• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بھی گنے کی فصل کا موسم آتا ہے ہمارا کاشتکاراپنی مہینوں کی محنت کا سکون سے پھل کھانے کی بجائے سڑکوں پر احتجاج کر رہا ہوتا ہے۔ یہ تماشا ہر سال ہوتا ہے، سو اس سال بھی ہو رہا ہے۔ فصل پکتے ہی کاشتکار کو معلوم ہوتا ہے کہ شوگر مل مالکان کے ہاتھوں اسکے استحصال کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ لیکن چند سالوں سے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حالات میں بہتری آئی ہے۔ اس سال بھی بڑے زور شور سے عوامی وسائل کے ذریعے تشہیری مہم چلائی گئی اور اخباروں سے معلوم ہوا کہ کاشتکار کو 180روپے ریٹ مل رہا ہے۔ تھوڑی تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ریٹ صرف اخباروں میں ہی مل رہا ہے۔ وسطی پنجاب کے ایک کاشتکار کی داستان ملاحظہ کریں۔اسکا کہنا ہے کہ اخباروں میں ریٹ 180اور قریبی مل میں 130 روپے ہے۔ اخباروں سے متاثر ہو کر میں نے قریبی مل کی شکایت کر دی تو اس نے میرا گنا خریدنے سے انکار کر دیا۔ دس دن گنے سے بھری ٹرالیاں باہر کھڑی رہیں، ہر روز ٹرالی اور ڈرائیور کا خرچہ اٹھانا پڑا۔ تنگ آکر گنا ساتھ والے ضلع کی مل میں بھیجا لیکن اس مل والوں کو پہلے ہی میری شکایت والی حرکت کے بارے میں بتا دیا گیا تھا، کئی روز تک اس مل والوں نے بھی گنا نہ خریدا۔ بالآخر منت سماجت کرنے پر یہ طے ہوا کہ ریٹ 128 روپے ہو گا اور 600 من کے پیچھے 150 من کی کٹوتی ہو گی۔ بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، سو وہ گنا بیچ دیا۔ باقی ماندہ گنے کیلئے واپس اپنی قریبی مل والے کی منت سماجت کی، بڑی مشکل سے معافی تلافی ہوئی۔ اور اب گنا اسی کو 130 روپے میں بیچ رہا ہوں۔ چار پانچ دن ٹرالی انتظار کرتی ہے اور کٹوتی 600 من کے پیچھے 90 من۔ "یہ تو بڑی زیادتی ہے"، میں نے ہمدردی کا اظہار کیا۔ تو وہ بولا کہ اس ملک میں کاشتکارپِس چکا ہے۔ پورا ملک دو نمبری پر چل رہا ہے لیکن کاشتکاری ان بدقسمت پیشوں میں شامل ہے جہاں دو نمبری کی بھی گنجائش نہیں۔ کاروباری لوگ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور ٹیکس چوری کی دو نمبری کر لیتے ہیں۔ سرکاری ملازم کرپشن، کام چوری اور سرکاری وسائل کا ذاتی استعمال کر کے دونمبری کرتے ہیں۔ سیاستدان ٹھیکے، پرمٹ، سرکاری کام کروا کر دو نمبری کرتے ہیں۔ اصحاب قلم، اصحاب وقار اور اصحاب توقیر کے اپنے اپنے گُر ہیں۔ حتی کہ ایک ریڑھی بان بھی دکھاتا کچھ ہے اور دیتا کچھ ہے۔ لیکن میں ایک کاشتکار ہوں مجھے بتائیں میں کیا دونمبری کر سکتا ہوں؟ میں نے جب ایک کاشتکار سے یہ معصومانہ سوال سنا تو غیر ارادی طور پر فوراََ اپنے ذہن میں کسان اور کاشتکار کی ممکنہ دونمبریوں کا کھوج لگانے لگا۔ آپ خود بتائیں، وہ دوبارہ گویا ہوا، کہ جب میں فصل تیار کرنے کیلئے بیج، کھاد، اسپرے خریدنے جاتا ہوں تو ہر جگہ میرے ساتھ دونمبری ہوتی ہے اور جب میں کئی مہینے کی محنت سے فصل تیار کر کے بیچنے جاتا ہوں تو ایک دفعہ پھر آڑھتیوں اور مل مالکان سے واسطہ پڑتا ہے۔ آپ خود بتائیں میں ان لوگوں کے ساتھ کیا دو نمبری کر سکتا ہوں؟ جب میں اپنی کاشتکاری کا خام مال خریدنے جاتا ہوں تو کبھی مجھے یہ اشیا مہنگے داموں ملتی ہیں، کبھی دو نمبر نکلتی ہیں اور کبھی دکاندار کے نام سے جو ٹیکس جمع ہوتا ہے وہ دراصل مجھ سے وصول ہوتا ہے۔ اور جب میں اپنی فصل بیچنے جاتا ہوں تو کوئی مجھے میری فصل کا ریٹ کم دیتا ہے، کوئی اس میں سے کٹوتی کاٹ لیتا ہے اور کوئی مجھ سے مال لیکر پیسے ادھار کر لیتا ہے۔ "میں نے سنا ہے کہ فصلوں پر کام کرنے والے مزارعوں کا بہت استحصال ہوتا ہے"، میں نے کاشتکار کی ایک دو نمبری پکڑ ہی لی۔ وہ بولا، ان مزارعوں سے کام لینا میری زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ سارا دن انکے پیچھے بھاگتا ہوں۔ کسی خوشی غمی پر کبھی جانا پڑ جائے تو پیچھے سے کھاد، اسپرے اور پانی بیچ دیتے ہیں۔ کئی تو ایک دیسی شراب کی بوتل کے پیچھے کچھ بھی بیچ دیتے ہیں۔ مجھے بتائیں میں کہاں دونمبری کروں؟ میں خاموشی سے سنتا گیا اور سوچ میں پڑ گیا۔ واقعی عملی زندگی کا جو تھوڑا بہت تجربہ ہوا، ہمارے معاشرے میں کونسا شعبہ ہے جہاں ایمانداری سے بچوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ ایماندار لوگ نہیں ہیں، آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن اکثر اوقات پریشان حال ہی دیکھے ہیں۔ ایسے میں کاشتکاری کا شعبہ ایک ایسا شعبہ بن چکا ہے جہاں جبری ایمانداری رائج ہے لیکن کاشتکار کے بچوں کے پیٹ خالی ہیں۔
زراعت اورکسان کے ساتھ تو جو کچھ ہو رہا ہے سو ہو رہا ہے، سیاست کے شوگر ڈیڈی جو کچھ ملک کی جمہوریت کے ساتھ کر رہے ہیں وہ بھی اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ اب کوئی حجاب، کوئی حیا باقی نہیں رہی۔ انگریزی میں شوگر ڈیڈی اس امیر شخص کو کہتے ہیں جسکی عمر ڈھل چکی ہو لیکن اسکی ہوس پوری نہ ہوئی ہو۔ آپ دیکھ لیں کہ غیر جمہوری اور نام نہاد جمہوری قوتیں پاکستان میں ستر برس کی ہو چکی ہیں لیکن ہوس اقتدار جانے کا نام نہیں لیتی۔ پچھلے ستر سالوں میں کون سی ناکامی ہے جو انہوں نے اس ملک کے نام نہیں کی لیکن پھر بھی جمہوریت بُری، پھر بھی عوام جاہل، پھر بھی پارلیمان پر لعنت۔ پچھلے انتخابات کے ذریعے پاکستان کی ستر سال کی تاریخ کا پہلا پُرامن سویلین انتقالِ اقتدار ہوا لیکن دوسرے بروقت انتخابات کو روکنے کیلئے اب کوششیں نہ صرف عروج پر پہنچ چکی ہیں بلکہ ہر وہ حربہ استعمال کیا جا رہا ہے جس کا آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب جبکہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کو ہے اور انتخابات میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں ایک دفعہ پھر ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ جس سے بروقت انتخابات کے امکانات معدوم ہو جائیں۔ ویسے تو پاکستان کی کوئی بھی حکومت صحیح معنوں میں عوام کی منتخب کردہ اور ترجمان نہیں ہوتی کیونکہ غیر جمہوری قوتیں انتخابات کے عمل کو بہت حد تک غیر شفاف بنا دیتی ہیں اور مختلف حربوں سے وسیع پیمانے پر قبل از انتخابات اور بعد از انتخابات دھاندلی کرتی ہیں لیکن بلوچستان کی حکومت خاص طور پر عوام کی بجائے کہیں اور سے بنائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے عوام اس نظام کو مسترد کر چکے ہیں اسی لئے انتخابات سے دور رہتے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان میں پانچ سو ووٹوں والے وزیر اعلیٰ کا جو کرشمہ ہوا ہے اور غیر جمہوری قوتوں کے مستقبل کے ارادوں پر روشنی ڈالنے کیلئے کافی ہے۔ بلوچستان والا کرشمہ تو ہر کسی کو نظر آ رہا ہے لیکن دراصل پاکستان میں مارشل لا ادوار کے علاوہ باقی کا آدھا وقت جو نام نہاد جمہوری ادوار رہے ہیں وہ بھی سیاست کے شوگر ڈیڈیز کی اسی طرح کی کرشمہ سازیوں کا ہی نتیجہ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے کرشمہ سازی کا یہ کھیل پچھلے ستر سال سے جاری ہے لیکن اس دفعہ ہر جمہوریت پسند کسی معجزے کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ شاید ستر سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ جمہوری قوتیں بازی جیتنے میں کامیاب ہو جائیں۔

 

تازہ ترین