• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نعیم صاحب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں ریٹائر ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا، وہ پنجاب کے ایک شہر میں ہیڈ ماسٹر تھے ذرا سخت طبیعت واقع ہوئے ہیں، میری ان سے اور ان کی فیملی سے نیاز مندی ہے ، مجھے انہوںنے ایک مرتبہ اپنے اسکول کے سالانہ نتائج کی تقریب میں نہ صرف بطور مہمان خصوصی بلایا تھا بلکہ بہت زیادہ خاطر داری بھی کی تھی ، اسلام آباد میں شفٹ ہوگئے ہیں اپنے بچوں کو لئے دیئے رکھتے ہیں، خاص طور اپنے چھوٹے بیٹے سے انہیں سخت اختلافات ہیں بیٹا اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہاہے ، بیٹا اپنے والد صاحب کے اس اسکوٹر کے سخت خلاف ہے جس کی حالت اب ناگفتہ بہ ہوچکی ہے ، بیٹے کا کہنا ہے کہ والد صاحب اس اسکوٹر کو خیر باد کہہ کر ایک اچھی سی گاڑی لے لیں اللہ نے وسائل بھی دیئے ہیں جبکہ والد صاحب اپنے اسکوٹر سے اتنی زیادہ محبت کرتے ہیںان کا کہنا ہے کہ اس اسکوٹر نے میری بہت خدمت کی ہے اس پر ہم نے کئی مرتبہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک کا سفر کیا ہے ،اب بھی میں اتوار بازار سے اس اسکوٹر پربآسانی 20کلو آٹے کا تھیلا، دھڑی (5کلو)پیاز ، دھڑی آلو اور دیگر سودا سلف آسانی سے لاد کر لے آتا ہوں اور نعیم صاحب کے نزدیک اسکوٹر کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ گھر کا سودا سلف اس اسکوٹر پر لاد کر وہ کسی دقت کا شکار نہیں ہوتے اور بیٹا جو گانے بجانے کا شوقین ہے ،گھر میں والد کی مرضی کے خلاف گٹار، طبلہ اور ڈھولک رکھ چھوڑےہیں وہ کہتا ہے کہ وہ اس اسکوٹر سے اس وجہ سے بھی والد صاحب کو نجات دلانا چاہتا ہے کہ اپنی یونیورسٹی کے میوزیکل کنسرٹ میں وہ اس اسکوٹر کو رنگ برنگا پینٹ کراکے اسٹیج پر ایسا سجائے گا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیںگے ، نعیم صاحب کا بڑا بیٹا تو ملک سے باہر ہوتا ہے جبکہ یہاں وہ اپنے اس بیٹے جسے وہ کبھی کبھی’’ دیسی گورا‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں، اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ رہتے ہیں ان کی اہلیہ کا ووٹ بھی اپنے بیٹے کی طرف جبکہ بیٹی بھی بھائی کی طرف داری کرتی ہے ، میرا ان سے میل ملاپ رہتا ہے ، یکم جنوری کو انہوںنے مجھے چائے پر بلایا تو باتوں باتوں میں ان کے ہاں ایسی عدالت لگی کہ میں بری طرح پھنس گیا کیونکہ نعیم صاحب جب بھی کوئی دلیل دیتے تو میری طرف دیکھتے اور مجھ سے کہتے کیوں بھئی میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔اسی طرح ان کا بیٹا ، آنٹی اور ان کی صاحبزادی جب ملکر والد کی دلیل کو رد کرتے اور اس کے جواب میں اپنے دلائل دیتے تو میری طرف دیکھتے ہوئے کہتے کہ آپ بتائیں کہ اب کون سا زمانہ جارہاہے لیکن ابا جی ابھی تک نہ جانے کس دنیا میں رہتے ہیں، نعیم صاحب اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے یہ پرنس صاحب ساری رات’’ ہیپی نیو ایئر ‘‘ کی تقریبات منانے کے لئے گھر سے باہر رہے ، پٹاخے پھوڑتے رہے گانا بجانا جاری رہا، میں نے ان سے پوچھتا ہوں کہ 2017ء میں انہوں نے کونسا ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ یہ ساری رات ہلہ گلہ کرتے رہے یا 2018ء میں انہوںنے ایسا کیا ٹارگٹ اچیو کرلینا ہے کہ اس کی آمد پر ٹھاہ ٹھاہ کرتے پھر رہے ہیں، جبکہ آنٹی، نعیم صاحب کی بیٹی اور بیٹا یک زبان ہوکر کہہ رہے تھے نئے سال کی آمد صرف وہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں منائی جاتی ہے ، امریکہ دیکھ لیں، آسٹریلیا،برطانیہ، فرانس سارے ملکوں میں خوب چراغا ںہوتا ہے ، آتشبازی کا مظاہرہ ہوتا ہے ، حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات یعنی دبئی ، شارجہ اور ابو ظہبی وغیرہ میں بھی کیا کچھ نہیں ہوتا، ہم کوئی دنیا سے علیحدہ تونہیںپھر ہم نئے سال کی خوشیاں کیوں نہ منائیں، نعیم صاحب کی دلیل تھی کہ جن ملکوں کا صاحبزادے تم ذکر کررہے ہو ان کے کلچر اور ہماری اقدار میں بہت فرق ہے وہ سارا سال کام کرتے ہیں اور پھر ان ممالک میں غیر ملکی سیاح بہت آتے ہیں جن سے انہیں زرمبادلہ حاصل ہوتا اور ان کی معیشت مضبوط ہوتی ہے وہ ان سیاحوں کو انٹرٹین کرنے کیلئے یہ ہیپی نیو ائیر جیسے ڈرامے کرتے ہیں ، یہی حال دبئی کا ہے ۔ہمیں تو صرف جشن منانے آتے ہیں ، پاکستان میں آج بھی غریب کا بچہ بغیر کپڑوں کے گھوم رہاہے ، ہمارے پاس تو پینے کا صاف پانی تک نہیں ہے ، اسکول ہے تو بلڈنگ نہیںہے ، بلڈنگ ہے تو ٹیچر نہیں ، ہمارے ملک کا کسان چیخ رہاہے ، اساتذہ سراپا احتجاج ہیں، ہسپتالوں میں سردرد کی گولی نہیں ملتی، ایک ایک بیڈپر تین تین مریض لیٹے ہیں، مائیں تھڑوں پر بچوں کو جنم دے رہی ہیں، اور ہم ساری رات اچھل اچھل کر نیو ایئر مناتے ہوئے گا رہے ہیں ’’اج کالا جوڑا پا ساڈی فرمیش تے‘‘ ۔ میں اس سا ری بحث سے سخت اکتا ہٹ محسو س کر نے لگا تھالیکن میری خوش قسمتی کہ میں نے دنیا میں شدید موسمی تغیر کی بات کرکے ان کے موضوع کو بدل دیا اور خود بھی اجازت لے کر نکل آیا لیکن فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ کیا ہر سال ہمیں نئے سال کی آمد پر خوب ہلہ گلہ کرنا اور اسے منانا چاہیے یا نہیں؟.

تازہ ترین