جب علامہ طاہرالقادری کی پاکستان آمد کا طبل بجتا ہے اور وہ اپنے نصف وطن کی سرزمین پر قدم رنجہ فرماتے ہیں تو اس شہر کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگتی ہیں جسے انہوں نے اپنے قیام اور سیاسی تجربات کیلئے منتخب کیا ہوتا ہے۔ شطرنج کے کھلاڑی کی اگلی چال کی طرح محترم علامہ صاحب کے بارے میں کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ اگلے لمحے کیا کر بیٹھیں؟ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں اور اُن کی اس طاقت کا سرچشمہ وہ بے دام فدائین کا انبوہِ کثیر ہے جو چراغ کے جِن کی طرح بے چوںوچرا اُنکا ہر حکم بجا لاتا ہے اور جس کا تحیر خیز نظارہ، اسلام آباد اپنی جاگتی آنکھوں سے اس وقت کرچکا ہے جب2013کے الیکشن سے پہلے پاکستان عوامی تحریک نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف اسلام آباد کی اہم اور مصروف ترین سڑک قائداعظم ایونیو پر دھرنا دیکر اُسے ہفتوں بلاک کئے رکھا تھا اور سردی میں اوپر نیچے ہر طرف سے کھلی جگہ پر تین روز کی مسلسل بارش دھرنے کے شرکاء میں سے کسی ایک کو بھی اپنی جگہ سے ہلا نہ سکی۔
کیا اس دھرنے کا پوشیدہ ایجنڈا بھی کوئی تھا؟ ممکن ہے ایسا ہو۔ جو پیپلزپارٹی کی مذاکراتی ٹیم یا اس کے شریک چیئرپرسن اور سابق صدر مملکت آصف زرداری اور جناب طاہرالقادری کے درمیان افہام وتفہیم سے طے پا گیا ہو۔ ورنہ قادری صاحب کی پاکستان عوامی تحریک کے اعلان شدہ مطالبات تو اتنے بھاری بھرکم اور وسیع ترنوعیت کے تھے کہ کسی بھی حکومت کی طرف سے انہیں تسلیم کیا جانا ممکن نہ تھا۔ مختصر الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ علامہ قادری پورے ملکی نظام کی تطہیر چاہتے تھے، اوپر سے نیچے تک مکمل اصلاحات اور وہ بھی آنے والے عام انتخابات سے قبل جس کے انعقاد میں صرف چند ماہ باقی تھے اور اگر وقت کی قلت کے پیش نظر ان کے مطالبات پر فوری عملدرآمد ممکن نہیں تو انتخابات کے التوا کا اعلان کیا جائے اور یہ کہ پہلے اصلاحات پھر انتخابات کا مطالبہ پورا ہونے تک وہ دھرنا جاری رکھیں گے۔ لیکن اس بلندآہنگ ڈرامے کا اینٹی کلائمیکس انتہائی مایوس کن رہا۔ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری جو اب تک حکومت کے ساتھ مذاکرات سے مسلسل انکار کرتے چلے آئے تھے اچانک ایک شام اپنے کنٹینر پر چند وزراء پر مشتمل حکومتی ٹیم کا خوشدلی سے خیرمقدم کرتے نظر آئے۔ اگلے روز بھی شام ڈھلے یہی صورت حال ٹی وی اسکرینز پر دکھائی دی۔ تیسری شام ایک خفیہ مذاکراتی ملاقات کا اہتمام ہوا جو نسبتاً مختصر تھی اور ایک مبہم مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ جس کے نتیجے میں حکومت بھی قائم ودائم رہی، نظام کی تطہیر اور اصلاحات کا عمل بھی جاری نہ ہوسکا اور عام انتخابات بھی کامیابی سے منعقد ہوگئے۔ جب کہ دھرنے کے چیف ایگزیکٹو مولانا طاہرالقادری اُسی شام مشترکہ اعلامیے کے فوری بعد اپنے لاثانی، بے دام فدائین کے انبوہِ کثیر کو دھرنے کے گردانتے ہوئے خیموں کی طنابیں کھول دینے کا حکم دے کر اگلی صبح اسلام آباد سے براہِ راست اپنے دوسرے نصف وطن کینیڈا روانہ ہوگئے۔ آئے بھی وہ، گئے بھی وہ، لو ختم ’’تماشا‘‘ ہوگیا۔
انہی دنوں، دوسری طرف مولانا طاہرالقادری نے سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست بھی دائر کر رکھی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ موجودہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کر کے ادارے کی تشکیل نو کی جائے جسے سپریم کورٹ نے اس بنا پر مسترد کردیا تھا کہ وہ غیر متعلقہ شخص ہیں کیونکہ دُہری شہریت رکھتے ہوئے وہ پارلیمنٹ کے رکن بننے کی اہلیت نہیں رکھتے تو گویا قادری صاحب 2013کے انتخابات کے التواء اور اپنے مطالبات کے حصول میں بری طرح ناکام رہے۔ اس پر سوال اُٹھے گا اور ماضی میں وقفے وقفے سے اٹھتا بھی رہا ہے کہ محترم کو سیاسی یا مالی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوا تو اس سارے تام جھام اور ’’کھڑاک، کا مقصد کیا تھا؟ کیونکہ جب ان کی کینیڈا واپسی ہوئی تو سیاسی طور پر مولانا کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔
