کے بارے میں بھی ہے ۔ لیکن جب ہائیڈ ہائوس کی بات آتی ہے تو عدالت کار ویہ تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اس مرتبہ بے گناہی کا ثبوت دینے کی ذمہ داری جہانگیر ترین پر ڈال دی جاتی ہے ۔ جہانگیر ترین نااہلی کیس ثابت کرتا ہے کہ62(1)(f) کے تحت نااہل قرار دینے کیلئے 184(3) کے اختیارات کا کس طرح استعمال کیا جارہا ہے…

تازہ ترین