• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات تو اب طے ہی نظر آتی ہے کہ 3 مارچ کو سینیٹ کے انتخابات ہو جائیں گے۔ اس مرتبہ ارکان کی خرید و فروخت ) جسے عرف عام میں ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے( کے امکانات کا خاصا چرچا ہے۔ پیپلز پارٹی کا بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی رکن نہیں ، لیکن وہ وہاں سے چار پانچ سینیٹرز کی توقع لئے بیٹھی ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا ہے یا وہ ایک دو سیٹیں ہی لے جاتی ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جادو کی کونسی چھڑی کام آئی ہو گی۔ جادو کی یہ چھڑی خیبر پختونخوا میں بھی کرتب دکھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سندھ کی صورتحال میں بھی بے یقینی کا عنصر موجود ہے۔ ایم کیوایم میں تو اندرونی کشمکش زوروں پہ ہے۔ چونکہ سینیٹ الیکشن کے صرف تین ماہ بعد اسمبلیاں رخصت ہونے والی ہیں اور اسمبلیوں میں بیٹھے ارکان کو اپنی واپسی کا یقین نہیں اسلئے وہ سینیٹ کے انتخابات کو آخری موقع خیال کرتے ہیں۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے استحقاق سے دو تین سیٹیں ذیادہ لے گی۔ لیکن مسلم لیگ (ن) بہر حال سینیٹ میں اکثریتی جماعت ہو گی۔ اتحادی جماعتوں کے تعاون سے اسے اتنی عددی اکثریت ضرور مل جائے گی کہ آسانی کیساتھ قانون سازی کر سکے۔
سینیٹ الیکشن کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی عام انتخابات پر چھائے بے یقینی کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ فوری انتخابات کا مطالبہ اب سنائی نہیں دے رہا اور خان صاحب کی نظریں بھی وسط 2018 میں متوقع انتخابات پر لگی ہیں۔ کسی باضابطہ اعلان کے بغیر ہی انتخابی مہم شروع ہو چکی ہیں۔ تینوں بڑی جماعتیں متحرک ہیں۔ سب سے زیادہ سرگرمی مسلم لیگ (ن) کے محاذ پر نظر آرہی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف مسلسل جلسے کر رہے ہیں۔ ایبٹ آباد، جڑانوالہ، ہری پور، پشاور اور مظفر آباد میں انکے بڑے بڑے جلسوں نے اکثریتی مبصرین کو حیران کر دیا ہے۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا جلسوں کے شرکاء کی بڑی تعداد، انتخابی طاقت میں بھی ڈھل سکے گی یا نہیں۔ لیکن تجزیہ کار اس نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی نا اہلی کے حوالے سے جو موقف اپنایا اور فیصلے کے بارے میں جو جارحانہ حکمت عملی اختیار کی، وہ بڑی حد تک کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ یہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا عجوبہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ جو پارٹی وفاق اور پنجاب میں حکومتیں بنائے بیٹھی ہے اسکا سربراہ سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ میاں صاحب روایتی اپوزیشن سے ہٹ کر " ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ وہ اس بات کو مسلسل دہرا رہے ہیں کہ ستر سالوں میں کوئی ایک بھی وزیر اعظم اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کر سکا جبکہ آمروں نے دس دس برس حکمرانی کی۔ پشاور کے جلسے میں تو انہوں نے کھل کر یہ بھی کہہ ڈالا کہ واضح اکثریت ملنے پر وہ آئین میں ایسی ترامیم کا ارادہ رکھتے ہیں جو انہیں نا اہلیت کے شکنجے سے نجات دلادے گی۔