اب ذرا آگے بڑھتے ہیں، 2014کے منظرنامے کی طرف۔ عمران خان مایوسی کا شکار ہورہے تھے۔ نوازشریف کے خلاف2014کے انتخابات میں دھاندلی کیس کا فیصلہ خان صاحب کی توقعات کے برعکس آیا تھا اور ردعمل میں وہ اپنی بھرپور سیاسی قوت کے ساتھ اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا دینے کا فیصلہ کرچکے تھے جسے نوازشریف کی اقتدار سے علیحدگی تک جاری رہنا تھا۔ یہ سیاسی صورتحال ہمارے سمندر پار کے مسافر کے لئے گویا دعوت مبارزت تھی۔ وہ اپنے دوسرے وطن میں بیٹھا، اپنے پہلے وطن کی طرف کوچ کے لئے بے قرار تھا۔ پاکستان میں ملکی سطح پر عام انتخابات کے لئے برسراقتدار آنے والی حکومت کے دوسرے سال میں ہی اسے اقتدار سے نکال باہر کرنے کے فری فار آل مقابلوں کا اجرا ہو چکا تھا اور ہزاروں میل دور بیٹھے ہمارے مستقل مسافر کی ان مقابلوں میں کود پڑنے کی بے چینی دیدنی تھی جس کا اظہار میڈیا میں اس کے پے در پے جوشیلے بیانوں سے لگایا جا سکتا تھا۔
آخر کار علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کا طبل بجا۔ اس دوران منادی ہو چکی تھی کہ فائنل مقابلے کا آغاز 14 اگست 2014 کو لاہور سے ہوگا اور نتیجے کے اعلان کے لئے دھرنا اسلام آباد میں ہوگا جو من مانے نتائج کے حصول کے لئے غیر معیّنہ مدت تک جاری رہے گا۔
ہمارے نصف پاکستانی ہم وطن ڈاکٹر مولانا طاہر القادری کی کینیڈا سے عارضی واپسی حسب سابق ایک بار پھر بڑے کرّوفر سے ہوئی تھی حالانکہ 2013 میں جب وہ چند ہفتے بعد اسلام آباد میں اپنا دھرنا جھاڑ کے اٹھے تھے تو ان کے پاس اگر سیاسی اثاثہ کوئی تھا تو بظاہر اس میں کچھ باقی نہیں بچا تھا ۔ لیکن جب وہ عمرانی دھرنے پر واپس آئے تو ان کی وہی پرانی شان لوٹ آئی تھی اور انہوں نے آتے ہی اعلان کردیا کہ وہ نواز حکومت کو گرانے کے لئے اسلام آباد کی طرف سفر کا آغاز تنہا کریں گے اور ڈاکٹر صاحب نے اپنا یہ عہد نبھایا بھی۔ اسلام آباد میں بھی دونوں دھرنے متوازی چلتے رہے۔
عمران خان امپائر کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں تھے اور اس انتظار میں دھرنے پر 126دن گزار دئیے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ طاہرالقادری، عمران سے کہیں پہلے دھرنا چھوڑ کر جاچکے تھے۔ اپنے اسی پرانے مخصوص انداز میں شام کے خطاب کیلئے اٹھے اور انتہائی غیر متوقع طور پر دھرنے کے پیک اپ کا حکم دے کر اپنے کنٹینر میں واپس چلے گئے۔ ان کی یہ غیر مستقل مزاجی اور اضطراری کیفیت شکوک کیساتھ کئی سوالوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب یہ دعوی بھی کرتے ہوں کہ اسلام آباد کے پہلے دھرنے پر انکے اخراجات کا تخمینہ ایک سے دو کروڑ روپے یومیہ تھا۔ اگر کم از کم ایک کروڑبھی مان لیاجائے اور انکے فدائین کے انبوہِ کثیرکی تعداد پانچ سے دس ہزار کے درمیان ہوتی ہے جو انکے ہر دھرنے کے مستقل حاضرین ہوتے ہیں اور جن کے تمام اخراجات طاہرالقادری خود برداشت کرتے ہیں۔ دونوں دھرنوں کے100دن بھی منہا کریں تو کم از کم تخمینہ بھی ایک ارب سے اوپر جاتا ہے اور اسکے عوض دونوں دھرنوں سے اُنہیں کیا حاصل ہوا؟ اور اتنا مہنگا کھیل وہ کیوں اور کس لئے یا کس کیلئے کھیل رہے ہیں؟ اور اب علامہ طاہرالقادری احتجاج کے مشن پر نکلے ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں ان کی حلیف ہیں جو تخت پنجاب کی جنگ میں ایک دوسرے کی حریف ہیں اور تینوں ماڈل ٹائون کے شہیدوں کے ورثاء کو انصاف دلانے نکلے ہیں۔ تینوں پنجاب کے وزیراعلیٰ کوتختِ لاہور سے گرانا چاہتے ہیں۔ تینوں کے ہاتھوں میں عَلم شہیدوں کیلئے انصاف کا ہے لیکن دلوں میں ٹارگٹ شہبازشریف۔
ہوسکتا ہے کامیابی کی صورت میں عمران کو پنجاب میں چند سیٹیں زائد مل جائیں اور پیپلزپارٹی لاہور میں ایک آدھ سیٹ نکال لے۔ مگر منافقت سے بھری اس سیاسی جنگ میں علامہ قادری کیا حاصل کر پائیں گے؟ کیا وہ صدقِ دل سے یقین رکھتے ہیں کہ شہباز کے استعفے سے وہ ماڈل ٹائون کے شہیدوں کے لئے انصاف حاصل کرلیں گے؟ شاید نہیں کیونکہ سیاسی میدان کے حالیہ ٹرینڈ میں انصاف صرف عدلیہ سے ملے گا۔ باقی سب کہانیاں ہیں اور شاید قادری صاحب کا احتجاج دھرنے تک نہ پہنچ سکے اور وہ اس سے پہلے ہی اپنے دوسرے وطن کو سدھار چکے ہوں۔