منگل کے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دو دھماکے ہوئے۔ دونوں کی آوازیں پہلے صوبائی اسمبلی، بعد ازاں ملک بھر میں سنی گئیں۔ پہلا دھماکہ بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی کے اس اعلان کی صورت میں سامنے آیا کہ وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے گورنر بلوچستان کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا ہے جس کی منظوری کے نوٹیفیکیشن کی نقول تمام ارکان کی میز پر موجود ہیں، اس طرح بلوچستان کی پوری کابینہ تحلیل ہوگئی۔ دوسرا دھماکہ بلوچستان اسمبلی کے قریب زرغون روڈ پر خودکش حملے کی صورت میں رونما ہوا جس کے نتیجے میں 4؍پولیس اہلکاروں سمیت 7؍افراد شہید اور 16؍زخمی ہوگئے۔ بلوچستان اسمبلی کی عمارت سے تقریباً 300میٹر کے فاصلے پر کئے گئے اس دھماکے کا ہدف بظاہر صوبائی اسمبلی ہی تھی تاہم سیکورٹی سخت ہونے کے باعث خودکش حملہ آور نے ایک پولیس ٹرک کو نشانہ بنایا جس سے ایک مسافر بس بھی متاثر ہوئی۔ کوئٹہ کے ریڈ زون کے دونوں دھماکے انتہائی سنگین نتائج کے حامل ہوسکتے تھے مگر دانشمندانہ احتیاطی تدابیر کے باعث ان کے نقصانات بڑی حد تک کم کئے جاسکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کا بڑا ہدف کوئٹہ اور اس کے قرب و جوار کا علاقہ ہے جبکہ کچھ عرصے سے زرغون روڈ پر بار بار دہشت گردی کے واقعات دہرائے جارہے ہیں۔ خودکش حملہ کرنے والا دہشت گرد اگر صوبائی اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا تو یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ صوبہ اور پورا ملک کس صورت حال سے دوچار ہوسکتا تھا۔ کیونکہ جس دم یہ دھماکہ ہوا اس وقت ارکان اسمبلی اجلاس ختم ہونے کے بعد عمارت سے باہر نکل رہے تھے۔ اس ضمن میں وہ سیکورٹی اہلکار بجا طور پر خراج تحسین کے مستحق ہیں جو مادر وطن کے دفاع اور وقارکے لئے ہر دم مستعد ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈ زون سمیت تمام علاقوں میں سیکورٹی کے انتظامات مزید سخت بنانے پر توجہ دی جائے اور انٹلی جنس اداروں کو زیادہ چوکنا کیا جائے۔ جہاں تک وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے سبب ایک ہفتے سے جاری بحران کے ڈراپ سین کا تعلق ہے، اس بات کو اپوزیشن سمیت تمام ہی حلقوں نے سراہا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے دانشمندی کا ثبوت دیا اور دہشت گردی کے شکار صوبے کو سیاسی عدم استحکام سے بچا کر جمہوری عمل کے سبک طور پر جاری رہنے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ جمہوری معاشروں میں منتخب ایوانوں میں عدم اعتماد کی تحریکوں کا پیش کیا جانا اچنبھے کی بات نہیں۔ ایوان کے اندرسے تبدیلی لانے اور قیادت تبدیل کرنے کا یہ ایسا طریقہ ہے جس میں ہجوم کے دبائو یا بیرونی مداخلت کے امکانات کم ہوتے ہیں اور سیاسی نظام مستحکم رہتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ بلوچستان کے نئے قائد ایوان کے لئے سیاسی جماعتوں کے درمیان مشاورت شروع ہوگئی ہے۔ مگر بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد ایسے وقت پیش کی گئی جب سینیٹ کے الیکشن میں دو ڈھائی ماہ اور اسمبلیوں کی میعاد ختم ہونے میں چند ماہ ہی رہتے ہیں۔ اس سے کئی سوالات کا ابھرنا قطعی فطری بات ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے وزیراعلیٰ کا استعفیٰ دلا کر محرکین کے پاس تحریک واپس لینے کے سوا کوئی راہ نہ چھوڑی اور ایک لحاظ سے اپوزیشن اور باغی ارکان کو ایسا متفقہ امیدوار سامنے لانے کے امتحان میں ڈال دیا جس کی قیادت میں باقی ماندہ پانچ ماہ یا کم از کم سینیٹ الیکشن تک صوبائی اسمبلی کام کرتی رہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بلوچستان میں سر ابھارنے والا بحران یہیں تھم جائے اور دوسروں صوبوں تک نہ پھیلے۔ یہ ضروری ہے کہ مہینوں سے گردش کرنے والی افواہوں اور تھیوریوں سے ابھرنے والے خدشات کے مطابق اس بحران کو سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب تک پھیل کر پورے ملک کے عدم استحکام کا ذریعہ بننے سے روکا جائے۔ کیونکہ جو قوتیں دہشت گردی کے ذریعے وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں ان کا راستہ روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان ضرر رساں کوششوں سے صرف نظر نہ کریں۔