• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز پہلے صدر ٹرمپ نے اپنے سیکورٹی کے مشیروں سے پوچھا کہ پاکستان کے معاملے میں کیا بہتری ہے؟ اس سوال کا پس منظر یہ تھا کہ امریکہ کو پاکستان سے شکایت رہی ہے کہ وہ افغانستان میں کارروائیاں کرنے والے جنگجوئوں کو مدد فراہم کرتا ہے جسکی وجہ سے امریکہ کو افغانستان میں تاریخ کی طویل ترین اور مہنگی ترین جنگ لڑنی پڑی ہے اور ابھی تک امریکہ افغان جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور پھر بعد میں تقریروں اور بیانات کے برعکس صدر ٹرمپ نے حال ہی میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کی بجائے مزید بڑھا دی ہیں۔ افغان پالیسی کی تشکیل کے دوران جنگجو مشیروں کی رائے صدر ٹرمپ کی ذاتی رائے پر حاوی رہی اور امریکہ نے جو نئی افغان پالیسی تشکیل دی ہے اسکے مطابق امریکہ یہ بات تسلیم کر چکا ہے کہ وہ مکمل طور پر طالبان کو شکست نہیں دے سکتا اس لئے اب اسکا مطمح نظر صرف ان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے تاکہ وہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی قابلِ عمل معاہدہ کرا کے افغانستان میں ایک محدود تعداد میں فوج رکھ کر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر سکے۔ ظاہر ہے ایسا فوری طور پر ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کا ایک بہت بڑا حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ طالبان اسی صورت مذاکرات کی میز پر آ سکتے ہیں اگر امریکہ انکو ایک خاص حد تک کمزور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ سو امریکہ کا ارادہ ہے کہ جب تک حالات معاہدے کیلئے سازگار نہیں ہوتے اس وقت تک امریکہ افغانستان میں ایک ایسا اسٹیٹس کو برقرار رکھے گا جو امریکہ کی حمایت سے قائم افغان حکومت کیلئے مددگار رہے۔ اور اس مقصد کے حصول کیلئے امریکہ نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ اضافہ ایک وقتی اقدام ہے، امریکہ اس کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا۔ دیرپا حل طالبان کی جنگی محاذ پر کمزوری، مذاکرات کا آغاز اور پھر ایک قابل قبول معاہدہ ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کی نظر میں اس دیرپا حل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے کیونکہ مشترکہ سرحد اور سرحد کے دونوں اطراف بسنے والے پشتون قبائل کے تاریخی، ثقافتی اور جنگی رابطوں کی وجہ سے طالبان کو ملنے والی سپورٹ ختم کئے بغیر انہیں کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ سو صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کا اہم جزو پاکستان پر ہر طرح کا دبائو ڈال کر اسے افغان طالبان خصوصا حقانی گروپ کی حمایت سے دستبردار کرانا ہے۔
ایک موقر جریدے کے مطابق صدر ٹرمپ اپنے مشیروں سے بریفنگ لے رہے تھے جہاں پر انہوں نے پاکستان کے کردار کے بارے میں وہ سوال کیا جس سے اس کالم کا آغاز ہوا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ امریکی حکام پاکستانی ریاست کے اہم کرداروں پر ہر طرح کی کوشش کر چکے ہیں لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود وہ افغان پالیسی بدلنے پر تیار نہیں ہیں۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ تمام کوششیں عوامی سطح سے اوجھل بند کمروں میں کی گئی ہیں۔ اگلے روز صدر ٹرمپ نے نئے سال کے موقع پر پاکستان کے بارے میں ایک سخت دھمکی آمیز ٹویٹ کر دیا۔ اسکا مقصد پاکستان ریاست پر ڈالے جانے والے دبائو کو نہ صرف عوامی سطح پر لانا تھا بلکہ اس ٹویٹ کے بعد مختلف مد میں ملنے والی امداد کی بندش سے پاکستانی ریاستی فیصلہ سازوں کو بھی یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ پاکستان کو ہر صورت اپنی افغان پالیسی بدلنی پڑے گی۔ امریکی حکام کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی نہ تو عوام نے بنائی ہے، نہ اسے عوامی مینڈیٹ حاصل ہے اور نہ ہی وسیع پیمانے پر عوامی حمایت۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کے صحافتی اور عوامی فورمز پر افغان پالیسی پر بہت زیادہ بحث مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ہے اور عوام کے سامنے کنڑولڈ میڈیا کے ذریعے صرف ایک رٹا رٹایا سا بیانیہ پیش کیا جاتا ہے۔ سو امریکی صدر نے جہاں ٹویٹ کے ذریعے عوامی سطح پر افغان پالیسی پر بحث چھیڑ دی ہے تو ساتھ ہی ساتھ امداد بند کر کے سیکورٹی اداروں کو سخت پیغام دیا ہے کیونکہ امریکی امداد کا غالب حصہ انہی پر خرچ ہوتا ہے۔ مغربی میڈیا کے مطابق اعلیٰ امریکی حکام کی طرف سے یہ اشارے بھی دیئے جا رہے ہیں کہ یہ دبائو یہیں پر رکنے والا نہیں ہے بلکہ امریکی حکام مزید سخت اقدامات کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔
ہمارے جیسے جمہوریت پسند پہلے دن سے پاکستان کی افغان پالیسی کے ناقد رہے ہیں، سو آج بھی ہیں۔ وجہ اسکی بڑی سادہ ہے کہ تزویراتی گہرائی جیسے متروک اور خیالی تصور کے زیر اثر چند عاقبت نا اندیش ذہنوں کی یہ پیداوار ہے۔ وہی ذہنیت جو پاکستان میں آئین توڑنے اور جمہوری حکومتوں کو گرانے کی عادی تھی، اسکا خیال تھا کہ افغانستان کے اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھا کر مسلح جنگجوئوں کے ذریعے افغانستان کو بھی فتح کر لیا جائے گا۔ نہ یہ ہونا تھا نہ ہوا، کیونکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی شکل میں ایک بین الاقوامی اتفاقِ رائے پروان چڑھ چکا تھا کہ کوئی ملک دوسرے ملک کو بزور طاقت فتح نہیں کرے گا۔ سرد جنگ کے زمانے میں اگرچہ سپر پاورز اس اصول کی اکا دکا خلاف ورزیاں کرتی رہیں لیکن اسکے باوجود یہ اصول مسلمہ رہا۔ اسی وجہ سے روس کو افغانستان چھوڑنا پڑا، اسی وجہ سے امریکہ کو افغانستان، عراق، لیبیا وغیرہ کو جنگ سے تباہ کرنے کی چھوٹ تو ملی ہے لیکن وہ ان ممالک کو اپنا حصہ نہیں بنا سکا۔ اسی اصول کے تحت بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ تو کیا لیکن وہ بنگلہ دیش کو بھارت میں شامل نہیں کر سکا۔ تو ایسے میں ہم افغانستان کو پانچواں صوبہ کیسے بنا سکتے تھے؟ الٹا ہم نے اس افغان پالیسی کی بدولت پوری دنیا کو اپنے خلاف کر لیا۔ نائن الیون کے بعد تو اس پالیسی کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہی لیکن اسکے بعد بھی یہ پالیسی کسی نہ کسی شکل میں ہماری افغان پالیسی کا حصہ رہی۔ سو اس پالیسی کے نتیجے میںپورا ملک خانہ جنگی، دہشتگردی اور معاشی تباہی کی نذر ہو گیا۔ لیکن پھر بھی پالیسی نہ بدلی۔ اور اب حالات اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ وزیر دفاع کو امریکی حملے کے خدشے کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے۔ کم از کم مجھے ہر گز کوئی ایسی غلط فہمی نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دے گا۔ ہر پاکستانی کی طرح پاکستان کی خودمختاری، عزت اور وقارمجھے بھی عزیز ہے اور اسکی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کیلئے بھی ہمیں تیار رہنا چاہئے لیکن ایک ایسی پالیسی جو آمرانہ ادوار میں آمرانہ ذہنیت کی پیداوار ہو اور جس نے پاکستان کو پوری دنیا میں تنہا کر دیا ہو اور جو پاکستان کے تمام ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا باعث ہو اسکی خاطر امریکہ جیسی سپر پاور کو کہنا کہ آ بیل مجھے مار، کسی طور درست طرزِعمل نہیں۔ عرصے سے امریکی ڈرون پاکستانی خودمختاری کا مذاق اُڑا رہے ہیں، ایبٹ آباد آپریشن میں پاکستانی ریاست امریکیوں کا بال بیکا نہیں کر سکی اور پوری دنیا میں ذلت علیحدہ اٹھائی، ریمنڈڈیوس کو انہی عناصر نے ذلت آمیز طریقے سے چھڑوایا جو وقتاََ فوقتاََ عوام کے امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکاتے رہتے ہیں۔ یہ ساری رسوائیاں افغان پالیسی کی ہی دین تھیں۔ اگر اب بھی نہ بدلی تو نہ جانے یہ افغان پالیسی اور کیا دن دکھلائے گی۔

تازہ ترین