سالِ نو کی آمد پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی ٹوئٹ پاکستان مخالف کرکے ملکی سیاست میں بھونچال برپا کردیا ہے، تمام سیاسی حلقوں اور مکاتب فکر کی جانب سے حکومت کو امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر نظرثانی کرنے کا کہا جارہا ہے۔مختلف ریاستوں، بالخصوص طاقتور اور کمزور ریاست کے مابین خارجہ پالیسی بذاتِ خود ایک پیچیدہ امر سمجھی جاتی ہے ، ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ اس موضوع پر جس عظیم دانا اور فلسفی شخص نے راہنمائی کے اصول فراہم کیے وہ ہماری ہی سرزمین پاکستان کے تاریخی شہر ٹیکسلا کا باسی کوٹلیا چانکیہ تھا ۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ دنیا کے کامیاب افرادکے پاس اپنی کامیابی کے گُر زیرقلم لانے کا وقت نہیں ہوتا ، دوسری طرف بہت سے فلسفی کتابی باتوں پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیںجنکا عملی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا لیکن چانکیہ نے نہ صرف عملی زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے بلکہ ایسی لازوال کتابیں بھی تحریر کرگئے جنہیں آج ہزاروں سال بعد پڑھنے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آج کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہیں۔چانکیہ اپنے زمانے کے ایک نمایاں برہمن تھے اور ان تمام خوبیوں کے حامل تھے جو مقدس ویدوں کے مطابق برہمن کا خاصا ہوا کرتی ہیں مثلاََ گناہ سے نفرت، علم کی تلاش میں سرگرم، دوسروں کو تعلیم دینے کا شوق، اپنے جذبات پر کنٹرول، وغیرہ وغیرہ۔ بطور وزیراعظم چانکیہ کی ذمہ داریوں میں امورِ سلطنت، بالخصوص خارجہ پالیسی بھی شامل تھی، یہ اس زمانے کی بات ہے جب طاقت کے بل بوتے پر ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ جمالیا جاتا تھا،جب آدھی دنیاسپرپاور یونانی فاتح سکندراعظم کے گھوڑوں کے آگے سرنگوں تھی، چانکیہ کی سیاسی راہنمائی میں ایک کنیز زادے چندر گپت موریانے ہندوستان کے طول و عرض میں بکھرے راجوا ڑوں کو متحد کرکے یونانی افواج کو شکستِ فاش دیکر ثابت کردیا کہ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ ارتھ شاستر کو علم سیاسیات کی سائنس بھی کہا جاتا ہے ۔مورخین کے مطابق چانکیہ نے سنکسرت زبان میں یہ بے مثال کتاب ٹیکسلا میں کوئی لگ بھگ ڈھائی ہزار سال قبل لکھی اور یہ قدیم ہندوستان کے ہر راجا مہاراجا کیلئے امور سلطنت سیکھنے کیلئے نصابِ تعلیم کا درجہ رکھتی تھی لیکن بارہویں صدی عیسوی کے بعدلاپتہ ہوگئی، گزشتہ صدی کے اوائل میں اس کا سنسکرت مسودہ دوبارہ دریافت ہونے پر شائع کیا گیا اور آج دنیا کی تقریباََ ہر زبان میں اسکا ترجمہ موجود ہے۔ چانکیہ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ کسی بھی معاشرے میں ترقی و خوشحالی کے حصول کیلئے قیام ِ امن سب سے ضروری ہوا کرتا ہے ، اس حوالے سے ایک بادشاہ کی اپنی رعایا کیلئے پرامن معاشرے کی فراہمی سب سے اولین ترجیح ہونی چاہیے ،کسی بھی ریاست میں بدامنی پھیلانے میں زیادہ تر بیرونی عناصر ہی ملوث ہوتے ہیںجنکا مقابلہ کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت کیا جاسکتا ہے۔چانکیہ نے اپنی سمجھداری سے عظیم موریا سلطنت میںامن یقینی بنانے کیلئے جو اقدامات اٹھائے وہ انکی کتاب ارتھ شاستر کی صورت میں آج کی جدید دنیا کی خارجہ پالیسی کیلئے بھی گائیڈلائن سمجھے جاتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے کے بعداب اپنی خارجہ پالیسی کو امریکہ کی مخالفت میں ڈھال لے لیکن امریکی دباؤ کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کیلئے چانکیہ کی تعلیمات سے آگاہی ضرور حاصل کرے۔ چانکیہ نے ایک ریاست کے دوسری ریاستوں کے ساتھ خارجہ تعلقات کے حوالے سے راج منڈل کی تھیوری پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی سطح پر ہر ریاست جغرافیائی طور پر اپنے ارد گردایک ایسا دائرہ قائم کرلیتی ہے جسکے اثرورسوخ کا سامنا آس پاس کی دیگر ریاستوں کو کرنا پڑتا ہے جنکے تجارتی، ثقافتی ، اقتصادی اور دیگر مفادات وابستہ ہوتے ہیں، اس دائرہ اثر کی زد میں آنے والی ہر پڑوسی ریاست کو طاقتور ریاست کے مفادات کا خیال بادل نخواستہ رکھنا پڑتا ہے۔