• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر اور ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان دشمن بیانات، پاکستان کی امداد میں حالیہ کٹوتیوں اور مزید اقدامات کی دھمکیوں کے جواب میں وطن عزیز میں ایک مرتبہ پھر وہی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے جس پر گزشتہ 9سے زائد برسوں سے عمل کیا جاتا رہا ہے یعنی امریکہ کے خلاف لفظی گولہ باری کرنا لیکن عملاً دہشت گردی کی جنگ میں ’’مزید اور کرو‘‘ کے امریکی مطالبے پر آخرکار سر تسلیم خم کرنا۔ یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے کہ معیشت پر امریکی انحصار کم کرنے کے لئے جو اقدامات بنیادی نوعیت کے حامل ہیں ان پر اب بھی بات کی ہی نہیں جارہی۔ چنانچہ خدشہ ہے کہ سب کچھ پہلے جیسا ہوتا رہے گا۔ پاکستان میں حکومت، پارلیمنٹ اور مقتدر حلقوں کی جانب سے امریکہ کے خلاف جو تند و تیز بیانات دئیے جارہے ہیں امریکہ ان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ امریکہ کو اس بات کا احساس ہے کہ ہر قسم کی امریکی امداد کی بندش کے باوجود موجودہ مالی سال میں آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لئے بغیر پاکستان اپنی تمام بیرونی ذمہ داریاں پوری کر سکتا ہے۔ امریکہ یہ بات بھی خوب سمجھتا ہے کہ پاکستان کی امداد بند کرنے کے علاوہ ایسے بہت سے اقدامات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستانی معیشت بحران کا شکار ہوسکتی ہے۔ یہ صورت حال اس لئے پیدا ہوئی کہ پاکستان میں مختلف حکومتوں نے نائن الیون کے بعد امریکی مشورے سے ایسی پالیسیاں اپنائیں جن کے نتیجے میں معیشت غیرمستحکم ہوئی اور بیرونی وسائل پر پاکستان کا انحصار محفوظ حد سے بڑھ گیا۔ یہ پالیسیاں اقتدار کو طول دینے، اقتدار حاصل کرنے اور ڈالر کے حصول کے لئے وضع کی گئی تھیں۔
گزشتہ 16برسوں سے امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کی جنگ لڑتے چلے جانے سے پاکستانی معیشت کو 123؍ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ اگر سپریم کورٹ اکتوبر 1999ء میں آمر پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے غیرقانونی اقدام کو سند قبولیت عطا کرنے کے ساتھ انتخابات کروانے کے لئے تین برس کا وقت نہ دیتی تو نائن الیون کے وقت پاکستان میں سول حکومت اقتدار میں ہوتی جو امریکی جنگ میں پاکستان کا سب کچھ دائو پر لگانے کا تباہ کن فیصلہ کر ہی نہیں سکتی تھی۔
پاکستان کا تجارتی خسارہ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ جولائی 2016ء سے نومبر 2017ء کے 17ماہ میں پاکستان نے 47.6؍ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا کیا۔ اسی مدت میں 27.3؍ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آئیں چنانچہ جاری حسابات کا خسارہ تقریباً 18.5؍ارب ڈالر رہا۔ ان ترسیلات کا تقریباً 80فیصد صرف چار ملکوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکہ سے آیا۔ اگر ان ترسیلات کا بڑا حصہ سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا جاتا تو معیشت کی شرح نمو تیز ہوتی اور برآمدات میں اضافہ ہوتا لیکن ان ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مالکاری کے لئے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس خطرے کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ آنے والے برسوں میں جب امریکہ کو افغانستان کی جنگ میں پاکستان کی مدد کی ضرورت مزید کم ہوجائے گی تو امریکہ اینٹی منی لانڈرنگ کی آڑ میں ان ترسیلات میں اچانک بڑی کمی کروا سکتا ہے۔ اس جھٹکے کو سنبھالنا پاکستان کی طاقت سے باہر ہوگا الا یہ کہ معاشی پالیسیوں میں فوری طور پر بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ دریں اثناء جون 2017ء سے نومبر 2017ء کے 5؍ماہ میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 3.5؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی تھی۔
