• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض اوقات بظاہر بہت ہی چھوٹے اور غیر اہم سے واقعات سیاسی ماحول پر اتنا گہرا اثر ڈالتے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے منظر نامہ تبدیل ہونے لگتا ہے۔ اندازہ اور گمان یہ تھا کہ عمران خان اور آصف علی زرداری کا طاہر القادری کے کنٹینر تک آجانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ طاہر القادری تو اب پارلیمانی سیاست کے کھلاڑی نہیں رہے۔ مشرف کے دور میں عمران خان اور قادری صاحب کو ایک ایک سیٹ عطا کر دی گئی اوردونوں 2002 میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کا حصہ بنے۔ دونوں نے پارلیمنٹ میں کیا کردار ادا کیا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔ طاہر القادری نومبر 2004 میں استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ انہیں وزارت عظمیٰ کی جھلک دکھائی گئی تھی۔اسی کشش میں انہوں نے پرویزمشرف کے ریفرنڈم میں تن من لگا دیا۔ انہیں اسمبلی تک تو پہنچا دیا گیا ، لیکن وزیر اعظم ہائوس تک رسائی ممکن نہ ہوئی۔ اکتالیس صفحات پر مشتمل اپنے استعفے میں انہوں نے ان گنت اسباب گنوائے جن میں پر ویز مشرف پر وعدہ خلافی کا الزام بھی شامل تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، وہ انتخابی پارلیمانی سیاست سے بہت دور چلے گئے۔ انہیںشاید اندازہ ہو گیا تھاکہ اب کوئی سیڑھی انہیں وزارت عظمیٰ کے چوبارے تک نہیں پہنچا سکتی۔لیکن ایک سیاسی کردار کے طور پر انہوں نے خود کو زندہ رکھا۔اس کردار کا ہنر یہ ہے کہ وہ پارلیمانی انتخابی سیاست میں کسی بھی وقت بھونچال پیدا کر سکتا ہے۔ انتشار اور افراتفری پیدا کرنے والے عناصران سے بہت سی امیدیں لگائے رکھتے ہیں۔ عمران خان نے بھی مشرف کے ریفرنڈم میں بھر پور کردار ادا کیا۔ انہیں بھی وزارت عظمیٰ کا چکمہ دیا گیا تھا۔ انہیں بھی اپنی نشست کے ساتھ قومی اسمبلی میں پہنچا دیا گیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے لکھا ہے کہ خان صاحب ایک سو نشستیں مانگ رہے تھے۔ قادری صاحب کی طرح عمران خان کو بھی مشرف سے شدید مایوسی ہوئی۔ وہ مستعفی تو نہ ہوئے لیکن عملاََ اسمبلی سے لا تعلق ہو گئے۔
عمران خان کی تحریک انصاف اور آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کے درمیان تلخی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ خان صاحب اپنے طور پر کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ اگرچہ انکا اصل نشانہ نواز شریف ہیں لیکن کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے کسی بھی شخص کیلئے ممکن نہیں کہ وہ آصف زرداری کا تذکرہ نہ کرے۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان واحد قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہیں۔ 28 جولائی کو نواز شریف کی نا اہلی سے دونوں جماعتوں کو خوشی ہوئی۔ دونوں کو لگا کہ اب انکا سب سے بڑا حریف قصہ پارینہ ہو گیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ کا چراغ کسی بھی وقت گل ہو سکتا ہے۔ رہی مسلم لیگ(ن) ، تو اسکا تتر بتر ہو نا اب نوشتہ دیوار ہے۔ ایسا نہ ہوا۔ نوا زشریف متحرک بھی رہے اور انکی مقبولیت میں بھی کمی نہ آئی۔ انکی نا اہلی کے بعد ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی۔ پی پی پی تو ایک لگے بندھے راستے پر چل رہی تھی۔ لیکن " گو نواز گو" کے نعرے کے اصل محرک عمران خان تھے۔ وہ پوری قوت سے اس نعرے کو لے کر آگے بڑھتے رہے۔ انکی یہ آرزو2014 سے لے کر 2017 تک جاری رہنے والے پے در پے دھرنوں سے تو پوری نہ ہوئی، لیکن عدالت عظمی کا ایک فیصلہ انکی خواہش پوری کر گیا۔مسئلہ یہ ہوا کہ خان صاحب چار برس سے " گو نواز گو" کی جو مہم چلا رہے تھے، اسکی مکمل کامیابی اور حتمی فتح کا آخری فیصلہ کن نکتہ یہی تھا کہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے الگ کر دیا جائے۔ یہ ہو گیا۔خان صاحب کی فتح کواس بات سے اور بھی تقویت ملی کہ نواز شریف کو زندگی بھر کیلئے نا اہل قرار دے دیا گیا ۔ خان صاحب کچھ دن تو اپنی اس عظیم سیاسی کامیابی پر بہت خوش رہے لیکن رفتہ رفتہ انہیں احساس ہونے لگا کہ نواز شریف کا نا اہل ہو کر وزارت عظمیٰ سے الگ ہو جانا، انکے کسی کام نہیں آیا تو وہ پریشان ہو گئے۔ انہوں نے" گو نواز گو" سے آگے نہ سوچا تھا نہ کوئی حکمت عملی بنائی تھی۔اب انکے پاس نہ کوئی نعرہ تھا نہ بیانیہ۔ جب سپریم کورٹ نے انکے حق میں فیصلہ دیا تو ن لیگ کی توپوں کے رخ انکی طرف مڑ گئے۔ نواز شریف نے انہیں"لاڈلا" قرار دیا جو میڈیا میں جگہ بنانے لگا۔ خان صاحب بے سمتی کے اس مرحلے میں فوری انتخابات کا بے معنی اور غیر منطقی نعرہ لگانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔
کچھ امید انہوں نے حدیبیہ کیس سے لگائی جو پوری نہ ہو ئی۔ یہ تھا بے بسی اور بے چارگی کا وہ لمحہ جب انہوں نے" مال روڈ شو "پر طاہر القادری کے کنٹینر پر سوار ہونے کا فیصلہ کیا۔ اور اسی دبائو کے تحت انہوں نے با لواسطہ زرداری صاحب کے ساتھ کا کڑوا گھونٹ بھی پی لیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ ممکن ہے" گو نواز گو "کے بعد چھا جانے والی بے یقینی اور مایوسی کی دھند سے کوئی نیا سیاسی بھونچال پیدا ہو جائے اور نواز شریف کے حق میں مڑ جانے والا منظر کوئی نیا رخ اختیار کر لے۔ اور یہی تھا وہ چھوٹا سا واقعہ جس نے سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ 17 جنوری کو لاہور کی نہایت مصروف اور مرکزی شاہراہ مال روڈ پر کنٹینر لگا۔ حد نظر تک ہزاروں کرسیاں بچھیں۔ پورا پاکستان نگاہیں لگائے بیٹھا تھا کہ دیکھو لاہور سے کس طرح کا بھونچال اٹھتا ہے۔ میڈیا کا ایک حلقہ کسی انقلاب کی امید لگائے بیٹھا رہا لیکن جو کچھ ہوا ، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ پہلی بار ہر طرح کی سیاسی تفریق اور تقسیم سے ہٹ کر پورے قومی میڈیا نے ہم آواز ہو کر کہا کہ یہ ایک ناکام اور فلاپ شو تھا۔ پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق کو بھی اسکی تصدیق کرنا پڑی۔
17 جنوری کے اس فلاپ شو کے اثرات ابھی تک جاری ہیں۔ شاید جلسے کی خالی کرسیوں نے شیخ رشید کا بلڈ پریشر بڑھا دیا اور انہوں نے پارلیمنٹ سمیت پتہ نہیں کس کس پر لعنت بھیج دی۔ ماحول کا منفی اثر عمران خان کے دل و دماغ پر بھی پڑا اور انہوں نے بھی شیخ صاحب کی تقلید میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنا ضروری سمجھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف چار سال پہلے 2014 کے دھرنے والی کیفیت میں داخل ہو گئی جسے سیاسی تنہائی (isolation) کہتے ہیں۔ اس ناکام شو کا جواب مسلم لیگ (ن) نے ہری پور کے ایک بڑے جلسے سے دیا۔ گمان یہ ہے کہ خان صاحب بھی مستقبل قریب میں ایک بڑا جلسہ کر دکھائیں گے (جسکی وہ بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں)۔ لیکن چند باتیں طے ہو گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اب سانحہ ماڈل ٹائون پر سیاست مشکل ہو گئی ہے۔ دوسری یہ کہ خان صاحب بلکہ زرداری صاحب بھی اب قادری صاحب کے قریب نہیں جائیں گے۔ تیسری یہ کہ عمران خان سیاسی طور پر مکمل تنہا ہو گئے ہیں۔ چوتھی یہ کہ اب سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتخابات پر چھائی دھند چھٹ گئی ہے۔ پانچویں یہ کہ فوری انتخابات کے مطالبے میں اب کوئی جان نہیں رہی اور چھٹی یہ کہ اب خان صاحب کو پانامہ، حدیبیہ، ماڈل ٹائون اور نیب ریفرنسز جیسے کھیل تماشوں سے ہٹ کر آنے والے انتخابات کی کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانا ہو گی۔

تازہ ترین