نہیں کہا جا سکتا کہ میاں صاحب کے ارادوں پر کیا گزرتی ہے لیکن یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ وہ اپنی مقبولیت کی معراج پر ہیں، جس میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ وزیر اعظم کے طور پر اپنے سیاسی مخالفین کیلئے اتنے خطرناک نہیں تھے، جتنے اب ہو گئے ہیں۔ اس سے ثابت ہو تاہے کہ عوامی رائے، عدالتی فیصلوں، سزائوں، الزامات اورا سکینڈلز سے کچھ اثر نہیں لیتی۔ غالبا وہ میڈیا بھی اپنی اثر آفرینی مکمل طور پر کھو چکا ہے جو صبح شام کیچڑ اچھالنے اور کردار کشی کرنے میں لگا رہتا ہے۔کسی بھی لیڈر کو چاہنے والے عوام ایسی باتوں سے کچھ اثر نہیں لیتے بلکہ انکی وابستگی اور بھی زیادہ پختہ ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہوا کہ نواز مخالف جماعتیں کوئی موثر بیانیہ نہ بنا پائیں۔ پیپلز پارٹی بس یہ کر پائی کہ آصف علی زرداری نے کہیں زیادہ کرخت لب و لہجہ اختیار کر لیا۔ عمران خان " گو نواز گو" تک تو بڑی مہارت اور تیزی سے آگے بڑھتے رہے ۔ جو کچھ اپنے دھرنوں یا امپائر کی انگلی سے حاصل نہ کر سکے وہ عدالتی فرمان سے حاصل کر لیا۔ خان صاحب اپنے سب سے بڑے ہدف " گو نواز گو" کو حاصل کرنے کے بعد کامیابی سے کچھ ایسے سر شار ہوئے کہ آگے کا سوچ ہی نہ سکے۔ شاید انہیں یقین تھا کہ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوتے ہی نواز شریف اپنی حیثیت اور اہمیت کھو بیٹھے گا۔ میڈیا اسکی نااہلی اور کرپشن کا ڈنکا بجاتا رہے گا۔ حالات کا جبر اسے منہ چھپا کر گھر بیٹھنے پر مجبور کر دے گا۔ دیکھتے دیکھتے پارٹی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ نیا وزیر اعظم پارلیمنٹ کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکے گا۔ سیاسی ماحول میں ایسا طوفان بپا ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) اس میں غرق ہو جائے گی۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ خان صاحب کے پاس اس غیر متوقع صورتحال کامقابلہ کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہ تھی۔ 28 جولائی سے لے کر آج تک خان صاحب اسی کیفیت کا شکار ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی نواز شریف کی نااہلی سے خاص امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ اس نے پنجاب میں ہلچل پیدا کرنے کی کو شش بھی کی لیکن کوئی خاص نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بے بسی کی یہی کیفیت نواز مخالف دونوں بڑی جماعتوں کو ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینر تک لے گئی۔ اسکا جو نتیجہ نکلا، اس نے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو اور زیادہ مضبوط کر دیا۔
اب پی پی پی اور پی ٹی آئی اپنے اپنے طور پر اس دوڑ میں لگی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ نواز مخالف ووٹ بنک کو اپنی طرف مائل کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران اور زرداری، نواز شریف کے بارے میں زیادہ سخت اور بعض اوقات نا شائستہ لہجہ اختیار کر رہے۔ اسکے ساتھ ساتھ دونوں جماعتوں نے نواز شریف کیخلاف نیب کے ریفرینسز اور دیگر مقدمات سے بھی خاصی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ خان صاحب توباقاعدہ فیصلے سنا رہے ہیں اور سر عام اعلان کر رہے ہیں کہ فلاں تاریخ کو نیب کورٹ سزا سنا دیگی۔ یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم رہے گا کہ اگر نواز شریف جیل چلے جاتے ہیں تو کیا انکی عوامی مقبولیت پر ضرب لگے گی یا پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور ہو جائیں گے؟ عدالتی فیصلے یقیناََ کچھ نہ کچھ اثرات ضرور ڈالیں گے۔ لیکن یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہو گی کہ نواز مخالف جماعتیں صرف عدالتی فیصلوں سے امیدیں لگائے رکھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک کے نواز مخالف فیصلوں نے اگر کچھ دیا ہے تو صرف نواز شریف ہی کو دیا ہے۔ انکے مخالفین کو کچھ نہیں ملا۔ اصل اور بڑی عدالت عوام کی ہے جس نے اس سال کے وسط میں ایک بڑا فیصلہ صادر کرنا ہے۔

تازہ ترین