پاکستان کی اوسط سالانہ برآمدات میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ بظاہر تو یہ بہتری خاصی متاثر کن معلوم ہوتی ہے لیکن اس سلسلے میں کسی بھی رجائی پہلو کوجو برآمداتی قدر و قیمت کی افراط زر کے حوالے سے ہو ،توسیع کی روشنی میں دیکھنا ہو گا۔ چنانچہ جہاں ایک جانب پاکستانی برآمدات کی یونٹ ویلیو میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں دوسری طرف پاکستان کی درآمداتی قدر وقیمت مشکل ہوتی جا رہی ہے کیونکہ تجارتی خسارہ جوسالوں سے اعشاریہ بلین ڈالروں میں تھا ،وہ مالی سال تک پہنچتے پہنچتے بلین ڈالروں تک ہو چکا ہے۔
مزید برآں پاکستانی مصنوعات کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی ہر سال کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کو موجودہ قیمت کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کی سالانہ مرکب شرح نمو ماضی کی منصوبہ بندی کے ادوار کی اوسط شرح کے عین مطابق ہے۔ (اب ایسے کسی منصوبے کا کوئی وجود نہیں ہے) چنانچہ اوسط سالانہ برآمدات کی شرح نمو بالترتیب کم رہی ہے۔ لہٰذا پاکستانی معیشت کا برآمدات کی حیثیت سے تعین نسبتاً بہتر تھا، تاہم تیونس، برما، نائیجریا، فلپائن، سری لنکا، مراکش، تنزانیہ، عراق اور ملائیشیا کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بیشتر معاملات میں بہر حال یہ مقابلہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے بامعنی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ برآمداتی تعین عام طور سے ان ممالک میں بلند ہے جن کی معیشتیں غیر معمولی تجارتی نوعیت کی حامل ہیں اور جہاں فصلوں کی بوائی اور تیل و گیس پر انحصار زیادہ سے زیادہ ہے۔
زرعی معیشت:پاکستان میں موجود معدنی ذخائریعنی تیل، گیس ، تانبا اور سونے کوابھی دریافت ہی نہیں کیا گیا۔ پاکستان بنیادی طور پرزرعی ملک ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان اور بھارت کے قیام سے قبل آج جن علاقوں پر پاکستان مشتمل ہے وہ اس دور کے ہندوستان کی اناج کی تمام تر ضروریات کو پورا کیا کرتے تھے۔ اب بھی جب فصلوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں سنگین نقصان پہنچتا ہے، پاکستان اس قابل ہے کہ چاول اور گندم برآمد کر سکے۔ کپاس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ان قیمتوں کو گندم اور چاول کی قیمتوں سے ملا کر بھی جن میں قیمتوں کے عالمی احیا نے اہم کردار ادا کیا ہے، پاکستان کی زرعی معیشت تمام تر دیہی علاقوں کی ضرورت کو پورا کر رہی ہے۔ پاکستان کی اہم برآمدات ٹیکسٹائل، چاول، چمڑے سے بنی اشیاء، اور اسپورٹس کے سامان، کیمیکلز اور قالینوں پر مشتمل ہیں ــــــــــــــــ پاکستانی برآمدات سے ہونے والی پچاس فیصد آمدنی اب بھی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد سے حاصل کی جاتی ہے ۔پاکستان صرف اپنی زراعت پر ہی بھرپور توجہ دے تو وہ اپنی درآمداتی معیشت کو برآمداتی معیشت سے بدل سکتا ہے۔سالہا سال پاکستانی برآمدات بلین ڈالروں تک ہونے کی توقع ہے لیکن دوسری جانب ہماری درآمدات ان برآمدات کو پیچھے بھی چھوڑ جائیں گی۔ بہر صورت مالی سال 2010ء میں جولائی تا دسمبر ہونے والا مالی خسارہ یعنی چھ اعشاریہ آٹھ نو پانچ بلین ڈالر بھی کوئی قابل فخر رقم ہرگز نہیں ہے۔ یہ صورت حال کانوں کی دریافت اور زرعی پیداوار بڑھا کر برآمدات کے ذریعے تبدیل کی جا سکتی ہے۔