مالی سال 2014ء اور مالی سال 2017ء کے 4؍برسوں میں پاکستان کی مجموعی برآمدات تقریباً 88؍ارب ڈالر تھیں۔ پاکستان نے اسی مدت میں چین کو صرف 7.62؍ارب ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ امریکہ و برطانیہ کو کی جانے والی برآمدات کا مجموعی حجم 20.1؍ارب ڈالر تھا۔ اسی مدت میں پاکستان نے چین سے تجارت میں 36.4؍ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ دکھلایا جبکہ امریکہ اوربرطانیہ کے ساتھ تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں رہا۔ چین اب سی پیک کے تحت پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے البتہ وہ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے بھارت کی ناراضی کی وجہ سے پیچھے ہٹتا نظر آرہا ہے۔
پاکستانی برآمدات آج بھی 2011ء کی برآمدات سے کم ہیں۔ اس زبردست ناکامی کی وجوہات میں (1) وفاق اور چاروں صوبوں کا ٹیکس کی چوری ہونے دینا اور طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات دینا، چاروں صوبوں کا غیرمنقولہ جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے سے انکار کرنا، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کی مدد سے لوٹی ہوئی دولت کو بھی سفید ہونے دینا، دسمبر 2016ء میں ملک میں پراپرٹی کی خریداری میں کالے دھن کے استعمال کی اجازت دینا اور ان سے ہونے والے اقدامات کو کم کرنے کے لئے پیٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھاتے چلے جانا (2) زراعت کے شعبے کو نظرانداز کرنا اور (3) ہائی ٹیک بڑھانے میں مختلف وجوہات کی بناء پر دلچسپی نہ لینا شامل ہیں۔ اگر پاکستان تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے ترسیلات پر انحصار برقرار رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہتا ہے تو وہ کبھی بھی امریکہ کے سامنے سر نہیں اٹھا سکے گا۔
امریکہ کو اب بھی دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے چنانچہ وہ فی الحال پاکستان کے خلاف انتہائی اقدام اٹھانے سے اجتناب کررہا ہے۔ حکومت پاکستان موجودہ مالی سال میں امریکی امداد کی مکمل بندش کے باوجود آئی ایم ایف سے قرضہ لئے بغیر اپنی تمام بیرونی ذمہ داریاں پوری کرسکتی ہے چنانچہ ملک میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لئے امریکہ کو دندان شکن جواب دے رہی ہے مگر ساتھ ہی بیک ڈور ڈپلومیسی بھی جاری ہے کیونکہ اگست 2018ء میں پاکستان کو امریکہ کی سفارش پر ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہوگا۔
دریں اثنا سیاسی افراتفری، اداروں میں ٹکرائو، معیشت کی تنزلی، امریکہ کے انتہائی معاندانہ رویہ اور بے یقینی کی صورت حال سے جو بحرانی کیفیت وطن عزیز میں پیدا کردی گئی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر غورکیا جارہا ہے جس کے تحت پاکستان سے لوٹ کر یا ٹیکس چوری کرکے جو دولت ملک سے باہر منتقل کی گئی تھی اس کو واپس لانے پر معمولی ٹیکس ادائیگی پر معافی دے کر سفید بنادیا جائے۔ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ وطن عزیز میں ایک درجن سے زائد ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں آچکی ہیں مگر چونکہ ملک میں معیشت دستاویزی نہیں ہے اس لئے وہ ناکام رہیں البتہ لوگوں کو لوٹی ہوئی دولت سفید بنانے کے مواقع وقتاً فوقتاً ملتے رہے۔
وفاقی و صوبائی حکومتوں، پارلیمینٹ، صوبائی اسمبلیوں اور قومی سلامتی کمیٹی کا یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ فوری طور پر ایک ایسی حکمت عملی پر اتفاق رائے پیدا کریں جس کے تحت کسی بھی بڑے داخلی یا بیرونی جھٹکے سے معیشت کو محفوظ رکھا جاسکے اور اگست 2018یا اس کے بعد آئی ایم ایف سے قرضہ لئے بغیر گزارا کیا جاتا رہے۔ ریاست کے تمام ستونوں کو اس ضمن میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ امریکہ تو اس وقت کا انتظار کررہا ہے جب اس جنگ میں اسے پاکستان کی مدد کی ضرورت نہ رہے مگر ہم اس مہلت کو وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی پالیسیاں برقرار رکھ کر ضائع کررہے ہیں۔ ہمیں اس وقت سے خوف آتا ہے جب دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ کو عملاً پاکستان کی مدد کی ضرورت نہیں رہ جائے گی اور پاکستان قرضے کے تجارتی پیکیج کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرے گا۔

تازہ ترین