چانکیہ کے مطابق ایسا ہی ایک اور دائرہ طاقتور ریاست کے مدمقابل دوسری دشمن ریاست بھی قائم کرتی ہے، عالمی منظرنامے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے ایسے دائروں کی شدت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے،اس تھیوری کے تحت اب ایک ریاست کے پاس دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں یا تو وہ اپنے پڑوسی طاقتور ریاست کی باجگزار ریاست بن کر اسکے مفادات کی تکمیل کرے یا پھر خطے میں علاقائی استحکام قائم رکھنے کیلئے پڑوسی طاقتور ریاست کے مدمقابل دوسری ریاست سے تعلقات استوار کرکے اسکے دائرہ اثر میں شمولیت اختیار کرلے۔ چانکیہ کی خارجہ پالیسی کا یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کو ہم اکثر ہدف تنقیدبناتے ہیں کہ چانکیہ کی تعلیمات پڑوسی کے پڑوسی سے خوشگوار تعلقات کا درس دیتی ہیں، اسی طرح خارجہ پالیسی کا یہ اہم ترین کلیہ بھی چانکیہ ہی نے بتلایا کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ چانکیہ کے مطابق ایک ریاست کی خارجہ پالیسی کی افادیت جانچنے کا پیمانہ اسکے عالمی سطح پر کردار اداکرنے کی اہلیت ہوتا ہے اور اس سلسلے میں ہر ریاست کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصداپنے قومی مفادات کے حصول کیلئے اپنے دائرہ اثر میں اضافہ کرنا ہونا چاہیے۔یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی تعلقات میں دوستی یا دشمنی دائمی نہیں ہواکرتی ، باہمی مفادات دو ریاستوں کو قریب سے قریب ترلے آتے ہیں، کسی ایک ریاست کے مفادات کے حصول میں کامیابی کے بعد کی صورتحال سردمہری کا باعث بن سکتی ہے۔ چانکیہ کے مطابق کامیاب ریاست کومختلف ریاستوں کے مابین عالمی تعلقات کیلئے اپنی خارجہ پالیسی کو چھ ستونوں پر استوار کرنا ہوتا ہے۔ اول، سامدھی (امن قائم کرنا) کیلئے ریاستوں سے امن معاہدے کیے جائیں، معاہدوں پر درج شرائط پر عملدرآمد کیا جائے ، اگر شرائط واضح درج نہ ہوں تو امن کیلئے میسر وقت کو، اپنے آپ کو طاقتور ریاست میں ڈھالنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ دوئم، وِگ راہ ( جنگ نافذ کرنا)کے تحت اگر ریاست عسکری اعتبار سے مضبوط ہے تو وہ دشمن ریاست کو طاقت کے استعمال سے گڑبڑ کرنے سے باز رکھے۔ سوئم، اسان(کچھ نہیں کرنا)یہ حکمت عملی اس وقت اختیا رکی جائے جب قیام امن یا جنگ کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو۔ چہارم، یان (جنگ کی تیاری کرنا)کے مطابق ممکنہ جنگ کی صورت میں تیاریاں بھرپور رکھی جائیں۔ پنجم، سمس راہ (تحفظ طلب کرنا) حکمت عملی کے مطابق جنگ مسلط ہونے کی صورت میں طاقتور ریاست سے مدد حاصل کی جائے۔ششم، دوائیدھی بھاو (دُہرا اتحاد)کے مطابق اگر زیادہ ریاستوں سے اختلافات ہوجائیں تو ایک دشمن ریاست سے معاہدہ کرکے، دوسری دشمن ریاست کی طاقت کمزور کی جائے۔ اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو چانکیہ کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان روز اول سے امریکہ کے راج منڈل میں شامل ہے جبکہ حالیہ یروشلم ایشو کے بعد امریکہ کے مدمقابل عالمی دائرے بھی تخلیق پاچکے ہیں ۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کامیاب بنانے کیلئے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جسکے پندرہ شہری نائن الیون کے حملے میں براہ راست ملوث بتائے گئے لیکن آج بھی سعودی عرب امریکہ کاقابل اعتماد اتحادی ملک ہے جہاں منعقدہ اسلامی ممالک کے اجلاس میں ٹرمپ بذات خود شریک ہوئے،اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ پاکستان ہر عالمی واقعہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرے، اگر کوئی ایشو پاکستان کے مفاد پر اثرانداز نہیں ہوتا تو خاموشی اختیار کی جانی چاہیے۔ ہمیں چانکیہ کی یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ کامیاب ریاست کی خارجہ پالیسی اپنے عوام کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا کر ترقی و خوشحالی کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