مصنوعات کی برآمد:بہرحال برآمد سے ہونے والی آمدنی اس وقت تک حاصل کرنا ناممکن ہو گا جب تک مصنوعات تیار کرنے والی صنعتوں کی بہتر کارکردگی ، اس حقیقت کے باوجود سامنے نہیں آتی کہ جو مصنوعات برآمد کی جا رہی ہیں ان کی اوسط سالانہ قیمتوں میں برابر کمی واقع ہو رہی ہے۔ بہر نوع ماضی کی منصوبہ بندی کے بعد سے برآمدات میں کمی اور درآمدات کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے نتیجتاً تجارتی خسارہ بھی برابر بڑھتا جا رہا ہے افراط زر کی شرح پندرہ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ نجی شعبہ ہمیشہ فنڈز کا بھوکا رہا ہے جب کہ پبلک شعبہ قرضوں پر انحصار کرتا چلا آ رہا ہے۔ قرضوں کی یہ رقم اب بلین ڈالروں تک پہنچ چکی ہے ۔ پاکستان کا مجموعی قرضہ بلین میں ہے ۔ غیر ملکی قرضے اور کریڈٹ درحقیقت ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت کے لئے زیادہ مددگار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشت کے لئے نسبتاً کم سود مند ہوتے ہیں۔ مشینری، خام مال کی بڑے پیمانے پر درآمدات، قرضے لینے والے ممالک کو مقامی سرمایہ کاری، پیداوار اور برآمدات سے محروم کر دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک، بے روزگاری اور غربت و افلاس کا شکار ہو جاتے ہیں جن کا سامنا دنیاکے ان ترقی پذیر ممالک کو بالعموم کرنا پڑتا ہے چنانچہ ترقی پذیر ممالک کے لئے ان مسائل کا حل تعلیم، صحت اور سماجی معاشی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر انحصار کرنے میں مضمر ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کے لئے تو یہ اور بھی ضروری ہے۔اسی طرح کے رویوں سے حقیقی قدر و قیمت میں اضافہ ہو گا نام نہاد امداد ، قرضوں اور کریڈٹس کی وصولی سے کبھی ممکن نہیں۔ جب تک اس نوعیت کے اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت تک امیروں اور غریبوں کے درمیان واقع خلیج مزید وسیع ہوتی چلی جائے گی۔ ترقی پذیر ممالک اور پاکستان بالخصوص اس خاص صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرے اور جتنا جلد اتنا ہی بہتر کے مصداق اس طریقے پر عمل کرے۔ جوبرآمدات اور خود انحصاری سے ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں سے جو امداد ملتی ہے اس بات پربھی شروع سے اصرار کیاہے کہ امداد وصول کرنے والے ان ترقی پذیر ممالک کو اپنے ہی ذرائع اور وسائل پر انحصار کرنا چاہئے۔
معاشرتی ، سیاسی اور معاشی ہم آہنگی:یہ ہم آہنگی منحصر ہو سکتی تھی ترقیاتی فنانس اداروں مثلاً PICICاور IDBPجیسے اداروں کے تعاون سے ۔ طویل میعاد ترقیاتی فنانس فراہم کر تے تھے لیکن اب ان میں سے کوئی بھی ادارہ موجود نہیں اوریہ کمرشل بینکوں نے شروع کردیا ہے تاہم یہ بینک مناسب طریقوں سے یہ کام نہیں کر رہے۔ دیکھا جائے تو کمرشل بنکوں کا یہ کام بھی نہیں۔ بہرکیف وہ نہ صرف ترقیاتی مقاصد کے لئے فنانس فراہم کرتے ہیں بلکہ نان کمرشل بینکنگ کے تمام امور جن میں سرمایہ کاری، بینکنگ، لیزنگ، ایسٹ مینجمنٹ، میوچل فنڈز شامل ہے۔ یہ سب کمرشل بینکنگ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ کسی طرح یہ بے قاعدگی دور کر دی جائے تو برآمداتی معیشت کے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ بالخصوص اس کے نتیجے میں ملک معاشرتی، سیاسی اور معاشی ترقی سے ہم کنار ہو سکے گا۔
ایک فوری حل:فوری طور پر اس کا یہی ایک حل موجود ہے کہ بیرون ملک سے ترسیل زر کی سہولت مہیا کی جائے، جو فی الوقت ایک بلین ڈالر ماہانہ تک پہنچ چکی ہے۔ زیر زمین معیشت پر ٹیکس نافذ کیا جائے۔ ایف بی آر کی ہدایات کے بموجب انڈرانوائسنگ اور ٹیکس کی نادہندگی کو (اگر اسمگلنگ کو نہ روکا جاسکے) روکا جائے۔
عالمی بینک کی حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستانی خزانہ بلین ڈالروں سے محروم ہو رہا ہے۔ یہ رقم اس امداد، قرضہ جات اور کریڈٹس کے مساوی ہے جو انتہائی بلند قیمت پر معیشت کو فراہم کی جاتی رہی ہے۔ زیر زمین معیشت پر ٹیکس کا نفاذ سرمایہ کاری، پیداوار اور برآمدات کیلئے سودمند ثابت ہو گا۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ، روٹی، کپڑا اور مکان مل پائے گا جس کا وعدہ اس ملک کے عوام سے کیا جاتا رہا ہے۔ گلوبلائزیشن سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ یہ عالمی مفادات کی تکمیل کرتا ہے اس طرح ہم ترقی یافتہ ممالک تک اپنی رسائی کو میرٹ کی بنیا د پر یقینی بنا سکیں گے:
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